’’ہمیں سب پتا ہے۔ حکمران
ہمارے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، حالت ان کی یہ ہے چار صوبے نہیں سنبھال
سکتے۔ یہ اچھا ہوا مشرقی پاکستان جدا ہوگیا۔ آئے روز سیلاب آتے تھے، ہماری
معاشی حالت پتلی کردیتے۔ اب اپنا کمائیں خود کھائیں۔ ابوالکلام آزاد نے
درست کہا تھا کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے، اگر یہ بن بھی گیا تو ناکام رہے
گا۔ آج ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ویسے جو نعرہ قیام پاکستان کے وقت لگایا
گیا تھا، یہ ریاست تو اس پر پوری اترتی ہی نہیں ہے۔ پاکستان سے زیادہ
مسلمان تو بھارت میں آباد میں ہیں۔ تحریک پاکستان کے رہنما پتا نہیں کس کے
فریب میں آئے تھے۔ ٹھیک ہے ہندو ظالم تھے، مسلمانوں کو برداشت نہیں کرتے
تھے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان جو لکیر کھینچی گئی، اس سے ہماری
قوت تقسیم ہوئی ہے۔ برطانیہ نے ویسے ہی ہندوستانیوں کو آزادی نہیں دی،
انہوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ ہمیں تقسیم کرکے اپنی راہ لی ہے۔ یہ سب کچھ
پاکستان کی درسی کتب میں پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ اسکول سے لے کر ڈگری کلاسز
تک مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں بس ایک ہی پٹی پڑھائی جاتی ہے۔ تحریک علی
گڑھ، مسلم لیگ، میثاق لکھنؤ، قائد اعظم کے چودہ نکات، علامہ اقبال کا خطبہ
الہٰ آباد، قرار داد پاکستان..... یہ ہمیں بار بار اسی لیے پڑھایا جاتا ہے
تاکہ ہمارے ذہنوں میں پاکستان راسخ رہے۔‘‘
یہ ہے وہ الفاظ اور جملے جو نوجوانوں سے سرعام سننے کو ملیں گے۔ نجی
محفلوں، تعلیمی اداروں، چائے خانوں میں سجی مجلسوں اور سماجی رابطوں کی ویب
سائٹس پر بیٹھنے والے ’’تجزیہ کاروں‘‘ سے ان الفاظ کا سننا اچھنبے کی بات
نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پیٹ سے سوچنے والے تیس مار خاں بہت ملیں گے۔ حالت ان کی
یہ ہے کہ اپنی جاہلانہ سوچ کے مطابق بے وقوفانہ بات کہہ کر بھی داد وصول
کرنے کے منتظر رہیں گے۔ دراصل معاشرے کا یہ قابل ترس طبقہ لفظ ’’پاکستان‘‘
سے ہی نا آشنا ہے۔ پاکستان محض چند حرفوں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک سوچ
اور نظریے کا نام ہے۔ وہ نظریہ جس کی آبیاری ازل سے کی جا رہی ہے۔ اگر
برصغیر پاک و ہند میں دیکھا جائے تو یہ کہنا ذرا بھی غلط نہ ہوگا کہ ’’عظیم
پاکستان‘‘ کی بنیاد تیرہ سو سال پہلے محمد بن قاسم نے رکھی تھی۔ قائد اعظم
محمد علی جناح نے بھی کہا تھا کہ پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا، جس
روز برصغیر میں پہلا غیر مسلم تبدیل ہوکر مسلمان ہوا۔ یہ نظریہ مسلمانوں کے
سیاسی، معاشی، مذہبی اور معاشرتی تحفظ کا ضامن ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر
مسلمان دیگر باطل ادیان، افکار اور اقوام سے ایک الگ اور ممتاز قوم ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں برسوں سے آباد تھے، آخر کیا وجہ ہے کہ
اقتدار پر انگریزوں کے قبضے کے بعد انہوں نے ایک الگ اور جدا وطن کا مطالبہ
کیا؟ ہندوستان کی تاریخ اور حالات و واقعات کو پرکھا جائے تو یہ تسلیم کیے
بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا کہ مغلیہ سلطنت کے زوال اور 1857ء کی جنگ آزادی کی
ناکامی کے بعد ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔
ماسوائے اس کے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان کے رہنما اس بات پر بضد تھے کہ ہندوستان کے
مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک الگ اور آزاد ریاست قائم کی جائے۔ وہ اس
نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ دو ایسی اقوام جن کا مذہب، طرز فکر، نظریات و
افکار، سیاست و معاشرت، تہذیب و ثقافت، رہن سہن، طرز بود و باش الغرض ہر
زاویے سے وہ ایک دوسرے سے جدا ہو، وہ ایک دوسرے مدغم کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ
محض جذبات کا اظہار نہیں حقیقت ہے۔ جنگ آزادی کے بعد متحدہ ہندوستان کے
مختلف اقوام میں اتحاد کے بہت داعی سرسید احمد خان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی
تحریریں اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن بہت جلد وہ بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے
کہ ہندو اور مسلمان دل و جان سے کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتے۔ رہ گیا یہ سوال
کہ پاکستان سے زیادہ مسلمان تو بھارت میں آباد ہیں۔ اسے دو متضاد قوموں کی
جدائی کیسے تسلیم کیا جائے؟ عرض یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر
ہندوستان کی تقسیم کو غلط قرار نہیں دے سکتے۔ نکتہ چینوں کو یہاں ایک لمحہ
رک کر ریڈ کلف ایوارڈ کا جائزہ لینا چاہئے۔ سرحدوں کی حد بندی کے دوران
پاکستان کے ساتھ ناقابل تلافی زیادتی کی گئی ہے۔ بنگال میں ضلع مرشد آباد
کے علاوہ مشرقی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے اور کشمیر سے ملحقہ ضلع
گورداس پور بھارت کے حوالے کیے جانے سے مسلمانوں کی بڑی اکثریت بھی کٹ کر
وہیں رہ گئی۔ اس کے علاوہ بھارت نے جوناگڑھ، مناوادر، منگرول، حیدر آباد
دکن، ٹراونکور اور کشمیر جیسے بڑے مسلم اکثریتی ریاستوں پر قبضہ بھی کر
رکھا ہے۔ اس ظالمانہ رویے کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود
انتہائی غیر محفوظ ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے مشرقی
بارڈر کو سازشی لکیر سمجھنے والے بھارت کے جواں سال مسلمان رہنما اکبرالدین
اویسی کی تقریریں سنیں، جو یہ سمجھنے میں آپ کی مدد کریں گی کی آزادی کتنی
بڑی نعمت ہے۔
یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے۔ جسے ہمارے ذرائع ابلاغ میں شد و مد سے اچھالا
گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح مولوی تھے یا مسٹر؟ بظاہر یہ ایک فضول بحث
ہے۔ لیکن ہمارے ’’دانشور‘‘ اس کے ذریعے اساسِ پاکستان پر سوالیہ نشان مرتب
کر رہے ہیں۔ اس لیے اس پر بحث کو ضروری سمجھتا ہوں۔ نکتہ چینوں کو واضح
کرنا چاہئے کہ مولوی سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مولوی
سے مراد وہ شخص جو ہماری نمازوں کا امام بنے۔ روزہ، زکوۃ کے جملہ مسائل
بیان کریں۔ نکاح و وفات کے موقع پر ان کی خدمات حاصل کی جائے۔ تو محمد علی
جناح اس تعریف کی روشنی میں مولوی بالکل بھی نہیں تھے۔ اب مسٹر کو بھی
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسٹر سے مراد وہ ’’روشن خیال‘‘ جو نظریات کا سودا
کرنے والا ہو۔ دین اس کے حلق سے نیچے نہ اترتا ہو۔ باطل ادیان و افکار کو
اپنانے میں حرج محسوس نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں محمد علی جناح پر مسٹر کے
حرف میم کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ وہ ایک سَچے سُچے اور سیدھے سادے مسلمان
تھے، جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی بہترین وکالت کرکے ان کے مستقبل کو محفوظ
بنانے کی خاطر گراں قدر خدمات سرانجام دی ہے۔
اگر نظریہ پاکستان کا کھلے دل و دماغ سے بغور مطالعہ کیا جائے تو کسی ذی
شعور سے پاکستان کی اہمیت و افادیت مخفی نہیں رہے گی۔ پاکستان کسی معاشی یا
سیاسی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ بلکہ قیام پاکستان
کا اہم مقصد مسلم نشاۃ ثانیہ کے لیے محفوظ مرکز کی فراہمی ہے۔ یہ الگ بات
ہے کہ بعد کے ادوار میں پاکستان کو ایسی قیادت میسر آئی، جنہوں نے ذاتی یا
سیاسی اغراض کے لیے نظریہ پاکستان کو پس پشت ڈالا۔ حکمران طبقے سے سرزد
کوتاہیوں، خامیوں اور سرکشیوں کا ذمہ دار ریاست کو قرار دینا کہاں کا انصاف
ہے؟ ضرورت اس مر کی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو صحیح معنوں میں اپنی اصل
اساس پر استوار کیا جائے۔ کیونکہ یہ ملک بے لوث جدوجہد کی بدولت عظیم مقصد
کی تکمیل کے لیے وجود میں آیا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ نظریہ پاکستان کے
لیے دی گئیں قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ علامہ اقبال نے درست کہا ہے
کہ
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے |