اکویٹوس ( Iquitos ) ایمیزون کا ایک اہم ساحلی شہر ہے اور
یہ پیرو کا پانچواں سب سے بڑا شہر ہے- یہ شہر دریائے ایمیزون٬ Nanay اور
Itaya کے ساتھ واقع ہے- اس شہر کے گرد پانی ہے یا پھر ایک جانب گھنا جنگل-
اس شہر تک رسائی کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے اور یہاں پہنچنے کے لیے یا تو
جہاز استعمال کرنا پڑتا ہے یا پھر کشتیوں کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے جس کے
لیے ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے اور اس سفر کے دوران گرم اور مرطوب موسم کا
مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے-
|
|
اس شہر کی آبادی 4 لاکھ 22 ہزار افراد پر مشتمل ہے اور یہ دنیا کا سب سے
بڑا ایسا شہر ہے جہاں تک رسائی کے لیے کوئی سڑک موجود نہیں-
اس علاقہ میں ہزاروں سال تک خانہ بدوش شکاری مختصر مدت کے لیے دریا کے
کنارے آکر آباد ہوتے رہے اور ان کی یہ رہائش موسم کے اعتبار سے ہوا کرتی
تھی- یہ سب کچھ اس وقت تک رہا جب تک کہ یورپی مشنریز یہاں نہیں پہنچے اور
انہوں نے یہاں تینوں دریاؤں کے گرد مقامی آبادی کو آباد کیا-
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شہر Jesuit مشنریز نے 18ویں صدی میں دریافت کیا
جبکہ بعض کے نزدیک یہ دعویٰ درست نہیں ہے-
|
|
کوئی بھی صورت ہوں لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ اس شہر نے آباد کاروں کو اس
وقت تک متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا جب تک کہ 19ویں صدی کے آغاز میں
یہاں سے ربڑ دریافت نہیں ہوگیا-
ربڑ کی دریافت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں آ کر آباد ہونے لگے خاص
طور پر نوجوان جو کہ اس ربڑ کے ذریعے ہی اپنی قسمت چمکانا چاہتے تھے-
اس چیز نے آٹو موبائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں میں اضافہ کیا اور ڈرامائی
طور پر دنیا بھر میں ربڑ کی مانگ میں اضافہ ہوگیا- بعض لوگ تاجر اور بینکر
بن گئے اور یوں انہوں نے اپنی قسمت کو چمکایا-
متعدد یورپی باشندوں نے یہاں کی مقامی خواتین سے شادی کی اور اپنی باقی
زندگی کی اسی جگہ گزاری اور یوں بہت سے نسلی مخلوط خاندان وجود میں آئے-
|
|
تارکین وطن ہی اس شہر میں یورپی طرز لباس٬ میوزک٬ تعمیرات اور دیگر ثقافتی
عنصر لانے کا باعث بنے- اور دوسری جانب یہ شہر ربڑ کی صنعت اور اس کے عروج
کی وجہ سے ایک امیر ترین شہر بن گیا-
سال 1912 کے بعد ربڑ کی پیداوار میں کمی واقع ہونے لگی اور شہر کی آبادی
بھی کم ہونے لگی- اور اس شہر میں اب بھی ربڑ کی کئی نشانیاں دیکھی جاسکتی
ہیں- جیسے کہ اطالوی طرز کے محلوں میں موزائیک ٹائلز اور دریا کے اطراف میں
چلنے کے لیے بنائے گئے راستے-
اس کے علاوہ سب سے مشہور آئرن ہاؤس جو کہ Gustave Eiffel نے ڈیزائن کیا اور
اس گھر کو دھاتی شیٹس سے تیار کیا گیا اور ان شیٹس کو سینکڑوں افراد جنگل
سے لاتے تھے-
اس شہر کے بڑے گھر اب یہاں کے اچھے دنوں کی یادگاروں کی چمک کم کر رہے ہیں-
یہاں کا شانتی ٹاؤن ایک ایسا مقام ہے جہاں لوگ لکڑیوں کے گھر میں رہتے ہیں
جو کہ دریا کے کنارے آباد ہیں-
|
|
ان میں سے بعض گھر بانسوں پر کھڑے ہیں جبکہ کچھ بہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
اور انہیں رسی کی مدد سے ڈنڈوں کے ساتھ اس وقت باندھ دیا جاتا ہے جب دریا 6
میٹر یا اس سے زائد اونچا ہوجاتا ہے-
اگرچہ اس شہر تک رسائی کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے لیکن یہ شہر گاڑیوں کے بغیر
نہیں ہے اور یہاں سواری کے لیے موٹر سائیکل اور موٹر کار استعمال کی جاتی
ہیں-
سال 2012 میں 2 لاکھ 50 ہزار سیاحوں نے اس شہر کا دورہ کیا- اور اس شہر کا
تین جانب پانی اور ایک جانب جنگل سے گھرا ہونا سیاحوں کے لیے کشش کا باعث
ہے- |