لفظ فیشن کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جس میں
روش،طرزِادا،انداز، ڈھنگ،طورطریقہ،رائج الوقت لباس اور رواج وغیرہ شامل ہیں۔
فیشن کوئی فن نہیں ہے نہ ہی یہ کسی تہذیب کی علامت ہے بلکہ یہ اشتہار بازی
کا ایک ذریعہ ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان کی زندگی میں اسکے رہن سہن
میں اس کی عادات واطوار میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔لیکن ہر
چیز کی ایک حد ہو تی ہے،ایک صحت مند انسان کے لیے خالص غذا اس کی ضرورت
ہے،لیکن یہی غذا خواہ کتنی خا لص ،صاف،مقوی،اور لذیذ ہو،ضرورت سے زیادہ کھا
لی جائے اور بے وقت معدے میں اتار دی جائے تو تریاق کی بجا ئے زہر بن جاتی
ہے۔ اور جا لینوس کی حکمت سے لیکر آج کے جدید وقتوں کی ہر طب میں مضر سمجھی
جاتی ہے۔خواہ وہ دیسی گھی،مکھن اور شہد ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح فیشن بنیادی
اور ناگذیر ضرورت نہیں ہے بلکہ دل لگی،تفریح اور سٹیٹس سِمبل ہے۔
اس وقت پاکستان میں رائج فیشن کے طریقے سراسر مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔جس سے
ہمارے معاشرے پر ، تہذیب و تمدن پرہماری دنیاوی اور ساتھ ہی ساتھ اخروی
زندگی پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں ان میں سب سے پہلے مغربی لباس کا
استعمال ہے۔
۱۔مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اثرات کا ایک مضر پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک کو
اپنی شے غیر مہذب اور گھٹیا لگنے لگتی ہے مغربی لباس ہمارے لئے تہذیب یافتہ
ہونے کی علامت بن چکا ہے ہر مسلمان اپنے روایتی لباس کو چھوڑ کر اس کو
اپنانے پر بضد نظر آتا ہے۔
ایران کی حالت اگرچہ آج مکمل طور پر بدل دی گئی ہے لیکن یہ حقیقت کسی سے
چھپی نہیں کہ چند برس قبل ایران مغربی تہذیب کے اثرات قبول کر نے میں پیش
پیش تھا۔انڈونیشیا کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔یہی حال عرصہ دراز سے
پاکستان کا ہے تھری پیس سوٹ کا رعب آج بھی دماغوں سے نہیں نکل سکا۔
۲۔فیشن بے حیائی اور فحاشی کابھی سبب بنتا ہے۔اس حقیقت کو مولانا مودودی ؒ
نے ان ا لفاظ میں بیان کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے لباس کے لئے نئے شہوت انگیز
اور عریاں فیشن نکالے خوبصورت عورتوں کو اس لئے مقرر کیا کہ وہ ان کو پہن
کر سوسائٹی میں پھریں تاکہ مرد کثرت سے ان کی طرف راغب ہوں اور نوجوان
لڑکیوں میں ان لباس کو پہننے کا شوق ہو۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایاکہ
دوزخیوں کی ایک جماعت ایسی عورتوں کی ہو گی جو کپڑے پہنے ہوئے ہو گی لیکن
اس کے باوجود ننگی ہوں گی یہ عورتیں نہ جنت میں داخل ہوں گی نہ اس کی خوشبو
سونگھ سکیں گی اور اس میں شک نہیں کہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی
ہے۔(صحیح البخاری و مسلم)
۳۔بطورِ فیشن عورتوں کا جینز ،ٹی شرٹ و غیرہ پہننا اور اس پر عذابِ الٰہی
کی و عید۔حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی
جو مرد کا لباس پہنے(ابو داؤد)
۴۔عورتوں کا ابرو کے بال باریک کروانااوردانتوں میں کشادگی پیدا کرنا۔اس
سلسلے میں نبیﷺ نے فرمایا
لعنت ہو ان عورتوں پہ جو ابرو کے بال نوچتی ہیں تاکہ بھنوئیں باریک ہو
جائیں۔خدا کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو حسن کے لئے دانتوں کے درمیان کشادگی
کرواتی ہیں ۔جو اﷲ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں(البخاری)
۵۔فیشن بے پردگی کا باعث بنتا ہے۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت
فاطمہ کے ہمراہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا پیارے نبیﷺ اشک بار تھے ہم نے
سبب گِریا پوچھا تو ارشاد کیا کہ میں نے شبِ معراج عورتوں کے عذاب دیکھے
تھے آج وہ منظر پھر یاد آ گیا اس لئے رونا آ گیا ۔حضرت علی نے کہا کہ ہمیں
بھی بتائیے کہ آپ ﷺ نے کیا کیا دیکھا نبیﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ
ایک عورت بالوں سے لٹکی ہوئی ہے اور اس کا دماغ ہول رہا ہے یہ اس کی سزا
تھی جو اپنے بال غیر مردوں سے نہیں چھپاتی تھی۔
۶۔فیشن بے جا اسراف و تبذیرکا سبب بنتا ہے۔ہم شاد ی بیاہ کے موقعوں پراپنی
بچیوں کو معاشرے میں اپنا نام قائم رکھنے کے لئے بے تحاشا جہیز دیتے ہیں جو
معاشرے میں بہت سی خرابیوں کا سبب بنتا ہے اس سلسلے میں نبیﷺ نے فرمایاکہ
بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس میں بوجھ کم ہو(مسند احمد)
۷۔مغربی نظامِ تعلیم کو بطورِ فیشن ترقی دی گئی اور اپنے اسلاف کے اسباق کو
ہم نے بھلا دیا۔ایک مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب شحض ایک طالبِ علم کے پاس
سے گزرا جو بخاری شریف کا مطالعہ کر رہا تھا اس نے طا لبِ علم کا مذاق
اڑاتے ہو ئے کہا کہ لو گ چاند پر پہنچ چکے ہیں اور تم ا بھی تک بخاری ہی
پڑھ رہے ہو۔
طا لبِ علم نے جواب دیاکہ تم نے نہ تو بخاری شریف پڑھی اورنہ ہی چاند پر
گئے۔پھر خودہی بتاؤ ہم میں سے افضل کون ہے ؟؟؟؟؟
۸۔مغربی زبان کا استعمال ہم میں رواج پا گیا ہے اور جو یہ زبان نہیں جانتا
اس کا مذاق بنانا ہمارا پسندیدہ کام ہے حالا نکہ اس سلسلے میں نبیﷺ کا
ارشاد با لکل واضح ہے آپﷺ نے فرمایا
کلموالناس علی قدر عقلھم(الحدیث الشریف)
۹۔اونچی ایڑھی والی جو تی کا استعمال یہ اسلام میں کراھت کا حکم رکھتا ہے
کیونکہ اس میں دھوکا ہے۔عورت دراز قد معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ ایسی نہیں ہو
تی۔
۱۰۔ بطورِفیشن مصنوعی بال لگانا
نبیﷺ نے فرمایا اﷲ کی لعنت ہو اس عورت پہ جو بالوں کو لمبا یا پھولا ہوا
بنانے کے لئے دوسرے کسی مرد یا عورت کے بال اپنے بالوں میں یا کسی اور کے
بالوں میں ملا لے اور اس عورت پر بھی اﷲ کی لعنت ہو جو کسی عورت سے کہے کہ
دوسروں کے بال میرے بالوں میں ملا دو فرمایا اﷲ کی لعنت ہو اس عورت پر جو
گوندھنے والی اور گوندھوانے والی ہو۔(صحیح البخاری و مسلم)
۱۱۔بطورِ فیشن چھری اور کانٹے کا استعمال جو کہ ہماری تہذیب ہر گز نہیں۔اور
نبیﷺ نے ہمیں کھا نا کھا لینے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم دیا ہے ۔کیونکہ
اس طرح انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رھتا ہے۔
بطورِ فیشن اپنائے گئے یہ رواج نہ صرف ہماری آخرت کی بربادی کا باعث ہیں
بلکہ معاشرے پر بھی اس کے بہت مضر اثرات نقش ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی اکثر آبادی آج بھی محنت کش طبقے پر مشتمل ہے جو ایسی کسی فیشن
پریڈ میں شامل نہیں ہو سکتی۔لاکھوں بچے لباس کے نام پر چیتھڑوں پر گزارا
کرتے ہیں۔بے شمار بچیاں مانگے تانگے کے سادہ کپڑوں میں گھر سے رخصت ہوتی
ہیں۔لاکھوں گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔یہ ہماری اصل اوقات اور حقیقی
کلچرہے۔
پاکستان گلبرگ، ڈیفنس، کینٹ، گارڈن ٹاؤن اور کلفٹن کا نام نہیں ہے یہ تو
محض چند علاقے ہیں۔باقی سارا پاکستان چاغی، مستونگ، تھرپارکر،چولستان،
روجھان جیسے علاقوں پر مشتمل ہے۔جہاں کے لوگوں کے اوقات بہت تلخ،چہرے
پثرمردہ، لباس گرد آلود،بال اٹے ہوئے اور آنگن اجڑے ہوئے ہیں۔فیشن ابھارنے
والوں کو با لکل خبر نہیں کہ ان کے گِردوپیش میں لاکھوں بیٹے اور بیٹیاں
ایسی ہیں جس پر جوانی آنے سے پہلے بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے۔جس کے چہرے کھلنے
سے پہلے مرجھا جاتے ہیں۔جس کے خواب تعبیر پانے سے پہلے پریشان ہو جاتے
ہیں۔جس کی آرزوئیں پوری ہونے سے پہلے ادھوری رہ جاتی ہیں۔جس کے رنگ نکھرنے
سے پہلے بکھر جاتے ہیں۔
آج فیشن اور گلیمر اس ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ شرفِ انسان اس ملک کا مسئلہ
ہے،حیا و مروت اس ملک کا مسئلہ ہے،ظلم سے نجات اور ناموس اور جان کا تحفظ
اس ملک کا مسئلہ ہے۔آج ہم نے اگر فیشن انڈسڑی میں عالمی ریکارڈ قائم نہیں
کیا تو گزارا ہو جائے گا۔لیکن اگر ہم اسی فیشن پریڈ کا حصہ بنتے ہوئے تہذیب
سے عاری ہو گئے،جھوٹ اور سچ کی تمیز کھو بیٹھے اور بنیادی اخلاقی اقدار سے
ہاتھ دھو بیٹھے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔
آخر پر اﷲ کا فرمان کہ
وما الحیوۃ الدنیا الا متاع غرور(القرآن)
اﷲ ہم سب کو آخرت کے لئے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تمت با لخیر۔۔۔
از قلم
زنیرہ یوسف(ایم اے علوم الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی) |