موجودہ دورمیں پانی کی کمی:اسباب وعلاج
(Ata Ur Rehman Noori, India)
قحط یہ نہیں ہے کہ بارش نہ
ہو،بلکہ قحط یہ ہے کہ خوب بارش ہولیکن زمین کوئی چیز نہ اُگائے
موجودہ دور میں پانی کی قلت اور پریشانیوں سے ہرکوئی بخوبی واقف
ہے۔خاطرخواہ بارش کانزول نہیں ہورہاہے،ندی ،نالے،کنویں اورتالاب خشک ہوچکے
ہیں،پانی کی کمی کے باعث فصلیں برباد ہورہی ہیں،جانور بے حال ہیں،انسان
پریشان ہیں،حتیٰ کہ ہندوستان کے کئی علاقوں کوحکومت کی جانب سے قحط زدہ
قرار دیاگیاہے۔اورکسی بھی متعینہ مدت میں اس مسئلے کاحل ہو، ایسیکسی امکان
کی گنجایش بھی نظرنہیں آتی ، ہرکوئی کسی نہ کسی کوموردالزام ٹھہرارہاہے ،کیاہم
نے خودکااحتساب کیا؟کیاان حالات کے ہم خود ذمہ دار نہیں ہیں؟کیاہم سے
کوتاہیاں اور غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں؟سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دنیاکاتین حصہ
پانی سے لبریز ہے تو پھر پانی کی یہ تنگی وپریشانی کیوں؟فرمایاگیاکہ قحط یہ
نہیں ہے کہ بارش نہ ہو،بلکہ قحط یہ ہے کہ خوب بارش ہولیکن زمین کوئی چیز نہ
اُگائے۔
پانی کی کمی عذابِ خداوندی ہے:پانی کارُکناعذابِ خداوندی سے ہے اور قوم میں
عذاب صرف دووجہ سے نازل ہوتاہے۔اول جب قوم میں اجتماعی گناہ عام ہوجائے اور
دوم جب امت اپنے نبی کی باتوں کوجھٹلانے لگے ۔ حدیث پاک کامفہوم ہے:’’جس
بستی میں زنا کی کثرت،شراب نوشی،فحش گوئی،بدنظری اور گناہ عام ہوجائے تواﷲ
رب العزت پانی کوروک لیتاہے اور وہاں کی مخلوق پانی کی بوندبوند کوترستی ہے،
اگر جانور اور چوپائے نہ ہوں توآسمان سے ایک بوند بھی نہ برسے۔معلوم ہواکہ
ہم اپنے گناہوں کے سبب پانی کی کمی کے عذاب میں مبتلاہیں ۔ایک روایت میں ہے
کہ ’’جب کسی کافرکوقبر میں دفن کیاجاتاہے تو منکرنکیر آکراس سے رب،دین اور
نبی ﷺکے متعلق سوال کرتے ہیں اور جب وہ جواب نہیں دیتاتوگرزسے اس کومارتے
ہیں،اس کی ضرب سے وہ چیختاہے ،اس کی چیخ کوجن وانس کے علاوہ تمام مخلوق
سنتی ہے اور لعنت بھجتی ہے حتیٰ کہ وہ بکری بھی اس پرلعنت بھیجتی ہے جوقصاب
کی چھری کے نیچے ہوتی ہے۔وہ کہتی ہیکہ ہم پراس منحوس کے باعث پانی بند
ہوگیا۔(غنیۃ الطالبین،ص۵۴۲)معلوم ہواکہ جب آدمی بگڑجاتاہے تواس کے
بگاڑکااثرہرجاندار پر ہوتاہے اور اگردرست ہوتاہے تواس کی درستی
کااثرہرچیزتک پہنچ جاتاہے،انسان کابگاڑ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی
درستی رب کی اطاعت وفرمانبرداری کے باعث ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس بات کاعلم
ہواکہ اگرہم نے امت دعوت تک اﷲ کادین پہنچایاہوتاتو بہت سی مصیبتوں سے نجات
مل جاتی۔
ناقدری کے باعث نعمت کاخاتمہ:پانی نعمتِ الہٰیہ ہے اور نعمت ناقدری
اورناشکری کے باعث چھین لی جاتی ہے جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے روایت کی کہ شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ مکان
میں تشریف لائے،روٹی کاٹکڑاپڑاہوادیکھا،اس کولے کر پونچھا،پھرکھالیااور
فرمایا:عائشہ!اچھی چیزکااحترام کروکہ یہ چیز(روٹی)جب کسی قوم سے بھاگی ہے
تولَوٹ کرنہیں آئی۔(ابن ماجہ)یعنی ناشکری کی وجہ سے جونعمت چلی جاتی ہے
توپھروہ واپس نہیں آتی۔پانی جیسی نعمت کی ناقدری کس طرح کی جاتی ہے یہ
امرکسی سے مخفی نہیں۔اسلام تو ایساپاکیزہ مذہب ہے جسکی تعلیم یہ ہے کہ وضو
میں بھی زیادہ پانی خرچ نہ کرو،اگر پانی کااسراف کروگے تووضومکروہ ہوجائے
گا(بہارشریعت)بھلاوہ مذہب جو ایسے فعل میں پانی کے اسراف کی اجازت نہیں
دیتا جس کے بغیرعبادت کی تکمیل کاتصور ناممکنہے تووہ دھرم اس بات کی اجازت
کیسے دے سکتاہے کہ آدھاگلاس پانی پی کرآدھاگلاس پھینک دویاکسی کاجھوٹاپانی
پینے سے پرہیز کرو،اسلام کی تعلیم تویہ ہے کہ مومن کے جھوٹے میں شفا ہے۔
پانی رکنے کی وجہ:دورِبنی اسرائیل میں قحط واقع ہوا،امتیوں کی گزارش پراس
دور کے نبی اپنے امتیوں ،جانوروں،بچوں اورضعیفوں کے ساتھ بستی کے
باہرگئے،نمازاستسقا اداکیں،باوجوداس کے بارش کانزول نہیں ہوا،چندامتیوں میں
چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ اﷲ کے نبی کی دعابھی مقبول نہیں ہورہی ہے،غیب
داں نبی نے بارگاہِ صمدیت میں عرض کیامولیٰ!کیامیں تیرانبی نہیں ہوں؟فرمانِ
الٰہی ہوا:بے شک ہے ۔ عرض کیا:پھرمیری دعاپرپانی کیوں نہیں برستا؟رب نے
فرمایا:تمھارے امتیوں میں چندافراد ایسے ہیں جوحرام کھاتے ہیں،حرام پیتے
ہیں اورحرام پہنتے ہیں،ایسے لوگ تمھاری دعاپر آمین کہہ رہے ہیں جن کی حرام
کاری کے باعث ہی میں نے قحط کونازل کیااور پانی کوروک دیا۔آج حلال وحرام کی
تمیزختم ہوگئی ہے شایداسی لیے پانی کی کمی ہم پرمسلط کردی گئی ہو؟ حضرت سعد
بن وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اﷲ!آپ اﷲ تعالیٰ سے
میرے لیے دعا فرما دیجیے کہ وہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے تو آپ نے ارشاد
فرمایا:کھانے کو طیب کر لو (یعنی حلال کھاؤ) تم مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔
(برکات شریعت،ص۸۸۶) ’’مُسْتَجَابُ الدَّعَوَات‘‘ اُس بندے کو کہا جاتا ہے
جس کی کوئی دعا کبھی بھی رد ہوتی ہی نہ ہو اور یہ عظیم منصب اُس بندے کو
حاصل ہوتا ہے جو اپنی غذا میں صرف حلال شامل کرے۔ آج ہم میں اکثر لوگ دعاؤں
میں نامقبولیت کی شکایت کرتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ
اس سلسلہ میں ہم سے بے احتیاطی ہوتی ہے، بہر حال رزقِ حلال کی برکت سے اﷲ
تعالیٰ دلوں کو منور فرما دیتا ہے پھر اس دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ بابِ
اجابتِ الٰہی تک پہنچ جاتی ہے۔
توبہ واستغفار کی ضرورت:ایک مرتبہ جگرگوشۂ بتول سیدناامام حسین رضی اﷲ عنہ
کی بارگاہ میں جداجداتکلیفیں لیے چندافرادحاضر آئے،ایک نے کہا:مجھے اولاد
نہیں ہے،دوسرے نے عرض کیا:بارش نہیں ہوتی،تیسرے نے کہا:حضور میرے باغ میں
پھل نہیں لگتے توچوتھایوں عرض گزارہوا:میرے یہاں کی زمین بنجرہے، کوئی
وظیفہ اورعلاج بتائے۔غرضیکہ چاروں کے مسائل جداتھے۔نواسۂ رسول نے چاروں سے
فرمایا:توبہ واستغفار کرو۔اہلِ محفل نے تعجب خیزانداز میں دریافت کیااے
امام عالی مقام!چاروں کی پریشانیاں علاحدہ ہونے کے باوجود علاج کاایک ہی
طریقہ؟آپ نے فرمایا:کیاآپ لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟اﷲ عزوجل
ارشادفرماتاہے:’’اپنے رب سے معافی مانگو،بے شک وہ بڑامعاف فرمانے والاہے،تم
پرشرّاٹے کامینھ بھیجے گا،اور مال اور بیٹوں سے تمھاری مددکرے گا،اور
تمھارے لیے باغ بنادے گا،اور تمھارے لیے نہریں بنائے گا‘‘۔(پارہ۲۹،سورہ ٔنوح،آیت
۱۰۔۱۲)
فی زمانہ پانی کی کمی اور قحط سالی سے نجات کااسلامی راستہ یہی ہے کہ ہم
اپنے آپ کااحتساب کرتے ہوئے گناہوں سے سچی توبہ کریں۔ہرقسم کے افعالِ شنیعہ
اوربداعمالیوں سے اپنے آپ کودور رکھیں۔حالات ہم سے بارباراس بات کاتقاضہ
کرتے ہے کہ ہم اپناطرززندگی تبدیل کریں۔اگرہماری روش یہی رہی توہم اسی طرح
عذابِ الٰہی میں گرفتارہوتے رہینگے۔ |
|