جاگ کہ تجھے تیری بیٹی نے پکارا ہے

 جاگ کہ تجھے تیری بیٹی نے پکارا ہے
میری قوم جاگ کہ تیرے مسلمان کہلانے میں ایک بیٹی کی پکار کا ہاتھ تھا ۔ شاید کہ عرب ہم بتوں کے پجاریوں پر ایک لمبا عرصہ اور نظر نہ ڈالتے مگر ایک بیٹی کی پکار نے حجاج بن یوسف کو تڑپا کر رکھ دیا اور یوں محمد بن قاسم ہماری خوشبختی کی نوید لے کر بر صغیر وارد ہوا۔ آج غزہ لہو کے رنگ سے رنگا ہے اور غزہ کی بیٹی چلا چلا کرکہہ رہی ہے اے غیروں کی جنگ لڑنے والے اپنے آپکو پوری ملت کا واحد نظریاتی اسلامی ملک کہنے والے واحد اسلامی ایٹمی پاور قلعہ اسلام کے دعویدار حتٰی کہ خود کو مسلمانیت کا ٹھیکیدارسمجھنے والے دیکھ کہ ظالموں نے اس عید پر مجھے مہندی کی جگہ میرے جگرگوشہ کا خون دیا ہے آ مجھکو بتا میں اس مہندی کو لگائے رکھوں یا اپنے خالق کو بتا دوں کہ تیری بھری دنیا کے عربوں مسلمانوں کے پاس میری فریاد سننے کا وقت نہیں ہے۔ہاں اور قبلہ اول بھی ذرا مایوس ہے۔ اگر اسی دنیا میں دوبارہ اٹھنے کا اختیار مختار کل نے دیا ہوتا تو صلاح الدین ایوبی تیرے جاگ اٹھنے کا انتظار نہ کرتا۔مگر نہیں ہم اپنی بیٹی کو سمجھا دیتے ہیں کہ ہم تیری مدد تو ضرورکریں گے لیکن ذرا دھاندلی کے خلاف ایک زوردار احتجاج کر لینے دو۔ تم اپنے بیٹے کی لاش کو چھپا کر رکھ دو ہم انقلاب لا کر تیری ہی مدد کرنے آ رہے ہیں ۔ بیٹی آنسو پونچھ لے میری مجبوری ہے میں نے پانچ سال حکومت کرنی ہے اگر تیری بات مان لی تو وہ لوگ میری حکومت تڑوا دیں گیااور جمہوریت کا نقصان ہو جائے گابس جمہوریت کے واسطے چپ ہو جا۔بہن ذرا ایک منٹ رکنا میں فیس بک پر تیری فریاد کیلیئے ایک لاکھ لائیکس اکٹھے کرتا ہوں ۔ارے ذرا رک یار ہم نے ایک ان جی او سے تیرے بیٹے کا کفن مانگا ہے ۔ ارے ٹہر میری پیاری میں ابھی ایک بریکنگ نیوز چلوا دیتا ہوں کہ غزہ کی بیٹی کو اپنے لخت جگر کی جدائی کا بدلہ لینے کیلئے ایک غیرت مند بھائی کی تلاش ہے۔غیرت سے یاد آیا اس بھری دنیا میں سب سے بڑے غیرت مند ہونے کے دعویدار بھی ہم اکلوتے ہی ہیں ۔ ہم غیرت کے نام پر روزانہ بیسیوں قتل کر دیتے ہیں ۔پسند کی شادی کا نام لینے والوں کو ہم غیرت کا پٹرول چھڑک کر بھسم کر کے رکھ دیتے ہیں ہم اپنی جان سے پیاری بہن کو تیزاب میں غسل دیتے ہیں کیونکہ ہماری غٰٰیرت گواری نہیں کرتی مگر غیرت کی بات ہے کی غزہ کی بیٹی کی پکار پر میری غیرت کہاں سو گئی ہے اور ہاں وہ گلی کی نکر میں بیٹھا بابا دیکھو کیا بکتا ہے غیرت کا سبق سیکھنا ہے تو سعیدہ وارثی سے سیکھوبڑا آیا بتانے والا بے چاری وزیر سے فقیر بن گئی ۔ بڑی غمخوار بنتی ہے اسے کرسی کی قدر کی قدر ہی نہیں ہے۔ورنہ ہماے ہاں جس کو کرسی ملتی ہے اگر دنیا اعتراض نہ کرتی تو اپنی لاش دفنانے کی بجائے اسی کرسی پر سجائے رکھنے کی وصیت کرتا۔ارے ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں رہا تیرے بارے میں سوچے جا رہا ہوں چل چلتی بن اگر انکل سام کو پتا چل گیا تو مجھ سے ناراض ہو جائے گا ۔ نا بابا نا میں نے تیری آہ و زاری سنی ہی نہیں ہے مگر ایک مشورہ ہے ہٹلر کی قبر پہ چلی جا اور اسے دکھا کہ تجھے رہتی دنیا میں پارسا بننے کا بہت شوق تھا نا دیکھ تیرے پارسائی کے جنون نے مجھے ڈس لیا ہے۔ اگر تو اپنی پارسائی سے باز آ کر قصہ ہی ختم کر دیتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ،لیکن ایک طعنہ وہ بھی دے گا کہ تو کرار کی بیٹی ہے تو ابن ولید کی ہم نسل تو طارق بن زیاد کا خون اور تیری کوکھ میں تو ایوبی پلا کرتے تھے تجھے یہ اہ و بکا زیب نہیں دیتی بس پلکیں نیچی کر کے سن لینا کیونکہ وہ تیرا محسن ہے۔ہاں ہو سکتا ہے وہ تجھ پہ ترس کھا لے مگر مجھ پر تو ترس کھا کہ میں اپنی ذات میں بٹا پڑا ہوں مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں پنجابی ہوں سندھی ہوں سرائیکی ہوں بلوچی ہوں ہزارے وال ہوں پٹھان ہوں یا کسی ایک ملت کا فرد ہوں میری تو پہچان ہی گڈ مڈ ہو کئی ہے۔میں شیہ ہوں سنی ہوں وہابی ہوں اہلحدیث ہوں سبز پگڑی والا ہوں یا سفید والا کرتے والا ہوں یا قمیص والا اونچے پائنچے والا ہوں یا نیچی شلوار والاہاتھ باندھنے والا ہوں یا چھوڑنے والا ہر کوئی مجھے کافر کہتا ہے میں دوسروں کو کافر کہتا ہوں ہم آپس میں یہ طے نہیں کر سکے کہ ہم میں سے مسلمان کون ہے اور تو بضد ہے کہ میں دنیا کی جری اور طاقتور ترین قوم کو صدا دے رہی ہوں ۔تجھے کسی نے غلط بتایا ہے۔ ارے کیا تو کہتی ہے ہم خواب غفلت میں ہیں یہ تیری بھول ہے ہم غافل نہیں ہیں ہم سوئے ہوے بھی نہیں ہیں ہم سیانے ہو گئے ہیں ہم سب نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ یاد کر لیا ہے۔ ہم نے اسلام کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔ ویسے ہمارے پاس مجاہدین کی کمی نہیں ہے مگر تھوڑے مصروف ہیں ایک ٹولہ مسجد اڑانے گیا ہے مسجد ہے تو کیا ہوا ہے تو دوسرے فقہ والوں کی نا۔ایک گروہ سکول میں بم دھماکے کرنے گیا ہے کیونکہ ہمیں اپنی بیٹیوں کیلئے ایسی تعلیم گوارا نہیں لہذا آسان حل ہے بیٹیوں کو ہی اڑا دو۔ ہاں ہمارے پاس ایٹم بم ہے مگر پچھلے پندرہ برس سے اسی نامراد کو تو چھپاتے پھر رہے ہیں کہ کوئی چھین کے نہ لے جائے۔ ہم کسی کو اسکی تڑ کیا لگائیں ہم تو الٹا اس کی حفاظت بڑی مشکل سے کر رہے ہیں انکل سام کل بھی کہ رہے تھے یہ مجھے دے دو اچھے بچے ایسے خطرنات کھلونے اپنے پاس نہیں رکھتے اور ویسے جب بھی ضرورت ہو لے لینا میں تو بس اسکی حفاظت کیلئے تیرے سے لے رہا ہوں۔ہمارے پاس دنیا کی نویں بہترین گوریلا فوج ہے مگرکیا کریں اسلام آباد کی رکھوالی کس سے کروانی ہے ہاں سرحدوں کی تو فکر نہ کر وہ محفوظ ہیں بس اسلام آباد تھوڑا غیر محفوظ ہے۔ تو سمجھی نہیں نا لے سن ہم نے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دے دیا ہے ارے اسکا آرمی چیف جو مرضی کہتا رہے میں نے کہ دیا نا وہ ہمارا پسندیدہ ملک ہے اور ہاں توں ڈھونڈ نا اگر کوئی تیری مدد کرنے والا سامنے آ گیا تو اسے کشمیریوں کی مدد کیلئے کہ دینا وہ بے چارے بھی پریشان ہیں اور ذرا انہیں تسلی بھی دیتی جانا میں تو ذرا ان کو تسلی دینے لگوں گا تو دہشت گرد کہلاؤں گا ویسے تو سچ کہتی ہے اب تو دہشت گردی میں لفظ دہشت سراسر الزام ہے جب ہم میں دہشت تھی تو تلوار کی ایک چمک پر پورا یورپ لرز جاتا تھا ۔ اور اب جا بھی میں روشن پاکستان کا باسی ہوں میں تیری باتوں میں آنے والا نہیں ہوں تو مجھے طعنہ دیتی ہے کہ دشمن آرمیگاڈون سجائے بیٹھا ہے اور میں غافل ہوں تو پھر انتظار کر ظہور مہدی بھی ہونے کو ہے۔ پلیز اچھی بہن چلی میں پریشان ہوں میں نے جب سے روشن پاکستان کا نعرہ لگایا ہے تاریکی میرا مقدر بنتی جا رہی ہے ۔
ghulam mustafa
About the Author: ghulam mustafa Read More Articles by ghulam mustafa: 7 Articles with 7095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.