امریکہ کے نصاریٰ نے اسرائیلی
ذہنیت میں پلنے والے منصوبے پر مزید پیش قدمی کرتے ہوئے نیویارک کے مشہور
کاروباری علاقے مڈ ٹاؤن میں ایک عمارت تعمیر کی جو خانہ کعبہ سے مشابہ ہے
اس عمارت کو ''ایپل مکہ'' کا نام دیا گیا اِسے ایک ایسے سٹور کی شکل دی گئی
جس میں شراب سمیت دیگر مشروبات فروخت کیے جاتے ہیں
مسلمانوں پر عرصہ حیات کی تنگی اور بے جاء دل آزاری یہود و نصاریٰ کا محبوب
ترین مشغلہ بن گیا ہے اور اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا خواب اُنہوں
نے ٹارگٹ بنا لیا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے تعصب اور اسلام دشمنی میں وہ نئی
مثالیں قائم کر رہے ہیں اعتدال اور حقیقت کو پسندیدہ قرار دینے والے اپنے
جھوٹ کی بیماری میں ایسے باؤلے ہو چکے ہیں کہ جرمنی کے مشرقی شہر ائرفورٹ
کے اگسٹائن چرچ میں ٧٣ سالہ پادری ویزل برگ نے فروغِ اسلام اور اِسے پھیلنے
سے روکنے میں ناکامی پر بطور احتجاج اپنے چہرے پر پیٹرول کا ڈبہ انڈیل کر
آگ لگا لی ویزل برگ کی بیوی نے بتایا کہ مذکورہ پادری اسلام کے فروغ سے سخت
پریشان تھا اور اِس سلسلہ میں چرچ کے مؤقف کے خلاف خود سوزی کا مرتکب ہوا
''اعتدال'' کی حدیں پار کرنے میں یہود و نصاریٰ اکیلے نہیں بلکہ کفار بھی
اُن کے ہمسفر ہیں بھارت کے علاقے راجستھان کے ایجوکیشن بورڈ نے اپنے علاقے
کے تمام اسکولوں کے نصاب میں شامل تاریخ کی کتاب میں رسول کریم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کا خیالی خاکہ شائع کیا مسلمانوں کی طرف سے مسلسل احتجاج
اور انتہائی سخت مؤقف کے باوجود یہود، ہنود اور نصاریٰ کی تکون جس ڈھٹائی
اور ہٹ دھرمی کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے یقیناً قابل دید ہی نہیں باعث ِ شرم
بھی ہے وہ اپنے ٹارگٹ کے حصول کی خاطر ہر ضابطے اور قانون سے مستثنیٰ ہوتے
جا رہے ہیں
چلیے! اُن کی بات چھوڑتے ہیں کیونکہ اُن کی اسلام دشمنی کے متعلق اس کتاب ِ
لاریب نے خبر دی ہے جس کی ہر ایک آیت ہر ایک لفظ اور ہر ایک حرف سے لے کر
ہر ایک نقطے تک سچائی سے معمور ہے آئیے! ہم اپنوں کی بات کرتے ہیں کہ ایسے
بدترین حالات میں ہمارا ٹارگٹ کیا ہے؟
تعلیم کا تبدیلی ترقی اور تقدیر کے ساتھ گہرا تعلق ہے اِسی طرح تعلیم تنزلی
اور تباہی کے ساتھ بھی رَبط رکھتی ہے جس قوم نے تعلیم کے میدان فتح کر لیے
وہ تقدیر میں تبدیلی اور ترقی کے حصول میں فاتح ٹھہری اور جس قوم نے اِس
میدان میں پسپائی اختیار کی وہ تنزلی اور تباہی کی حقدار بن گئی
ہمارے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن ذرا اُن سے پوچھیے کہ وہ جو تعلیم حاصل
کر رہے ہیں محنت و کوشش میں اتنی لگن کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اُن کے ذہن
میں تعلیم کے حصول کا ٹارگٹ کیا ہے؟ آخر کس ٹارگٹ کو ذہن میں بٹھا کر وہ یہ
سب کچھ کر رہے ہیں؟ تو یقین مانیں! ''اچھے روزگار کا حصول'' بنیادی ٹارگٹ
کے طور پر اُن کا جواب ہوگا کرمانوالا ڈاٹ کام میں ''آپ کی رائے'' جاننے کے
لیے یہی سوال کیا گیا تو اکثریت کا جواب غیر متوقع ہرگز نہیں تھا یعنی ''اچھے
روزگار کا حصول''
سوال کیجئے !!! خود اپنے آپ سے کیا علم و تعلیم کا بنیادی اور اعلیٰ ٹارگٹ
فقط یہی ہے کہ اِس کے ذریعے روزگار حاصل کیا جائے اِسی المیے نے آج ہزاروں
نہیں لاکھوں بظاہر پڑھے لکھے مگر حقیقتاً بے شعور جاہلوں کو جنم دیا ہے
کاغذی سندات پر فخر کرنے کے علاوہ اُن کی جھولی میں کچھ بھی تو نہیں!!!
ہمارے طلباء محنت کیا کرتے ہیں کتابوں کو رَٹا لگاتے ہیں کتاب پڑھنے کا
بنیادی مقصد علم کا حصول ہوا کرتا ہے لیکن یہ کس ٹارگٹ کے حصول کے لیے محنت
کرتے ہیں؟ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے!!! یقیناً اِس سوچ اور
فکر کے ذمہ دار فقط طلباء نہیں والدین بھی ہیں جو ہمیشہ بچے سے یہی کہتے
ہیں بیٹا! امتحان میں اچھے نمبر لینا کوئی نہیں سوچتا کہ بچے کے پاس علم کی
مقدار کتنی ہے! اِس کی معلومات کا پیمانہ کیسا ہے؟ اور اِس کی تربیت کا
معیار کیا ہے کوئی غور نہیں کرتا!!!
لہٰذا ضرور سوچئے کہ ٹارگٹ کیسا ہونا چاہیے؟ کیونکہ یہ سوچ کسی بھی مجاہد
یا مسافر کو عمل کے آغاز سے قبل قوت اور توانائی فراہم کیا کرتی ہے ٹارگٹ
کا تعین ہی محنت کا جذبہ اور کوشش کا شوق بڑھاتا ہے لہٰذا ضرور دیکھنا
چاہیے کہ ٹارگٹ کیسا ہو! مادیت (material)، روپیہ پیسہ، دنیا اور روزگار سب
کچھ عارضی ہے حتیٰ کہ اِن کا معیار لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتا رہتا ہے یہ
چیزیں تو اِس قابل ہی نہیں کہ اِنہیں ٹارگٹ بنایا جا سکے لہٰذا اِن کی
حیثیت مرکزی نہیں بلکہ ثانوی قرار دی جا سکتی ہے چنانچہ کسی ٹھوس، پائیدار
اور اعلیٰ مقصد کو ہی ٹارگٹ بنانا چاہیے بلکہ اعلیٰ اور پاکیزہ ٹارگٹ کی
انفرادیت ہے کہ اِس کا حصول اپنے ساتھ ثانوی حیثیت کے ٹارگٹ خودبخود لے آتا
ہے
کینیڈا میں ایک چھوٹی سی مسجد کا امام عید کے موقع پر مسجد انتظامیہ سے اِس
لیے ناراض ہو گیا کہ اُسے ''عید کے موقع پر اکٹھی ہونے والی رقم'' (جو چند
سو ڈالر تھے) پیش نہیں کیے گئے اُس کا کہنا تھا کہ اگر میں یہاں رہ کر اتنا
حق دار بھی نہیں تو میں چلا جاتا ہوں چنانچہ کسی دوسرے مولانا کا انتظام
کیا گیا اور جب اُسے پہلی مرتبہ وظیفہ پیش کیا گیا تو اُس نے کہا، میرے
خیال میں مسجد کی وسعت زیادہ ضروری ہے لہٰذا میری تنخواہ سے ایک فنڈ قائم
کر دیا جائے جس سے ہم مسجد وسیع کر سکیں مسلم کمیونٹی نے اِس بات کو بڑا
محسوس کیا اور ایک فنڈ قائم کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصہ
میں ایک عالیشان اور وسیع مسجد تعمیر ہو گئی اب اتنی وسیع و عریض مسجد کے
امام کے لیے یقیناً پہلے سے کئی گنا زیادہ تنخواہ مقرر ہوئی گاڑی اور گھر
علیحدہ مہیا کیے گئے جبکہ ''عید کے موقع پر اکٹھی ہونے والی رقم'' پر ناراض
ہونے والے مولانا روپے پیسے کے ٹارگٹ میں پھنس کر اِن سب چیزوں سے محروم رہ
گئے
قربانی اعادہ عہد کا ایک انداز ہے خلیل اللہ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے
نزدیک سب سے بڑا ٹارگٹ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا حصول نظر
آتا ہے شیطان کی طرف سے بار بار منع کرنے کے باوجود آپ نے حضرت اسماعیل
علیہ السلام کو اعلیٰ ترین مالک و مطلوب کی خدمت میں پیش کرنے کا مظاہرہ
کیا خود حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اِسی ٹارگٹ میں کائنات کا ہر ایک
ٹارگٹ حاصل و میسر نظر آیا اور آپ نے اپنے والد ِ گرامی کا ساتھ دیا حضرت
اسماعیل ذبیح اللہ سے لے کر حضرت سیّد محمد اسماعیل شاہ بخاری، حضرت کرماں
والے تک انبیاء، صحابہ اور اولیاء کا یہی امتیاز رہا اُنہوں نے مادیت پرستی
دنیاوی دولت اور اِن سے متعلق ہر شے کو ثانوی سطح پر شمار کیا
لاہور میں فیروز پور روڈ پر واقع گجومتہ والے پیر امام علی شاہ صاحب کا
بیان کردہ پاکستان کے معروف روحانی بزرگ حضرت کرماں والے کے متعلق ایک
واقعہ اِس ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہے فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب کرماں
والے نے مجھے اپنا خواب سناتے ہوئے فرمایا: مجھے سرکار نبی کریم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور بابا سپاہیے شاہ ملے
تھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے دو دروازے دکھائے اور
فرمایا: شاہ جی! ایک دنیا کا دروازہ ہے اور دوسرا دین کا آپ کوئی ایک
دروازہ پسند کر لیں تو میں نے دین کا دروازہ منتخب کیا اِس پر نبی کریم صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: شاہ جی! آپ نے دین کا دروازہ پسند کیا ہے
اللہ کریم دنیا ''جھونگے'' (مفت) میں عطا کر دے گا
چنانچہ جس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی دیگر علم یا دین کی
تعلیم کے حصول کو اپنا مقصد یا ٹارگٹ بنا لیا جس کا ٹارگٹ اعلیٰ اور عظمت و
سعادت سے مزین ہوا اُسے دنیا اور اِس سے وابستہ ہر شے مل جائے گی اور جس نے
اِسکے علاوہ کچھ پسند کیا وہ کچھ نہیں پائے گا اور یہاں پہنچ کر میرے ذہن
میں کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان جگمگانے لگا ہے کہ اللہ
تبارک و تعالیٰ اپنے بندے سے فرماتا ہے
'' ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے
اگر تو چلا اُس پر جو تیری چاہت ہے
تو میں تجھے تھکا دوں گا اُس میں جو تیری چاہت ہے
اور اگر تو چلا اُس پرجو میری چاہت ہے
تو میں تجھے عطا کروں گا وہ بھی
جو تیری چاہت ہے
اور پھر ہو گا وہی
جو میری چاہت ہے
والسلام الیٰ یوم القیام
|