حقیقت میلاد النبی - سولہواں حصہ

11۔ قربانی ذبحِ اسماعیل علیہ السلام کی یاد ہے:-

حجاج کرام مناسکِ حج کی ادائیگی کے دوران میں اور روئے زمین پر بسنے والے دیگر مسلمان بھی عید الاضحیٰ کے موقع پر جانور ذبح کر کے سنتِ ابراہیمی کی یاد مناتے ہیں۔ یہ سارا عمل دراصل اس منظر کی یاد تازہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جب منشائے ایزدی کی تعمیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے اس میدان میں لے آئے تھے۔ یہ عظیم قربانی بارگاہِ خداوندی میں اس قدر مقبول ہوئی کہ آج بھی ہر سال حجاج کرام اس قربانی کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔

قربانی دینے کی یہ ادا اللہ رب العزت کو اتنی پسند آئی کہ اسے صرف حج کے مناسک تک محدود نہ رکھا۔ بلکہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر لازمی قرار دے دیا کہ اللہ کی راہ میں جانور قربان کریں۔

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (21۔ 110ھ) اس پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں :

ما فدي إسماعيل إلا بتيس کان من الأروي أهبط عليه من ثبير، وما يقول اﷲ عزوجل : (وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ)(1) لذبيحته فقط، ولکنه الذبح علي دينه فتلک السنة إلي يوم القيامة، فاعلموا أن الذبيحة تدفع ميتة السوء فضحُّوا عباد اﷲ. (2)

’’حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ میں بہت ہی موٹا تازہ بکرا وادی ثبیر (جبلِ مکہ) سے اتارا گیا تھا، (قرآن حکیم میں) اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فرماتا ہے : (اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ کر دیاo) اِس آیت میں ذبیحہ کو حضرت اِسماعیل علیہ السلام کے فدیہ کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر ذبح کرنا قیامت تک کے لیے سنت قرار دے دیا گیا ہے۔ (امام حسن بصری مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :) تمہیں جاننا چاہئے کہ ذبیحہ میت سے برائی کو دور کر دیتا ہے، لہٰذا اللہ کے بندو! تم قربانی کیا کرو۔‘‘

(1) الصافات، 37 : 107
(2) 1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 167
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 23 : 87، 88
3. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر و حديثه، 5 : 124

یہ عمل بلاشبہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السّلام کی عظیم قربانی کی یاد منانا (celebration) ہے تاکہ اُمت دین کی روح سے وابستہ رہے اور اللہ کی راہ میں جان ومال لٹانے میں دل ہمہ وقت تسلیم و رضا کی کیفیت میں ڈوبا رہے۔

قربانی کے جانور شعائر اللہ ہیں:-

’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘

الحج، 22 : 36

آج بھی سنتِ اِبراہیمی کے انہی واقعات کو تخیل و تصور میں لا کر قربانی کی جاتی ہے جس سے اﷲ کا پسندیدہ عمل اس کی رضا کے حصول کا باعث بن جاتا ہے۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93759 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.