سی پی او سے تعارفی میٹنگ اور صحافیوں کا رویہ

راجہ رفعت مختار کی جگہ نئے تعینات ہونے والی سٹی پولیس آفیسر گوجرانوالہ وقاص نذیر نے صحافیوں کے ساتھ تعارفی میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں گوجرانوالہ کی صحافی برادری کے تمام افراد بھرپور شرکت کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گوجرانوالہ کے صحافی کتنے متحد، منظم اور متحرک ہیں مگر بدقسمتی سے وہاں پر بننے والی صورتِ حال نے سار ا بھرم توڑ دیا، بلاشبہ ہر شعبہ اور برادری میں لڑائی جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہیں مگر گوجرانوالہ کی صحافت کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں پر صحافیوں کے مابین ہمیشہ سے اختلافات رہے ہیں اور چند مخصوص لوگوں نے اپنے نظریے اور سوچ کے مطابق صحافت کی تھیوری اپنا رکھی ہے اور جو اس تھیوری پر پورا نہیں اُترتا اُسے صحافی نہیں گردانتے اور یہی نظریہ اور تھیوری اختلاف اور فساد کی جڑ ہے، نئے سی پی او گوجرانوالہ سے ملاقات اور نشست بھی اسی نظریے اور تھیوری کی نظر ہوگئی۔ صحافت سے تعلق رکھنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ گوجرانوالہ یونین آف جرنلسٹ اس وقت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، ایک گروپ کے صدر سجاد ڈار اور دوسرے کے یاسر جٹ ہیں، صحافی ہونے کے ناطے دونوں مذکورہ میٹنگ میں موجود تھے اور ظاہر ہے دونوں نے اپنا تعارف بطور صدور کروانا تھا، یہ موقع صبر اور ضبط کا تھا جس کا ہم میں بہت فقدان ہے۔ سی پی او گوجرانوالہ وقاص نذیر نے خطاب میں اپنا وژن بیان کرتے ہوئے صحافیوں سے اس پر رائے لینا چاہی تو ایک گروپ کے صدرنے اپنے گروپ کی نمائندگی کرتے ہوئے سی پی او کو تعاون کا یقین دلایا اور صحافیوں کو پیش آنے والے مسائل پر بات شروع کی، ان کی بات جاری تھی کہ دوسرے گروپ کے صدر نے بات ٹوک کر اپنا تعارف کروا کر پہلے پر تنقید اور ان کی صدارت کی تردید کی جس پر ماحول میں گرما گرمی پیدا ہوئگی اور مجبوراً سی پی او وقاص نذیر کو میٹنگ ختم کرکے جانا پڑا۔

اپنے حق کی بات کرنا برائی نہیں بلکہ صحافت تو سکھاتی ہی حق کے لیے لڑنا ہے مگر اس کا مقام اور طریقہ بھی ہوتا ہے، گھریلو لڑائیاں چوراہوں اور تیسرے گھروں میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ ان کے لیے اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر معاملات طے کیے جاتے ہیں ۔پریس کلب صحافیوں کا گھر اور مسائل کے حل کا فورم ہے ہمیں اپنے معاملات وہاں بیٹھ کر طے کرنے چاہیں۔ سی پی او یا کسی اور افسر کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور الزامات لگانے سے نہ صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ صحافیوں کا تشخص بھی مسخ ہوتا ہے اس لیے ہمیں اپنے رویوں اور سوچوں کو بدلتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، اس میں صحافت کا معیاربھی ہے اور صحافیوں کا وقار بھی۔
Mushtaq Ahmed Sh
About the Author: Mushtaq Ahmed Sh Read More Articles by Mushtaq Ahmed Sh: 11 Articles with 7250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.