تبلیغ دین میں صحابہ کرام کا کردار

اﷲ تعالیٰ نے تبلیغ دین کو اہم فریضہ قرار دیا ۔ تمام انبیاء کرام علیہ السلام اسی فریضہ کی ادائیگی کے لئے تشریف لائے ۔ نبی اکرم ﷺ نے اس فرض کی تکمیل فرمائی۔رسول اکرم ﷺ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے یہ فریضہ بڑے عمدہ طریقے سے سر انجام دیا ہے ۔ان کے بعد ان کے جانشینوں نے سلسلہ تبلیغ کو جاری رکھا حتیٰ کہ یہ اہم فریضہ اولیاء اور علماء کے ذریعے آج تک جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ ان اکابرین امت کی تبلیغ کے چند واقعات حسب ذیل ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی تبلیغ:حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ جب مشرف اسلام ہوئے تو اپنے اسلام کو ظاہر کر دیا اور اﷲ پاک کی طرف دعوت دینی شروع کر دی ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اپنی قوم میں ہر دلعزیز اور نرم طبیعت اور محبوب تھے اور قریش کے نسب ناموں سے پورے واقف تھے اور قریش کی زندگی کے ہر نشیب و فراز سے واقف تھے ۔تجارت کیا کرتے تھے ،بڑے با اخلاق اور وسیع القلب تھے ۔آپ کی قوم کے افراد آپ کے پاس آتے اور اکثر امور میں آپ ہی سے مشورہ لیتے کیونکہ آپ کا علم وسیع تھا اور آپ کی صحبت اچھی تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اسلام لانے کے بعد اپنی قوم میں سے جس کسی پر اعتماد تھا ،جو لوگ آپ کے پاس آتے جاتے اور آپ کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے ان سب کو اسلام کی دعوت دی جہاں تک میرے علم کی رسائی ہے بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ۔ جیسے حضرت زبیر بن عوام، عثمان بن عفان ، طٰہٰ بن عبید اﷲ ، سعد بن ابی وقاص ، عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم یہ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی معیت میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں یکے بعد دیگرے حاضر ہوئے ۔آپ ﷺ نے ان لوگوں پر اسلام پیش کیا اور قرآن پاک پڑھ کر سنایا اور اسلام کے حقوق سمجھائے ،یہ لوگ ایمان لے آئے یہ شروع میں اسلام لانے والے حضرات جو آٹھ ہیں یہ اپنے اسلام میں نہایت سچے اور نہایت پکے مسلمان شمار ہوئے ۔ان لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کی تصدیق کی اور ہر اس بات پر جو اﷲ کے پاس سے آئی اس پر ایمان لائے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی تبلیغ:استق فرماتے ہیں کہ میں نصرانی المذہب اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا غلام تھا ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مجھے برابر اسلام کی دعوت دیتے رہے اور فرماتے رہے کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو میں تم سے مسلمانوں کی امانتوں میں مدد لیا کروں ۔ جب تک تم نصرانی ہو میرے لئے حلال نہیں کہ میں مسلمانوں کی امانتوں کے سلسلہ میں تم سے کوئی کام لوں ۔کیونکہ تم دین پر نہیں ہو۔ میں ہمیشہ انکار کرتا رہا ۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ۔ دین میں کوئی جبر نہیں ،جب حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی حیات کا پیمانہ لبریز ہو چکا تو مجھ کو آزاد کر دیا اور فرمایا جہاں تیرا جی چاہے چلا جا (یہ قصہ ان کے اسلام لانے سے پہلے کا ہے ، حضرت اسلم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جب میں ملک شام میں تھا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے پاس وضو کا پانی لے کر آیا آپ نے پوچھا یہ پانی کہاں سے لائے ہو ؟ میں نے تو ایسا خوشگوار پانی نہیں دیکھا ۔آسمان کا پانی بھی ایسا اچھا نہیں ۔ میں نے عرض کیا ۔ایک نصرانی بڑھیا کے گھر سے لے کر آیا ہوں ۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ وضو کر چکنے کے بعد اس بڑھیا کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اے بڑی بی ! اسلام لے آؤ ! اﷲ پاک نے محمد ﷺ کو سچا دین دے کر بھیجا ہے بڑھیا نے اپنے سر سے چادر اتاری اس کے بال سفید دودھ کی طرح تھے او رکہا میں انتہائی بوڑھی ہو چکی ہوں اور اب میری موت کے دن قریب ہیں (میں کیا اسلام لاؤں گی ) حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اے اﷲ تو گواہ ہو جا کہ میں تبلیغ کر چکا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی تبلیغ:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ماں مشرکہ تھی اور میں اس کو بار بار اسلام کی دعوت دیتا رہا ۔ ایک روز میں نے اُسے اسلام کی دعوت دی مجھے اُس نے رسول اﷲ ﷺکے بارے میں بہت کچھ ناگوار باتیں سنائیں۔ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا حاضر ہوا اور میں نے عرض کیایا رسول اﷲ ﷺ ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا رہتا تھا اور وہ انکار کرتی رہتی تھی اور آج جب میں نے اُسے اسلام کی دعوت دی تو آپ ﷺ کے بارے میں اس نے بہت کچھ مکروہات سنائیں ۔لہٰذا آپ اﷲ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے ۔آپ ﷺ نے فوراً دعا کی کہ اے اﷲ !ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے ۔میں آپ ﷺ کے پاس سے نہایت خوش ہو کر نکلا کیونکہ آپ نے میری ماں کیلئے دعا کی تھی ۔ گھر پہنچ کر جیسے ہی میں نے دروازہ کھولنا چاہا تو میری ماں نے میرے پیروں کی آہٹ سن کر کہا ابو ہریرہ! وہیں ٹھہرو اور میں نے نہانے کے پانی گرنے کی آواز سنی ۔اتنے میں میری ماں نے اپنی قمیض پہنی اور جلد ی میں چادر نہیں اوڑھی اور دروازہ کھول کر کہا اے ابو ہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ سوائے اﷲ کے اور کوئی عبادت کے قابل نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ۔میں نے واپس لوٹ کر حضور اکرم ﷺ کو یہ خوشخبری دی ۔آپ ﷺ نے اﷲ کا شکر کیا اور دعا خیر فرمائی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی مومن مرد یا عورت میرا نام سنتا ہے ۔خدا کی قسم مجھے دوست رکھتا ہے ۔راوی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا ۔تمہیں اس بات کا پتہ کہاں سے چلا ؟حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی ماں کے مشرف با اسلام ہونے کا پورا تذکرہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بھاگ کر حضو ر اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مارے خوشی کے میری آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے ۔جیسے شدت ملال کی وجہ سے پہلے بہہ رہے تھے اور میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! بڑی خوشی کی بات ہوئی کہ اﷲ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور ابو ہریرہ کی ماں کو اسلام کی ہدایت دیدی ۔ اس کے بعد میں عرض کیا یا رسول اﷲ ! اﷲ پاک سے آپ دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت تمام مومن مرد اور عورت کے دل میں راسخ کر دے آپ ﷺ نے فوراً ہی اﷲ پاک سے دعا کی کہ اے میرے اﷲ اپنے اس بندے اور اس کی ماں کو ہر مومن مرد اور عورت کا محبوب بنالے ۔اسی دعا کا اثر ہے کہ جب میرا تذکرہ کوئی مومن مردیا عورت سنتا ہے مجھے دوست رکھتا ہے ۔

حضرت طلیب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ کی تبلیغ:حضرت طلیب بن عمیر رضی اﷲ عنہ اسلام لانے کے بعد اپنی ماں رومی بنت عبد المطلب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماں سے عرض کیا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور محمد ﷺ کا اتباع کر لیا ہے تمہیں اسلام لانے سے اور آپﷺ کا اتباع کرنے سے کیا چیز مانع ہے ؟ تمہارے بھائی حمزہ رضی اﷲ عنہ بھی اسلام لاچکے ہیں ماں نے جواب دیا میں یہ انتظار کر رہی ہوں کہ میری بہنیں کیا کرتی ہیں ۔میں اپنی بہنوں سے باہر نہیں ، حضرت طلیب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا ۔اماں جان میں تم سے خدا کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ تم ضرور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ ﷺ کو سلام کرو اور آپ کی تصدیق کرو اور اس بات کی گواہی دیدو کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور مسلمان ہو گئیں اس کے بعد یہ اپنے بڑھاپے کے باعث رسول اﷲ ﷺکے کام میں زبانی امداد سے کام لیتیں یعنی لوگوں سے کہتی سنتی تھیں ۔اور اپنے بیٹے کو آپ ﷺ کی امداد پر اور آپ ﷺ کی باتوں کی پابندی پر آمادہ کرتی رہتی تھیں۔

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ کی تبلیغ:حضرت اسعد بن زرارہ رضی اﷲ عنہ ،مصعب رضی اﷲ عنہ بن عمیر کو ساتھ لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے محلوں کی طرف چلے ، سعد بن معاذ حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ کے خالہ زاد بھائی ہیں چنانچہ بنی ظفر کے ایک باغ میں ایک کنویں پر جس کو مرق کہتے ہیں جا کر بیٹھ گئے ان دونوں کے پاس قبیلہ اسلم کے لوگ جمع ہو گئے عبد الاشہلی کے چوٹی کے سردار سعد بن معاذ اور اُسید بن حضیر تھے جو اب تک اسلام نہ لائے تھے ان دونوں نے حضرت اسعد رضی اﷲ عنہ کے آنے کی اطلاع پائی تو سعد نے اُسید سے کہا کہ تم ان دونوں آدمیوں کے پاس جاؤ جو ہمارے وطن میں اس لئے آئے ہیں کہ ہمارے کمزور لوگوں کو بہکائیں اور جا کر انہیں ڈانٹ دو اور یہاں آنے سے بالکل روک دو چونکہ اسعد میرے خالہ زاد بھائی ہیں اس لئے میں نہیں جا سکتا ہوں ۔یہ سن کر اُسید بن حضیر نے اپنا نیزہ لیا اور ان دونوں حضرات کیطرف چل دیئے۔ اسعد بن زرارہ رضی اﷲ عنہ نے دور ہی سے انہیں آتا ہوا دیکھ کر حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ سے کہا یہ اپنی قوم کا سردار ہے اور تمہارے پاس آرہا ہے ۔آج اﷲ کے نام پر سچائی کا بھرم رکھنا ہے ،حضرت مصعب نے فرمایا ذرا بیٹھنے دو میں ہی اس سے بات کروں گا ۔چنانچہ اُسید بن حضیر نے آتے ہی گالیاں سنائیں اور کہا تم کس لئے ہمارے پاس آئے ہو؟ کیا ہمارے کمزوروں کو بیو قوف بنانے کیلئے ؟ اگر تمہیں زندگی پیاری ہے تو یہاں سے چلے جاؤ حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ نے کہا ذرا بیٹھ میری بھی تو سن لو اگر میری بات پسند آجائے تو اُسے مان لینا اور اگر نا پسند گزرے تو ہم نہ کہیں گے ۔

اُسید بن حضیر نے کہا بات تو تم نے فائدہ کی کہی ،پھر اپنا نیزہ زمین پر گاڑ کر ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے ۔حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ نے ان کو اسلام کی باتیں سمجھائیں اور قرآن شریف پڑھ کر سنایا ان دونوں حضرات کا بیان ہے کہ قرآن سنتے ہی ہم لوگوں نے ان کے چہرے پر قبول اسلام کی تازگی اور رونق محسوس کر لی ۔اس کے بعد اُسید نے کہا کہ کیا ہی اچھا اور پسندیدہ دین ہے ،اس دین میں داخلہ کے لئے تم لوگ کیا کہلواتے ہو اور کس عمل کا حکم دیتے ہو؟ان دونوں حضرات نے کہا اولاً غسل کرو اپنے کپڑے پاک کرو پھر کلمۂ حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو چنانچہ حضرت اُسید رضی اﷲ عنہ نے غسل کیا کپڑے پاک کئے اور کلمۂ حق کی گواہی دی پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھی ۔اس کے بعد ان دونوں حضرات سے عرض کیا کہ میرے پیچھے ایک اور آدمی ہے اگر اس نے بھی تم دونوں کاکہا مان لیا تو میری قوم میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائیگا میں ابھی اس کو تم دونوں کے پاس بھیجتا ہوں ۔جس کا نام سعد بن معاذ ہے پھر اپنا نیزہ اٹھا کر سعد اور اپنی قوم کی طرف چل دئیے ان کی قوم اپنی مجلس میں بیٹھی ہوئی تھی ۔سعد بن معاذ نے ان کو سامنے سے آتا ہوا دیکھا تو اپنی قوم سے قسم کھا کر کہا کہ میں ان کو بدلا ہوا پاتا ہوں ،جب حضرت اُسید مجلس میں جا کر کھڑے ہوئے ،سعد نے پوچھا میاں کیا کر آئے ؟ حضرت اُسید رضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے ان دونوں آدمیوں سے بات کی پس خدا کی قسم میں نے ان میں کوئی خطرہ کی بات نہیں دیکھی اور میں نے تو ان دونوں کو منع بھی کیا تھا لیکن ان دونوں نے کہا کہ بات سن لو تمہیں اس کے بعد اختیار ہے۔اس کے بعد حضرت اُسید رضی اﷲ عنہ نے کہا ابھی ابھی مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی حارث کے لوگ اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے کیلئے نکلے ہیں اور یہ محض اس لئے کہ اُنہیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ تمہارے خالہ زاد بھائی ہیں اور اسعد کو ان لوگوں کا قتل کرنا محض تمہاری تو ہین ہے ،یہ سن کر سعد بن معاذ آگ بھگولہ ہو گئے اور پہنچنے کی جلدی کی کیونکہ انہیں بنی حارث کے اس فعل سے ڈرتھا اور نیزہ ہاتھ میں لے کر چل پڑے اور کہا خدا کی قسم تمہیں جس کام کیلئے بھیجا تھا وہ تو ہوا نہیں اور ایک مصیبت اور لے آئے اور یہ کہہ کر ان دونوں کی طرف چل دئیے وہاں جا کر دیکھا کہ یہ دونوں نہایت اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں فوراً سمجھ گئے کہ اسید نے حیلہ جوئی محض اس لئے کی ہے کہ میں بھی ان دونوں کی باتیں سنوں چنانچہ کھڑے ہو کر انہوں نے بھی ان دونوں کو گالیاں دینی شروع کیں ۔اس کے بعد اسعد رضی اﷲ عنہ بن زراہ سے کہا کہ خدا کی قسم اے ابو امامہ !اگر میرے اور تمہارے درمیان رشتہ داری نہ ہوتی تو ہر گز یہ ارادہ نہ کر سکتے تھے ۔ کیا تم ہمارے گھروں میں وہ چیز لانا چاہتے ہو جس کو ہم بُرا سمجھتے ہیں ۔ان کو آتا ہوا دیکھ کر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے مصعب رضی اﷲ عنہ سے کہدیا تھا کہ تمہارے پاس اب قوم کا سردار آرہا ہے ۔اگر اس نے بھی تمہارا کہا مان لیا تو قوم میں سے دو آدمی بھی نہ بچیں گے جو اسلام نہ لائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ سعد سے مصعب رضی اﷲ عنہ نے کہا ارے میاں بیٹھو تو سہی ؟اور بات سنو؟ اگر سمجھ میں آجائے تو مان لینا اور اگر نا پسند گزرے تو ہم چلے جائیں گے سعد نے یہ سن کر کہا بات تو فائدہ کی کہی وہ بھی اپنا نیزہ گا ڑ کر بیٹھ گئے حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ نے ان پر بھی اسلام کی خوبیاں پیش کیں اور قرآن شریف پڑھ کر سنایا ۔ موسیٰ بن عقبہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ سورۂ زخرف کی شروع کی چند آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔حضرت مصعب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن سنتے ہی ہم نے ان کے چہرے پر اسلام کی چمک دمک محسوس کر لی ،سعد نے ان دونوں حضرات سے کہا کہ تم لوگ جب اسلام لاتے ہو اور اس دین میں داخل ہوتے ہو تو کیا کرتے اور کہتے ہو؟ان دونوں حضرات نے کہا کہ اچھی طرح غسل کیا اور کپڑے پاک کئے اور کلمہ حق کی گواہی دے کر دو رکعت نماز پڑھی پھر اپنا نیزہ لے کر اپنی قوم کی مجلس کیطرف متوجہ ہوئے اور ان کے ساتھ اُسید رضی اﷲ عنہ بن حضیر بھی تھے قوم نے انہیں آتا ہوا دیکھ کر کہا خدا کی قسم ہم لوگ ان کو بدلا ہوا پاتے ہیں ۔اپنی قوم کے پاس جا کر قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا اے بن ا عبد الاشہل !تم مجھے اپنے میں کیسا خیال کرتے ہو؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ ہمارے سردار ہیں ۔سب سے زیادہ صائب الرائے اور مدبر ہیں اور آپ کی نگاہ بہت دور رس ہے ۔حضرت اُسید نے کہا تمہارے مرد اور عورتوں سے مجھے بات کرنی حرام ہے جب تک کہ تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ گے ۔راوی کا بیان ہے خدا کی قسم شام نہیں گذری تھی کہ بنی عبد الاشہل کا ایک ایک مر د اور عورت مسلمان ہو چکا تھا ،حضرت سعد بن معاذ اور مصعب بن عمیر دونوں حضرات اسعد بن زرارہ کے گھر مدینہ میں ٹھہر گئے ،اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے ۔انصار کے گھروں میں سے کوئی گھر باقی نہ بچا جس کے مرد و عورت مسلمان نہ ہو گئے ہوں ،سوائے بنی امیہ ( البدایہ جلد3صفحہ53)

حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ بن وہب کی تبلیغ:حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ۔عمیر بن وہب غزوہ بدر کے چند ہی دنوں کے بعد صفوان بن امیہ کے ساتھ حطیم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ عمیر قریش کے انتہائی خبیث طینت انسانوں میں سے تھے اور انہوں نے رسول اﷲ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو بیحد اذیتیں پہنائی تھیں اور مکہ کے قیام کے زمانہ میں ان کی وجہ سے بڑی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔انکا بیٹا وہب بن عمیر بدر کے قیدیوں میں گرفتار ہوا تھا ۔یہ آپس میں جنگ بدر کا تذکرہ کر رہے تھے جس میں ان کے ستر (70)آدمی قتل کر کے کنویں میں ڈالے گئے تھے اور جن کو مصیبت پہنچائی گئی تھی ۔صفوان نے کہا خدا کی قسم ان مقتولین کے بعد اب زندگی تلخ ہے ۔عمیر نے کہا بیشک تم صحیح کہتے ہو ،اگر مجھ پر ایسا قرضہ نہ ہوتا جس کی روانگی کافی الحال میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں و نیز اپنے پیچھے بال بچوں کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو ابھی میں سوا ر ہو کر محمد (ﷺ) کے پاس جاتا اور اس کو (نعوذ باﷲ ) قتل کر دیتا ، میری تو ان لوگوں سے انتہائی عداوت ہے اس لئے کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھوں میں قید ہے ۔صفوان بن امیہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہا تمہارے قرضہ کی ادائیگی کل کی میرے ذمہ ہے اور تمہارے بال بچوں کی پرورش میرے بال بچوں کے ساتھ ہو گی ۔میں ان کی اس وقت تک پرورش کروں گا جب تک وہ زندہ رہیں گے اور اُس وقت تک میں ان کی پرورش سے عاجز نہ آؤ گا جب تک وہ زندہ رہیں گے اور اس وقت تک میں ان کی پرورش سے عاجز نہ آؤں گا ۔عمیر نے کہا اچھا اس راز کو اپنے اور میرے درمیان پوشیدہ رکھنا ۔صفوان نے کہا ایسا ہی کروں گا ۔عمیر نے اپنی تلوار کے تیز کئے جانے اور زہر میں بجھائے جانیکا حکم دیا ۔چنانچہ تلوا رہر آلود کی گئی اور یہ وہاں سے مدینہ آگیا اور ادھر حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ چند مسلمانوں میں بیٹھے ہوئے غزوۂ بدر کا تذکرہ کر رہے تھے اور اﷲ پاک کی نوازش اور اس کی کرم فرمائی کا اور اپنے دشمنوں پر فتح یابی کو جو اﷲ نے دکھلایا اس کا تذکرہ چھیڑ رکھا تھا ۔ اچانک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی نظر عمیر بن وہب پر پڑی جس نے مسجد نبوی کے سامنے اونٹنی بٹھائی تھی اور تلوار کاندھے میں پڑی ہوئی تھی کہا یہ کتا خدا کا دشمن عمیر بن وہب شرو فساد کے لئے آیا ہے ۔یہ وہی ہے جس نے یوم بدر میں لڑائی کی آگ بھڑکائی تھی اور ہمارے لئے قوم کو جمع کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسی وقت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اﷲ کے نبی ! یہ خدا کا دشمن عمیر بن وہب تلوار لٹکائے ہوئے آگیا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا ۔اسکو میرے پاس لے آؤ ۔چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے اور عمیر کی تلوار کے پر تلے کو اس کی گردن میں ہی دے کر پکڑا اور انصاری ساتھیوں سے کہا کہ جناب رسول اﷲ ﷺ کے پاس چل کر بیٹھ جاؤ اور اس خبیث سے حضور اکرم ﷺ کی پوری حفاظت رکھو ۔مجھے اس کی طرف سے اطمینان نہیں ۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ،عمیر کو لے کر سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں اسی طرح حاضرہوئے ۔ حضور اکرم ﷺ نے دیکھ کر فرمایا اے عمر ! اسے چھوڑ دو اور عمیر سے کہا قریب آکر بیٹھو ۔چنانچہ عمیر قریب بیٹھا ۔اورکہا انعم صبا حا یعنی صبح بخیر باد، سلام جاہلیت یہی تھا حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اﷲ پاک نے ہم کو ایک ایسے سلام کے ساتھ نوازا ہے ۔اے عمیر !وہ تمہارے سلام سے بدر جہا بہتر ہے اور وہ سلام اہل جنت کا سلام ہے ۔عمیر نے کہا خدا کی قسم اے محمد ! میرے لئے تو یہ ایک نئی بات ہے ۔اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا ۔اے عمیر کس غرض سے آنا ہوا۔ عمیر نے کہا میں تو اپنے اس قیدی کے لئے آیا ہوں جو آپ کے یہاں گرفتار ہے کہ آپ اُس کے بارے میں احسان اور کرم کریں ۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ۔پھر یہ تلوار گلے میں کیسی ہے ؟ عمیر نے کہا خدا ان تلواروں کا برا کرے ۔ان سے پہلے کیا فائدہ ہوا؟ آپ ﷺ نے کہا صاف صاف کہو کس ارادہ سے آنا ہوا ہے ؟عمیر نے کہا کہ محض یہی غرض تھی جو عرض کی آپ ﷺ نے فرمایا ۔نہیں نہیں تم اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر قریش کے ان ستر آدمیوں کا جو بدر کے کنویں میں ڈالے گئے تھے ذکر کیا تھا تو تو نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مجھ پر قرض اور بال بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں یہاں سے جا کر محمد (ﷺ)کو قتل کر دیتا ۔(نعوذ باﷲ)

صفوان بن امیہ نے تمہارے قرضہ اور بال بچوں کی ذمہ داری لی تھی ۔اس وجہ سے کہ تم مجھے قتل کر دو اور خدا میرے اور تمہارے درمیان شاہد ہے یہ سنتے ہی عمیر نے گواہی دی کہ بیشک آپ اﷲ کے رسول ہیں اور اس کے بعد کہا یا رسول اﷲ ﷺ آپ جو چیز ہمارے سامنے آسمان کی خبروں سے لاتے تھے اور جو کچھ آپ پر وحی اترتی تھی ہم ان سب کی تکذیب کیا کرتے تھے اور یہ تو ایک ایسا قصہ ہے کہ جس میں سوائے میرے اور صفوان کے کوئی موجود نہیں تھا۔ پس خدا کی قسم مجھے یقین آ گیا کہ اس بات کی اطلاع دینے والا آپ کو سوائے اﷲ کے اور کوئی نہیں ۔اس اﷲ پاک کا لاکھ لاکھ شکر اور اس کیلئے حمد و ثناء ہے جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی ۔اور مجھے اس راستے پر لگا یا اس کے بعد سچے دل سے حق کی شہادت دی ۔حضور اکرم ﷺ نے (صحابہ کرام سے ) فرمایا اپنے بھائی عمیر کو دین کی باتیں سکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم دو اور ان کے قیدی کو چھوڑ دو ، چنانچہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے ایسا ہی کیا ۔ حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ میں نے اﷲ کے نور کے بچانے میں انتہائی کوشش کی تھی اور جو لوگ اﷲ کے دین پر تھے ۔انہیں نے بہت ایذارسانی کی ہے ۔میں پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں مکہ جا کر لوگوں کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں ۔شاید اﷲ پاک اہل مکہ کو ہدایت دے اور اگر انہوں نے میری بات نہ مانی تو میں ان دین کے بارے میں ایذار سانی میں کوئی کسر نہ چھوڑوں گا ۔جس طرح میں نے آپ کے اصحاب کو ان کے دین کے بارے میں تکلیفیں پہنچائیں ۔رسول اﷲ ﷺ نے انہیں اجازت دیدی اور یہ مکہ پہنچ گئے ادھر صفوان نے انکے مکہ سے نکلنے کے بعد ہی ڈھول پیٹ دیا کہ اے لوگو ! چند ہی یوم بعد تم لوگوں کے پاس ایک ایسی بشارت آنے والی ہے جو تمہیں بدر کی ساری مصیبتیں بھلا دے گی اور صفوان آنے والے سواروں سے عمیر کی خبر پوچھا کرتاتھا ۔ایک دن ایک سوار نے عمیر کے اسلام کی خبر سنائی صفوان نے قسم کھالی کہ عمیر سے زندگی بھر بات نہ کروں گا اور کبھی عمیر کو میری جانب سے نفع نہ پہنچے گا۔

کنز العمال میں ان کے مکہ واپس آنے کا قصہ اس طرح ہے کہ جب حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ مکہ واپس تشریف لائے ،اسلام کی دعوت و تبلیغ میں لگ گئے اور جس نے اس بارے میں ان کی مخالفت کی اسے شدید ایذارسانی کی ، چنانچہ ان کی کوششوں سے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے ۔

حضرت عروہ رضی اﷲ عنہ کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی مسلمان انتہائی خوش ہوئی ۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آئے تھے تو خنزیرمجھے بدرجہا ان سے پسند تھا اور آج تو مجھے یہ بعض میرے بیٹوں سے زیادہ محبوب ہیں۔

حضرت عبد اﷲ بن عمر و بن امیہ کی روایت میں ہے کہ جب عمیر اسلام لانے کے بعد مکہ معظمہ تشریف لائے اور اپنے گھر گئے اور صفوان بن امیہ سے ابھی تک ملاقات نہ ہوئی تھی اپنے گھر والوں پر اسلام کو ظاہر کیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی ۔جب صفوان کو یہ خبر پہنچی تو صفوان بولا میں نے تو پہلے ہی جان لیا تھا جب وہ آتے ہیں مجھ سے نہ ملے اور اپنے گھر چلے گئے کہ یہ ضرور بدل گئے اور بے دین ہو گئے ہیں ۔اس سے زندگی بھر بات نہ کروں گا اور اسے اور اس کی اولاد کو کبھی نفع نہ پہچاؤں گا۔ ایک روز صفوان بیت اﷲ کے پاس تھا حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ نے آواز دی ۔اس نے بطور اعراض کوئی جواب نہ دیا ۔حضرت عمیر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں ۔آپ بتائیے و ہ مذہب جس پر ہم پہلے تھے جب پتھروں کو پوجا کرتے تھے اور ان کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے کیا وہ بھی کوئی دین اور مذہب ہے تم اس بات کی گواہی دو کہ سوائے خدا کے کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔صفوان نے کوئی جواب نہ دیا ۔

یہ چند واقعات تبلیغ تحریر کئے ہیں اور کوشش کی ہے کہ قارئین تک اس بات کو پہنچایا جائے کہ تبلیغ دین کے لئے صرف عالم دین ہونا ،سفر پر نکلنا ، یا خطیب و واعظ ہونا ضروری نہیں ۔ جس شعبہ سے وابستہ ہیں اور جس قبیلے سے بھی ہیں ۔ آپ اپنے حلقۂ احباب میں تبلیغ دین کا کام کریں ۔ جو سیکھا ہے اُسے دوسروں تک پہنچائیں ۔ اسی تبلیغ دین کے فریضہ کی ادائیگی کی وجہ سے اس امت کو ’’خیر الامم ‘‘ قرار دیا گیا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’تم تک میری ایک بات بھی پہنچے تم وہ دوسروں تک پہنچاؤ‘‘اﷲ تعالیٰ ہمیں دین حقہ کی تبلیغ کی توفیق دے ۔آمین
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 610526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.