میں جب بھی لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے گزرتا ہوں
تو نہ صرف میرے لیے حیرتو ں کے نئے جہان کھلتے ہیں بلکہ میں سوچنے پر مجبور
ہوجاتا ہوں کہ ہم تو دووقت کی روٹی کھانے اور معاشرے میں باعزت طور پر زندہ
رہنے کو بھی ترستے جارہے ہیں لیکن ڈیفنس میں وسیع و عریض خوبصورت بنگلوں کی
قطار تا حد نظر دور تک پھیلی دکھائی دیتی ہے ہر بنگلہ دوسرے سے مختلف اور
خوبصورت نظرآتا ہے ایک کو دیکھ کر ابھی جی نہیں بھرتا کہ اگلا اس سے بھی
زیادہ پرکشش لگتا ہے ہر بنگلے میں چار پانچ گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں ۔اے اﷲ
ان لوگوں کے پاس پیسہ کہاں سے آتاہے ۔مہنگے ترین علاقے میں رہنے والوں کے
ماہانہ اخراجات بھی تو لاکھوں میں ہوں گے ۔ ڈیفنس میں ایک عام کوٹھی کی
قیمت بیس پچیس کروڑ سے کم نہیں ہے DHA 1 سے 8 تک ایک کینال سے دو تین کینال
کے وسیع و عریض بنگلے ہزاروں کی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں ۔پھر ہر بنگلے
کے سامنے پھول پودوں اور گھاس کے لیے اتنی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے جتنی جگہ
ہمیں گھر بنانے کے لیے بھی میسرنہیں آتی ۔یہ سوچتے سوچتے جب میں نیشنل
ہسپتال ڈیفنس پہنچا جہاں مجھے آرتھوپیڈک ڈاکٹر سے اپنے گھٹنے کا آپریشن کے
بعد چیک اپ کروانا تھا ہسپتال کے گراؤنڈ فلور پر رکھی گئی دو تین سوکرسیوں
میں سے کوئی ایک بھی خالی نہیں تھی وہاں آنے والوں کا لباس اور چہروں سے
آسودگی واضح دکھائی دے رہے تھی ۔میری یہ مالی استطاعت نہیں کہ میں نیشنل
ہسپتال جیسے مہنگے ترین ہسپتال میں جاکر علاج کرواں کیونکہ میرا شمار بھی
غریب اور متوسط طبقے میں ہوتا ہے جو دس روپے کی پرچی بنوا کر کسی بھی
سرکاری ہسپتال میں سارا سارا دن لائن میں لگ کر گزار دیتے ہیں لیکن نیشنل
ہسپتال ڈیفنس میں آپریشن کروانے کا اعزاز مجھے ایک ادارے کی سپانسرشپ کی
وجہ سے حاصل ہوا ۔وہاں ڈیڑھ سو ڈاکٹروں کے نام ٗ ا ن کے شعبے اور ڈگر یوں
کا ذکر بورڈ پر جعلی حروف میں آویزاں تھا جن پر نمایاں طور پر لکھا تھا کہ
یہاں دستیاب سپیشلسٹ ڈاکٹرز کن کن سرکاری ہسپتالوں سے میں جاب کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود کہ ایک وزٹ کی فیس 2 ہزار روپے سے کم نہیں ہے پھر وہاں امیر
اور خوشحال مرد و زن اس طرح جوق در جوق آتے ہیں جیسے وہ ہسپتا ل میں نہیں
ہنی مون منانے آئے ہیں۔ان کو دیکھ کر مجھ جیسے لوگ احساس کمتری کایقینا
شکار ہوجاتے ہیں جن کے پاس نہ توکوئی سواری ہے اور نہ ہی اس کو خریدنے اور
چلانے کے لیے پیسے موجود ہیں جن کے پاس گاڑیاں ہیں ان کا دماغ بھی آسمانوں
پر سفر کرتا ہے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں میں ایک ایسے ادارے سے وابستہ رہا
ہوں جہاں مجھے 30 ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی ۔کہنے کو 30 ہزار روپے
ماہانہ تنخواہ بہت بڑی رقم دکھائی دیتی ہے لیکن اتنی تنخواہ میں بھی گھر کے
اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے ۔اشیائے خورد نوش کی قیمتیں اس قدر آسمان پر
پہنچ چکی ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھانا بھی محال ہوچکا ہے ۔دکانوں پر سجے
ہوئے آم ٗانگور ٗ سیب اورکیلے تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن چاہنے کے باوجود
خرید نہیں پاتا کیونکہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ میں اور میری بیوی اس نہج پر
پہنچ چکے ہیں جن کی ماہانہ ادویات کا بل چار سے پانچ ہزار روپے سے تجاوز
کرجاتاہے کبھی نزلہ ٗکبھی بخار ٗ کبھی پیٹ میں درد ٗکبھی آنکھوں کا پرابلم
ٗ کبھی ٹانگوں میں درد ٗ کبھی بلڈ پریشر صحت کے دروازے پر دستک دیتا سنائی
دیتا ہے ۔مجھے گھٹنوں کے درد کے علاوہ سماعت میں کمی کا مرض بھی لاحق ہے
ایک ماہر ڈاکٹر سے آپریشن کی بات کی تواس نے صرف ایک کان کے آپریشن کے
اخراجات 20 لاکھ بتاکر مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا ۔ان حالات کو
دیکھ کر امیر زادوں کی چمک دمک اور امارت دیکھ کر میں نفسیاتی مریض بنتا
جارہاہوں کیونکہ جب بھی میراکسی پرائیویٹ ہسپتال ٗ ڈیفنس جیسی مہنگی مارکیٹ
یا کسی بھی فائیو سٹارہوٹل سے گزر ہوتا ہے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی
ہیں اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ آخر ان لوگوں کے پاس پیسہ آتا کہاں سے ہے
۔ ہوٹلوں میں جاکر کھانا تو دور کی بات ہے جی بھر کے موسمی پھل نہیں کھا
سکے ٗ کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش بہت اچھی لگتی ہے وہ بھی ہماری مالی استطاعت
سے باہر نکل چکی ہے ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ غریب اور امیر کا فرق دن بدن
بڑھتا ہی جارہاہے رزق ہلال سے تو دو وقت کی روٹی کھانا بھی محال ہوچکا ہے
بچوں کو تعلیم کیسے دلوائی جائے اپنااور اپنے خاندان کاعلاج کہا ں سے
کروایا جائے موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوانے کے لیے بھی اب تو پیسے نہیں
رہے۔یہ حیرا ن کن خبر بھی اخبارمیں شائع ہوچکی ہے کہ پاکستانی عوام کو
پٹرول 107 روپے فی لیٹر اور ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والا خالص ترین
پٹرول 61 روپے لیٹر فراہم کیاجاتاہے گویا 46 روپے ایک لیٹر پر عوام سے ٹیکس
وصول کیا جارہاہے۔اس کے باوجود لاہور کی ہر چھوٹی بڑی سڑکوں اور چوراہوں پر
نئی سے نئی اور قیمتی سے قیمتی گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہم کو ہر روز منہ
چڑاتی ہیں۔ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم کس دنیا کے لوگ ہیں کہ ساری
عمر محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی نہ تو ڈھنگ کا کوئی مکان بنا سکے اور ہی
کوئی کار خرید سکے۔ لیکن کوٹھی کار بنگلوں ہوٹلوں پلازوں جنرل سٹوروںٗ شادی
گھروں اور فیکٹریوں کے مالکان ہیں ان کے پاس لامحدود مال و دولت کہاں سے
آتی ہے۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ حکومت جب ٹیکس لگاتی ہے تو ہم جیسے غریب
تنخواہ دارطبقے اوراپنی جیب سے خریدکر روٹی کھانے ٗ پٹرول ڈلوانے ٗ بجلی
گیس کے بل ادا کرنے والوں پر سیلز اور ودتھ ہولڈنگ ٹیکس لگاتی ہے ۔کروڑ پتی
اور ارب پتی لوگ پھر بچ جاتے ہیں کیونکہ انہیں بچنے کاطریقہ آتا ہے۔امیر
اورغریب کے مابین بڑھنے والا یہی فرق ذہنوں میں انتشارٗ بغاوت ٗ دلوں میں
نفرت اور جرائم کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے ۔چوروں ٗ ڈاکووں ٗ اغوا کاروں
اور بھتہ خوروں کے نئے سے نئے گروہ پیدا ہورہے ہیں جو اپنی غربت مٹانے کے
لیے دوسروں سے دولت چھیننا اپنا حق تصور کرنے لگے ہیں اور جو یہ کام نہیں
کرسکتے وہ خاموشی خود کشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ |