15 اگست : جشن یوم آزادی یا یوم احتساب !!!
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
آج 15 اگست 2014 ہے۔ پورا
ہندوستان 68 ویں یوم آزادی کا جشن منارہا ہے ۔ آزادی کا نعمہ گارہا ہے ۔اکابرین
کی قربانیوں کویاد کررہا ہے۔لیکن میرے ذہن میں مسلسل یہ سوال گردش کررہا ہے
کہ کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟ آزادی کا جشن منانا ہیمں زیب دیتا ہے ؟؟؟ ہم کیوں
جشن آزادی منارہے ہیں؟؟؟۔
آزادی یہ ایک ایسالفظ ہے جو ہمیں اکثر ملی نغموں میں بھی سننے کو ملتا ہے
اور مباحثوں میں بھی سننے کو ملتا ہے۔ کبھی حکومتی عہدیدار اپوزیشن کی
تنقید کے جواب میں یہ راگ ا لاپ رہے ہوتے ہیں۔ اور کبھی اپوزیشن کے کرتا
دھرتا حکومت کی ٹانگ کھینچنے کے لیے اس جملے کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم
میں سے کسی نے آزادی کے اصل مفہوم کو سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔ ہم ایک آزاد
ملک تو کہلواتے ہیں لیکن آج تک ہم ایک آزاد قوم نہیں بن سکے۔ ہم اجتماعی
طور پر آج بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہی زنجیریں انفرادی
سطح پر بھی ہمیں اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔
مختلف ادوار میں آزادی کی مختلف تعریف کی گئی۔ آزادی کے لیے انگریزی زبان
میں " فریڈم " کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور " انڈیپنڈنس" کا بھی۔ ان
زبان کے قاعدوں کے حساب سے دیکھا جائے تو ان الفاظ میں کچھ فرق ہو سکتا ہے
لیکن استعمال کے حوالے سے ان دونوں میں فرق بہت کم ہے یا کم محسوس کیا جاتا
ہے۔ ان دونوں لفظوں کا جائزہ لیں تو " فریڈم" بظاہر ایک ایسی اصطلاح ہے
جواس وقت استعمال میں لائی جا سکتی ہے جب کوئی فرد یا قوم کسی کے زیر تسلط
ہو اور اس تسلط سے بزور طاقت یا دیگر ذرائع کی مدد سے آزادی حاصل کرے ۔ یا
یوں کہہ لیں کہ ایک جابرانہ نظام سے نکلنے کو فریڈم کہا جا سکتا ہے۔جب کہ "
انڈیپنڈنس" کی اصطلاح کا ظاہری مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ سیاسی، سماجی یا
معاشی حوالے سے کسی مخصوص گروہ یا ملک پر انحصار کر رہے ہیں اور پھر آپ خود
کو اتنا مضبوط کر لیتے ہیں یہ انحصاری ختم کر دیتے ہیں۔ یعنی آپ مخصوص
حوالوں سے کسی بھی گروہ یا ملک پر انحصار ختم کردیتے ہیں یعنی خود انحصاری
کی طرف قدم بڑھا تے ہیں۔ جب ہم کسی پر انحصار کرنا ختم کرتے ہیں تو اس صورت
حال میں " انڈیپنڈنس " کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔ آزادی کے حصول میں
بعض اوقات پرتشدد راستہ اپنانا پڑتا ہے اور کبھی پر امن طریقے سے ہی آزادی
کا " ہما" کسی قوم کے سر ا ٓ بیٹھتا ہے۔ امریکہ کی 1775 سے 1783 تک آزادی
کی جنگ پر تشدد جہدوجہد تھی جو جارج واشنگٹن کی سربراہی میں لڑی گئی۔ یہ
جہدوجہد اس وقت کے " عظیم برطانیہ" سے تھی جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں
ہوتی تھی۔ جدید دور کا جائزہ لیں توچین حقیقی آزادی کی روشن مثال ہے۔ 1949
ء سے چین نے آزادی کی دونوں اصطلاحوں کو حقیقی طور پر اپنایا۔ اسی طرح
ملائشیانے 1957 ء میں آزادی کے بعد دنیا کو آزادی کی اصل تعریف بتائی کہ
کیسے ایک تسلط سے آزادی کے ساتھ ساتھ خود انحصاری بھی اپنائی جاتی ہے۔
اب وطن عزیز کی صورت حال کا جائزہ لیجیے۔ ہم نے 1947ء میں انگریزوں کی
مکاریوں سے نجات حاصل کرلی۔علماء کی قربانیوں کی بدولت ہمیں آزادی مل گئی
لیکن جہدوجہد میں بابائے قوم مہاتما گاندھی آزادی کے مسیحا بن کر ابھرے
یعنی سب سے بڑے لیڈر اور انہوں نے اس لقب کی لاج بھی رکھی۔ ایک عام آدمی نے
تو 1947ء میں آزادی حاصل کر لی لیکن ہماری حکومتیں اور سیاستدان آج تک
بیرونی تسلط،اور دوسروں پر انحصار کرنے سے آزادی حاصل نہیں کر پائے۔ جب کہ
ہمارے بعد آزاد ہونے والے چین اور ملائشیا جیسے ملکوں نے خود کو ایک متوازن
پالیسی پر رکھا اور عملی طور پر خود کو کسی بلاک کا حصہ نہیں بنایا۔لیکن ہم
ایسا نہ کر سکے۔
ہم آزادی کے ہر معنی کے لحاظ سے ابھی مکمل آزادی حاصل نہیں کر پائے اور
جزوی آزادی کو ہی غنیمت تصور کیے بیٹھے ہیں۔ کاش ہم اس دن کو یوم عہد کے
طور پر منا سکیں۔ یوم احتساب سمجھ کر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں۔اور حقیقی
آزادی کے حصول کی فکر کریں۔ اورہم آزادی کی اصل روح کو پہچان لیں ۔ آزادی
فکری طور پر ہر فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق کرنے کا نام ہے۔ آزادی یہ ہے کہ
کوئی غیر ملکی قوت ہمیں کسی فیصلے پر مجبور نہ کر سکے۔ نہ ہی ہم کسی بھی
ضرورت کے لیے اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ یہ اصل آزادی ہے۔
ہالی ووڈ میں اسکاٹ لینڈ کی جہدو جہد کے تناظر میں ایک فلم " بریوہارٹ"
بنائی گئی۔ اس کا مرکزی کردار جہدو جہد آزادی کا سرکردہ راہنما بن جاتا ہے۔
یہ مسلح جہدو جہد شروع کرتا ہے۔ یہ عوام میں بہت مقبول ہوتا ہے اس کی وجہ
یہ ہوتی ہے کہ یہ برطانوی راج کے خلاف عام آدمی کی آواز بن جاتا ہے۔ اس کے
علاوہ یہ غریبوں کے مددگار کے روپ میں بھی نظر آتا ہے۔ فلم کے اختتام میں
جب اسے بادشاہ کے سپاہی پکڑ لیتے ہیں تو اسے اک ہجوم میں ایک چبوترے پر
دراز کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ٹیبل پر ہر طرح کی اذیت کے لیے اوزار رکھے
ہوتے ہیں۔ ایک نوکدار کانٹا اس کے پیٹ میں گاڑھا جات ہے۔ ہجوم اس منظر سے
چیخ و پکار شروع کر دیتا ہے ۔ بادشاہ کے حواریوں کی صرف ایک شرط ہوتی ہے کہ
قیدی کو پرسکون موت صرف ایک صورت میں دی جا سکتی ہے جب یہ اپنے منہ سے رحم
مانگے۔ ہجوم " رحم، رحم" کی پکار شروع کر دیتا ہے تا کہ قیدی رحم مانگ کر
اس اذیت سے جان چھڑا لے۔ لیکن قیدی اذیت سہہ رہا ہے لیکن رحم کی بھیک نہیں
مانگ رہا۔ اسی اثناء میں قیدی اشارہ کرتا ہے ہجوم خاموش ہوتا ہے۔ بادشاہ کے
حواری فاتحانہ انداز میں ہجوم کی طرف دیکھ کر اپنے کان قیدی کی زبان کے
قریب کرتے ہیں کہ اب قیدی رحم مانگے گا۔ جب وہ قیدی کے قریب جھکتے ہیں تو
قیدی کی زبان سے ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے آزادی آزادی
اس لمبی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے گریباں میں جھانک کے دیکھیں کہ کیا
ہم آزادی کے کسی بھی مطلب پر پورا اترے ہیں؟کیا ہم اس ملک کے تمام فیصلے
کرنے میں آزاد ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں اس یوم آزادی پر فیصلہ کرنا ہو گا کہ
ہم آنے والی نسل کو ایک ایسا ہندوستان دیں گے۔ جو مکمل طور پہ آزاد ہو گا۔
جس کا کوئی فیصلہ بیرونی دباؤ میں آکر نہیں کیا جائے گا۔ جس کی ہر پالیسی
وطن عزیز کا مفاد دیکھتے ہوئے بنائی جائے گی غیروں کے کہنے پر نہیں۔جس میں
تمام مذہب و مسلک ہرایک فرقہ اور ہر ایک طبقہ کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے
گا۔جمہوری اصولوں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔مجاہدین آزادی کی روح کو
شرمندۂ نہیں کیاجائے گا۔انہوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا اس کی
تعمیر و ترقی کے لئے تن من دھن کی قربانیاں دیں گے۔کیوں آج یو م احتساب ہے
جشن یوم آزادی نہیں ۔فیس بک پہ ہمارے ایک دست احمد بن نظر نے یہ شعر شیئر
کر رکھا ہے جو ہندوستان کے آزادی کی صحیح ترجمانی کررہا ہے ۔
ابھی تک پاؤں سے چمتٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی!! |
|