وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ
لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ڰ
وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا اولئک لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ سورہ لقمان آیت ٦
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (۱) کہ بےعلمی کے
ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (۲) یہی وہ لوگ
ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (۳)۔
ترجمہ مکہ
اور (اس کے برعکس) کچھ لوگ ایسے ہیں جو غفلت میں ڈالنے کا سامان خریدتے ہیں
تاکہ اس طرح وہ بہکا سکیں اللہ کی راہ سے بغیر کسی علم کے اور وہ مذاق
اڑاتے ہیں اس (راہ حق) کا ایسوں کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے ف۱
(ترجمہ مدنی)
اور ایک وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بچلائیں اللہ کی
راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اسی کو ہنسی وہ جو ہیں ان کو ذلت کا عذاب ہے
ف٣
(ترجمہ عثمانی)
اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو)
بےسمجھے خدا کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزا کرے یہی لوگ ہیں جن کو
ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا
(ترجمہ فتح محمد)
اور بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بن سمجھے
اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اس کی ہنسی اڑائیں ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا
عذاب ہے
(ترجمہ احمد علی لاہوری)
اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں (ف۲) کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں
بےسمجھے (ف۳) اور اسے ہنسی بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے،
(ترجمہ کنزالعرفان)
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر
سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق
اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
(ترجمہ عرفان القرآن)
اور (دیکھو،) لوگوں میں (کوئی) ایسا بھی ہے جو واہیات (خرافات) قصے
(کہانیاں)[٢] خرید کر لاتا ہے تاکہ (لوگوں کو سنا کر) بےسمجھے بوجھے اللہ
کی راہ سے بھٹکا دے اور اس (راہ) کا مذاق اڑائے۔[٣] ایسے ہی لوگوں کے لئے
آخرت میں رسوا کن عذاب ہے۔
(ترجمہ الکتاب)
لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لئے بیہودہ [٤] باتیں خریدتا ہے کہ بغیر
علم[٥] کے اللہ کی راہ سے بہکا دے اور اس کا مذاق اڑائے [٦]۔ ایسے ہی لوگوں
کے لئے رسوا کرنے [٧] والا عذاب ہے۔
(ترجمہ تیسیر القرآن)
اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان
کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو
اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق
سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب
شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث
سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز
ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے
ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات
سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو
فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی
اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں
تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکارائیں بھی
آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے
کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔
٦۔۲ان تمام چیزوں سے یقیناً انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور
دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
٦۔٢ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات
کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔
(تفسیر مکی)
سعدائے مفلحین کے مقابلہ میں یہ ان اشقیاء کا ذکر ہے جو اپنی جہالت اور
ناعاقبت اندیشی سے قرآن کریم کو چھوڑ کر ناچ رنگ کھیل تماشے، یا دوسری
واہیات و خرافات میں مستغرق ہیں چاہتے ہیں، کہ دوسروں کو بھی ان ہی مشاغل و
تفریحات میں لگا کر اللہ کے دین اور اس کی یاد سے برگشتہ کردیں اور دین کی
باتوں پر خوب ہنسی مذاق اڑائیں۔ حضرت حسن "لھو الحدیث"کے متعلق فرماتے ہیں۔
کل ماشغلک عن عبادۃ اللہ و ذکرہ من السمر و الا ضاحیک والخرافات والغناء و
نحوھا (روح المعانی) (یعنی"لہو الحدیث" ہر وہ چیز ہے جو اللہ کی عبادت اور
یاد سے ہٹانے والی ہو مثلاً فضول قصہ گوئی، ہنسی مذاق کی باتیں واہیات
مشغلے اور گانا بجانا وغیرہ) روایات میں ہے کہ نضر بن حارث جو رؤسائے کفار
میں تھا بغرض تجارت فارس جاتا تو وہاں سے شاہان عجم کے قصص و تواریخ خرید
کر لاتا اور قریش سے کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو عاد و
ثمود کے قصے سناتے ہیں آؤ میں تم کو رستم و اسفند یار اور شاہان ایران کے
قصے سناؤں۔ بعض لوگ ان کو دلچسپ سمجھ کر ادھر متوجہ ہوجاتے۔ نیز اس نے ایک
گانے والی لونڈی خرید کی تھی، جس کو دیکھتا کہ دل نرم ہوا اور اسلام کی طرف
جھکا، اس کے پاس لے جاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا، پھر
اس شخص کو کہتا کہ دیکھ یہ اس سے بہتر ہے جدھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) بلاتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اور جان مارو۔ اس پر یہ آیت نازل
ہوئی۔
(تنبیہ) شان نزول گو خاص ہو مگر عموم الفاظ کی وجہ سے حکم عام رہے گا۔ جو
لھو (شغل) دین اسلام سے پھر جانے یا پھیر دینے کا مؤجب ہو حرام بلکہ کفر
ہے۔ اور جو احکام شرعیہ ضروریہ سے باز رکھے یا سبب معصیت بنے وہ معصیت بنے
وہ معصیت ہے۔ ہاں جو لہو کسی امر واجب کا مفوت (فوت کرنے والا) نہ ہو اور
کوئی شرعی غرض و مصلحت بھی اس میں نہ ہو وہ مباح، لیکن لا یعنی ہونے کی وجہ
سے خلاف اولےٰ ہے۔ گھڑ دوڑ، یا تیر اندازی اور نشانہ بازی یا زوجین کی
ملاعبت (جو حد شریعت میں ہو) چونکہ معتدبہ اغراض و مصالح شرعیہ پر مشتمل
ہیں اس لئے لھو باطل سے مستثنٰی قرار دی گئی ہیں۔ رہا غنا و سماع کا مسئلہ
اس کی تفصیل کتب فقہ وغیرہ میں دیکھنی چاہئے۔ مزامیر و ملاہی کی حرمت پر تو
صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے۔ البتہ نفس غنا کو ایک درجہ تک مباح لکھتے
ہیں اس کی قیود شروط بھی کتابوں میں دیکھ لی جائیں۔ صاحب روح المعانی نے
آیت ہذا کے تحت میں مسئلہ غنا و سماع کی تحقیق نہایت شرح و بسط سے کی ہے۔
فلیراجع۔
(تفسیر عثمانی)
لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں
اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن
کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الہٰی کو
سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے
ڈھول تاشے سنتے ہیں چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک
اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھا
کر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرت ابن
عباس، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ
کا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے
میں اتری ہے۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو
ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔
انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں
کی خریداری ہے چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت
کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے
امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک
راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان
کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم ۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے
امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے
روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام
کی مخالفت ہوتی ہے۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یالام عیل
ہوگا۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی
راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا
انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی
قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل و رسوا ہونگے۔ پھر
بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر
ریجھا ہوا ہے۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ
اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے۔ بلکہ انکا
سننا اسے ناگوار گزرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے
چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی
نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں
سے اکتاتا ہے تو قیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں
آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں
گے۔
(تفسیر ابن کثیر)
لہو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں
سے غفلت میں ڈالے، کہانیاں افسانے اسی میں داخل ہیں۔
(تفسیر کنزالعرفان)
اصل الفاظ میں ''لھوالحدیث'' یعنی ایسی چیز جو اللہ کی عبادت اور یاد سے
ہٹانے والی ہو، مثلاً فضول قصہ گوئی، واہیات مشغلے، گانا بجانا وغیرہ۔
(تفسیر الکتاب)
لھوالحدیث سے مراد ہر وہ بات، شغل یا کھیل یا تفریح ہے۔ جو انسان کو اللہ
کی یاد سے غافل کر دے یا غافل رکھے۔ خواہ یہ شغل، گانا بجانا ہو یا دلچسپ
ناول اور ڈرامے ہوں یا کلب گھروں کی تفریحات ہوں یا ٹی وی کا شغل ہو یا
ڈرامے اور سینما بینی ہو۔ غرض لھوالحدیث کا اطلاق عموماً مذموم اشغال پر
ہوتا ہے۔ |