صادق نماز یاد کرتے ہوئے ایک دم
چپ ہو گیا اور مسلسل میری طرف دیکھنے لگا میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو وہ
کہنے لگا: میں دریا کنارے آباد عارضی مکانوں اور جھونپڑیوں میں بسنے والے
بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں اُن کا نام مسلمانوں والا ہے مگر دراصل اُن کا
کوئی دین مذہب نہیں وہ کلمہ تک نہیں جانتے ہاں! مرنے کے بعد سزا سے ڈرتے
ہیں اِس لیے کسی بھی بہروپیے یا تعویز گنڈا کرنے والے کو اپنا ''پیر'' بنا
لیتے ہیں پھر خواہ چوری چکاری ہی کیوں نہ کرنی پڑے سال بعد اُس کی خدمت
کرنا تمام گناہوں کا کفارہ تمام نمازوں کی ادائیگی اور تمام فرائض سے
چھٹکارہ پانے کا ذریعہ جانتے ہیں میں بغور صادق کی باتیں سن رہا تھا وہ
لمحہ بھر کے لیے رُکا اور پھر بولنے لگا اُن لوگوں میں سے ایک بوڑھے آدمی
سے کسی نے سوال کیا ہمارے نبی کا نام کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں، اُس نے کیا
جواب دیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو صادق بلاتوقف کہنے لگا: اُس بوڑھے
آدمی نے جواب دیا ہمارے نبی کا نام ''پیر عباس'' ہے دوسرا سوال کیا گیا:
پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل کیسے کرتے ہو؟ وہ اطمینان سے بولا: بھئی دریا
میں ڈبکی لگاتے ہیں جناب! آپ تو بہت آگے کی بات کرتے ہیں یہاں تو اُنہیں
صرف اتنا علم ہے کہ پیٹ بھرنا ہے خواہ لوٹ مار کے ذریعے خواہ بھیک مانگ کر
صادق بولتا اور میں سوچتا چلا جا رہا تھا کہ کچھ زیادہ فرق نہیں دریا کنارے
رہنے اور سڑک کنارے بسنے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ہیں پکے مکان اور
کچے ایمان والے کئی لوگ بھی اپنے بچوں کو دو جمع دو سکھانے کے لیے تو بہت
کوشش کرتے ہیں مگر ایک خدا کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے صادق کی درد بھری
آواز مجھے سوچوں کی وادی سے پھر واپس کھینچ لائی وہ کہہ رہا تھا کہ ایک
اُدھیڑ عمر آدمی سے پوچھا گیا ہمارے نبی کا نام کیا ہے؟ تو اُس نے جواب دیا:
میں ڈھاری (گاؤں کے قریب ذاتی اراضی میں رہائش ) پر رہتا ہے اور وہ اُس طرف
کبھی نہیں آئے میں جتنی دیر وہاں رہا وہ اپنے انداز میں احتجاج کرتا رہا
اُس کی باتیں اُن تمام علماء و مشائخ کے لیے لمحہ فکریہ تھیں جو اپنے حقوق
سے واقف لیکن فرائض سے بے خبر ہیں وہ اُن کے لیے سوالیہ نشان تھا کہ آخر
دین کے ٹھیکیدار کب اقبال کے اِس مشورے پر عمل کریں گے
''نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری''
چند دنوں بعد میری ملاقات صادق کے مرکزِ احتجاج نما پیر سے ہوئی نماز کے
وقت پر قریبی مسجد میں کھڑی جماعت سے لاپرواہ تاش کھیلنے میں مصروف ہونے پر
میں اُسے نماز کی دعوت دیتے ہوئے اُس کی نسبت اور سابقے لاحقے (وہ اپنا نام
پیر امیر محمد چشتی بتاتا تھا) کی طرف توجہ دلائی تو اُس نے چرس والے
سیگریٹ کا ایک بھر پور کش لے کر جواب دیا او بھائی! یہ جو تم مجھے بتا رہے
ہو میں سب جانتا ہوں لیکن اب میں نماز نہیں پڑھتا تو اِس کی بھی ایک خاص
وجہ ہے؟ میں نے قدرے معتجبانہ لہجے میں کہا: جناب وہ کیا ہے؟ اُس نے ایک
اور لمبا کش لیا اور کہنے لگا چند سال پہلے میں ایک مقدمے میں پھنس گیا میں
بے گناہ تھا لہٰذا بہت نمازیں پڑھتا کوئی نماز قضاء نہ ہوتی مگر اِسکے
باوجود مجھے سزا ہو گئی اب میں نے کبھی کبھی نماز پڑھنا شروع کیا تو ہائی
کورٹ نے میری سزا میں کمی کر دی پھر میں نے نماز بالکل چھوڑ دی تو مجھے بری
کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ اب میں نماز نہیں پڑھتا اُس نے فاتحانہ انداز میں
مجھ پر نظریں جما دیں جیسے دلائل سے میرا منہ بند کرنے میں کامیاب ہو گیا
ہو لیکن میں نے نہایت تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا: انسان خطا کا پُتلا ہے
ربِ کریم جس مومن کو آخرت میں سزا سے بریّت اور جنت کی نعمتیں عطا فرمانا
چاہتا ہو اُسے دنیا کے اندر تکالیف اور آزمائشوں میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن
اس کے برعکس جناب نے اللہ کریم کے احکامات کی نافرمانی کے ذریعے دنیا کی
آسائشیں تو حاصل کرلی ہیں لیکن آخرت میں آپ کے ساتھ کیا ہوگا اِس کی تفصیل
مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے میری بات سن کر اُس کے
چہرے پر خجالت کی آبشار بہنے لگی اور ٹک ٹک دیدم کی تصویر بن کر رہ گیا
مجھے بدعقیدگی کے مرض میں مبتلا لوگوں کا مسئلہ سمجھ آگیا درحقیقت اُن کی
بیماری ایسی شخصیات کا ''تصرف'' ہے لیکن جب اُنہیں حقیقت دکھائی دیتی ہے تو
وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر صراطِ مستقیم پر آ جاتے ہیں پیری مریدی کا صحیح
مفہوم اُجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی کرب کا ایک
نامعلوم احساس میرے دل میں اُترتا چلا گیا اور میں نے بے چین ہو کر آنکھیں
بند کر لیں اندھیروں کی دبیز تہیں مٹتی گئیں اور تصور کے آئینے میں مجھے
اپنے روحانی بیٹے'' ذیشان اکرم'' کا عکس نظر آنے لگا خیالات ماضی کی نگری
میں اُترے تو ذیشان مجھے بتا رہا تھا پچھلی دفعہ جب آپ ہمارے گھر آئے تو
اگلے دن اسکول میں مجھ سے ایک ہم جماعت نے پوچھا: کل تمہارے ہاں کون آیا
تھا؟ میں نے کہا، وہ میرے پیر صاحب تھے تو اُس نے کہا: یہ پیر وَیر کچھ
نہیں ہوتے! میں نے اُسے کہا: ''پھر تمہیں کوئی پیر صاحب ملے ہی نہیں!'' یہ
بات معمولی نہیں تھی کہ ذاتی خواہشات کی تکمیل کی بجائے دوسروں کی عاقبت
سنوارنے کی کوشش کی جائے تو گیارہ سالہ بچہ بھی صحیح اور غلط میں تمیز کر
سکتا ہے یکلخت صادق کی باتیں باز گشت بن کر گونجتے ہوئے التجائیں کرنے لگیں
تمہیں مکة المکرمہ کی وادی کی قسم! ''روحانی اعتکاف'' میں ضرور شمولیت کرنا
تمہیں طائف کے مقدس ذرات کی قسم! تبلیغ و تربیت سے غفلت نہ برتنا تمہیں
مدینہ طیبہ کی کھجوروں کی قسم! تبلیغ کرتے رہنا تمہیں بدر و اُحد کے راستوں
کی قسم! حوصلہ مت ہارنا تمہیں معرکہ خیبر کی قسم! ہمت بلند رکھنا تمہیں
غزوہ خندق کا واسطہ! تھکنا نہیں تمہیں حدیبیہ کا واسطہ! رُکنا نہیں تمہیں
حجة الوداع کی قسم! چلتے رہنا تمہیں لشکرِ اُسامہ کی قسم! بڑھتے رہنا
کیونکہ
ہے اب بھی وقت کر لو فکر اپنے قصر ِ عالی کی
ابھی دریا کا پانی صرف خطرے کے نشاں تک ہے!
والسلام الیٰ یوم القیام |