سائنس فیکشن-Science Fiction
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
ہماری انحطاط اور زوال
پذیری کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ امہ من حیث المجموع اور ہم پاکستانی بالخصوص
ایجادات ،اختراعات اور ابتکارات میں دنیا سے پیچھے ہیں ، آج کی ترقی یافتہ
دنیا کی بنیادیں طب ،تعلیم ، اقتصاد، سیاسیات ،تعمیرات ،سائنس اور
ٹیکنالوجی میں اپنے فلاسفہ ومفکرین کی ان ابداعات پرقائم ہیں ،جن کیلئے وہ
اپنے اپنے ادوار میں سرجوڑ کر سوچتے رہے ،سوچتے رہے ،سوچتے رہے ، اور
نتیجتاًوہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ، کہ فی زمانہ ہم جیسی قومیں ان کے
سائنسی اور تخلیقی معجزات کے سامنے سرنگوں ہیں ، نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان
کی پیروی اور اتباع پر مجبور ہیں ، سمندروں ،ہواؤں اور شمسی توانائی کی
تسخیر ہو، یا الیکٹرونک کی دنیا میں محیر المعقول نت نئے وسائل واشیاء ہوں
، ان سب کی بنیاد خیالات ہیں ، علم الخیالات یا سائنس فیکشن (SF) یا خیالی
ادب اور خیالی فنکاری میں ہی آج کی ترقیات کے تمام تر راز پنہاں تھے ، جن
رازوں کو سمجھنے اور روبعمل لانے کیلئے اجتھاد ، تدبر ، تفکر کے ایسے ایسے
مراحل سے صاحبانِ فکر ونظر کو گذرنا پڑا ، کہ انہیں اپنے اپنے زمانوں میں
پاگل ، خبطی اور دیوانہ ومجنون کے القابا ت کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن ان کی
اولو العزمی ، پختہ ارادہ ،عمل پیہم ،جہد مسلسل اور لامتناہی تفکیر نے آخر
کار ان میں سے بہتیروں کو ان کی زندگی میں یا بعد الموت حیات جاودانی بخشی
،مستقبل کی فکر اور ماضی کے تناظر میں آئندہ کی پیش گوئیاں ، یا معلومات کو
ترتیب دیکر مجہولات تک رسائی ہر ایرے غیرے کا کام نہیں ہے ، البتہ اس کا
مطلب یہ نہیں کہ کوئی اگر شہرتوں کی وسعتوں میں نہیں ، تو ان کے خیالات کو
یکسر مسترد کردیاجائے، اپنے بچوں ،شاگردوں اور ماتحتوں کی آراء کو سننا
چاہئیے ،کیا پتہ ان ہی معمولی انسانوں میں کل نابغہ اور عبقری پیداہوں ، اس
کی ایک وجہ یہ ہے کہ مستقبل کے حوالے سے جو ویژن ہوتاہے ، اس کا خاکہ خود
اس ویژن کا خواب دیکھنے والے کے سامنے بھی اتنا واضح نہیں ہوتا کہ اس پر
یقین کرلیاجائے ، دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ خاکہ اس مفکر کے خیالوں
میں واضح اور حتمی بھی ہے ،تو یہ ضروری نہیں کہ وہ اس سے فصاحت وبلاغت کے
ساتھ دو اور دو‘چار‘ کی طرح بیان کرسکتاہو، اس لئے افکار وخیالات کسی کے
بھی ہوں ،بیک جنبش لب انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینکنا معقول نہیں ہے ، بلکہ
نہایت دھیمے اور پیار کے انداز میں اسے سن کر اس کے مافی الضمیر تک
پہنچاجائے۔
سائنس فیکشن کو بطور ایک عظیم فن جب یورپ میں اختیار کرلیاگیا، اور اس
کیلئے دانش گاہوں میں الگ شعبے قائم کئے گئے ، تو اس کی بنیاد پر ان کے
یہاں مسلسل مشاورت ،تھینک ٹینک اور کنسلٹسی کے بے شمار ادارے قائم ہوئے ،
تب جاکر انہوں نے دنیا پر اپنی بالادستی قائم کی، کہایہ جارہاہے کہ اس فن
کے موجد یورپین ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ نے اس فن کوپروان چڑھایا ہے
، ورنہ اس کے اصل مفکرین وایجاد کنندگان عرب اقوام ہیں ، مقامات حریری
وہمدانی ،الف لیلہ ولیلہ اور حی بن یقظان کی خیالی داستانیں اس پر شاہد عدل
ہیں ،خیال ، فلسفہ ، ویژن اور فکر ونظر سے آج ہمارا معاشرہ اتنا دور ہے کہ
اگر کہیں اخوان الصفا کے ان 50 مقالوں کا تذہ کیاجائے ،جو فلسفہ میں ایک
موسوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، تواچھے خاصے پڑھے لکھوں کے سامنے بھی آدمی
جزبز سارہتاہے ، کہ کہیں میں نے کوئی غلط حوالہ تو نہیں دیا، اور وہ سننے
والے بھی فوراً موضوع بدل کر نئی بات شروع کردیتے ہیں ، آپ کی بات وہیں پر
کاٹ دیتے ہیں ، اگر آپ دوبارہ ان کو اس موضوع پر لانا چاہیں ، تو وہ کسی
ضروری کام کا بہانہ کر مجلس برخاست کردیتے ہیں ، آپ اپنا سر پیٹتے رہ
جائینگے کہ کاش یہ الفاظ یا بالفاظ دیگر یہ بکواس ہم نہ کرتے اور اچھے بھلے
دوستوں کی یہ مجلس یوں برخاست نہ ہوتی۔
آج ہمارے یہاں تنظیمیں ، پارٹیاں ، ادارے اور کیاکیا کی تخلیق نہیں ہورہی ،مگر
کسی کو یہ فکر نہیں کہ ہمارا ویژن کیا ہوگااور ہمارا مشن کیا ہوگا، ہماری
اسٹراٹیجی کیا ہوگی اور تکتیک کیا ہوگی ، یعنی لانگ ٹائم اور شارٹ ٹائم
طریقہائے کا رکیا ہوں گے ،تو ایسے میں پھر ذاتی اغراض ،اناپرستی ،خودنمائی
اور مفادپرستی ہی جب کھل کر سامنے آتی ہے ،تویہی ہوتاہے ،جو ہمارے ملک اور
عام طور پر عالم اسلام میں ہورہاہے ،ہمارے یہاں تعلیمی بورڈز اور
یونیورسٹیز سمیت تمام فکری ونظری نیز سمعی وبصری ،مطبوعاتی اور الیکٹرانک
اداروں میں تخلیقی خیالات کا قتل عام ہے ، ایجاد ،ابداع ،ابتکار کے بجائے
اغیار کی نقالی ہے ،کاسہ لیسی ہے ،خوش چینی ہے ، ان حالات میں دنیا کی زندہ
وتابندہ اور ترقی یافتہ وطاقتور اقوام کے دوش بدوش اور شانہ بشانہ چلنے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کہاں ہے ؟ ڈاکٹر عطاء الرحمن کہاں ہے ؟ اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کہاں ہے ؟ جب باصلاحیت افراد کو ہم نشانِ عبرت بنادینگے ،تو
عمران خان کی طرح ایک پلے بوائے اور طاہر القادری کی طرح ملاّ نصر الدین ہی
میدان میں ہوں گے ، شیخ رشید جیسے دیگر شیوخ بھی ان کے ہم پیالہ وہم نوالہ
ہوں گے ،تو قوم کی وہی درگت بنے گی جو آج بنی ہوئی ہے ،ہاں جو لوگ احمقانہ
انداز میں اپنے خیالات کو وقت سے پہلے زمینی حقائق سمجھ بیٹھتے ہیں ، ایسوں
کو سمجھانے کیلئے اپنے اپنے زمانے میں نئے نئے ملاّ نصر الدین ہی پیدا ہوتے
ہیں ، علم الخیالات ،مالیخولیا اور خبط میں جو لوگ فرق نہیں کرسکتے ،وہ
ایسے ہی ہوتے ہیں ،جس طرح عالم اسلام کے موجودہ حکام ہیں ۔الاماشاء اﷲ
توہم بات کررہے تھے سائنس فیکشن کی ، اس پر ایک دومثالیں دیکر بات ختم کرنا
چاہینگے دنیا کی وسعتوں کو بھی بھی کم سمجھ کر آفاق کی وسعتوں میں جانے کی
سوچ امریکی سائنسدانوں کو 1967ء سے 1972ء کے درمیان چاند کی تلاش اور اس تک
رسائی پر آمادہ کرتی ہے ،اگر سادھا سے انداز میں دیکھا جائے تو یہ ایک جنون
اور حماقت ہے ، لیکن اگر بنظر غائر اس پر سوچا جائے ، تو یہ کام جس حدتک
بھی ہواہے ، ایک لازوال کارنامہ ہے ، ان حضرات کو یہ فکر کہاں سے ملی ،ویکی
پیڈیا کے مطابق خودان سائنسدانوں نے بتایا کہ سائنس فیکشن یا ادب الخیال کے
مشہور فرانسیسی ادیب Jules verne کے ناول ’’زمین سے چاندتک ‘‘ تالیف 1865ء
نے انہیں اس رخ پے ڈالا۔اس لئے کہا جاتاہے کہ زندہ معاشرے اپنے خیال وخواب
سے عشق کرتے ہیں ،اور مردہ معاشرے جانوروں کی طرح ہوتے ہیں ، جن کو پیٹ کے
علاوہ اور کوئی شعور نہیں ہوتا۔
اسی طرح 1944 ء میں جب مشہور امریکی افسانہ نویس Cleve carlamill کی کتاب
’’آخری وقت‘‘ چھپی ، جس میں انہوں نے ایٹم بم کا ایک ایسا تصوراتی اور
خیالی نقشہ پیش کیاتھا، جو نہایت باریک بینی سے اس کے اجزاء وترکیب پر
روشنی ڈال رہاتھا، جبکہ انہیں دنوں امریکہ میں ایٹم بم کی تیاری بڑی راز
داری میں جاری وساری تھی ،اس پر امریکن انتیلی جنس اداروں میں کھلبلی آگئی،
کہ اس شخص کو توسب پتہ چل گیاہے ، لیکن تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ اس کے
خیالات اور تفکرات ہیں ،جس کاہمارے عملی کام سے کوئی تعلق نہیں ،توپھر ان
کی نگرانی ختم ہوئی۔
یہ اور اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں ،جہاں خیالات آئے ،پختہ ہوئے اور
مرورِزمانے کے ساتھ ساتھ وہ حقائق میں بدل گئے ،تو کیا ہمارے یہاں بھی
انسان کو سوچنے ،سمجھنے اور اپنی سوچوں کو پروان چرھانے کی کبھی نوبت آئیگی
؟ یا س علم وفن پر مستقل وباقاعدہ توجہ دی جائیگی؟ |
|