قبلۂ اول جہاں کئی مہینوں سے لوگ گولیوں اور بموں کی آواز
سن کر دہشت کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ۔ جنگ اور تصادم کے سبب روزمرہ
زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں، شام کی گلیوں میں ہر طرف
احتجاجیوں کے ہنگامے اور پولس کی گولیاں گونج رہی ہے، عراق وافغانستان جہاں
ہر دم خود کش حملے کا خدشہ لگا رہتا ہے، برما و آسام میں ایسی کتنی ہی
سہاگنیں ہوگیں جن کے سر کا سہاگ اجاڑ دیا گیا، ان کے ہاتھوں میں مہندی نہیں
بلکہ اقربا کے خون کی سرخی نظر آرہی ہونگی۔ایسے ہزاروں بچے ہیں جن کے سر سے
شفقت پدری کا سایہ اٹھا لیا گیا ہے،ایسے کتنے ہی مسلمان ہے جن کی میت پر
کوئی نماز جنازہ پڑھنے والا بھی نہیں ہے ، کوئی کفن پہنا کر دفن کرنے والا
بھی موجود نہ رہا،ان کی لاشیں یونہی بے گور وکفن کیڑے مکوڑوں کی غذا بن رہی
ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہوا؟صدیوں تک اکناف عالم پر حکومت کرنے والی قوم اس قدر بے
بس اور لاچار کیوں ہوگئی؟اس سوال کا جواب پانے کے لیے تاریخ کے اوراق پر
ایک سرسری نظر دوڑانی ہوگی۔مسلمانوں نے صدیوں تک دنیا پر حکومت کی،دینی
ودنیاوی علوم پر عبور حاصل کیا،بڑی بڑی طاقتوں کوزیر کیا،اٹھنے والے ہر
طوفان کے سامنے سینہ سپر رہے اور اسے پاش پاش کیا،تمام براعظموں پر اپنا
پھریرا لہرایا،یہ تو مسلمانوں کی تاریخ ہے مگرحال بھی کچھ بُرا نہیں، اب
بھی مسلمانوں کی دسترس میں پچاس سے زائد ممالک،ایک ارب سے زیادہ آبادی
اورتیل ومعدنیات کے ذخائر سے لبریز ہے مسلم دنیا ۔ امت مسلمہ میں ذہین
وباصلاحیت اورہنرمند افراد کی کمی نہیں ہے مگر اکناف عالم کے مسلمانوں پر
طائرانہ نظردوڑائیں تو معلوم ہوگاکہ ہر جگہ مسلمان مجبورومقہور،وسائل ہونے
کے باوجود بے سہارا،حکومت واقتدار کے باوجود بے بس ولاچار،تہذیب وتمدن رکھ
کر بھی شناخت کی جستجو میں سرگرداں،ممالک کی کثرت کے باوجود احساس بے وطنی
کے شکار،اقرء پڑھ کر بھی عامی وجاہل۔مسلمانوں نے اپناوقارمجروح و ملیامیٹ
کردیا،اپنی شناخت کھودی،اپنی تہذیب فراموش کردی،تمدن کاجنازہ نکال
دیا،اقتدارکھ کر بھی غلام بنے رہے،قدرتی ذخائر ہونے کے باوجودہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھے رہے،اس کے برعکس ایک ایسی قوم جو صدیوں تک معتوب رہی،جسے کبھی
بخت نصر نے توکبھی ہٹلر نے خاک وخون میں نہلایا،جس کی آبادی مٹھی بھرہے،جن
کے پاس قدرتی وسائل یاتو ہے نہیں اور ہے تو انتہائی قلیل،جن کا جغرافیائی
لحاظ سے محدود رقبہ ہے،ایسی قوم جن کا سامنا ہروقت زمانے کی طوفانی لہروں
سے رہاہے آج ہر لحاظ سے مضبوط وطاقتورہے،نظام سیاست کی ڈور ان ہی کے ہاتھوں
میں ہے ،دنیاکانظام انہیں کے سہارے یاانہیں کے اشارے پرچلتاہے، دنیاکاسب سے
طاقتور ملک امریکہ کانظام سیاست ومعیشت تو جیسے ان کی لونڈی ہے یایرغمال
ہے۔بالی ووڈ ہویانیوزایجنسی،نیوز چینل ہوں یابڑے سے بڑااخبار،امریکی معیشت
پرقابض بڑی بڑی کمپنیاں ہوں یا سیاست وحکومت کی پرپیچ گلیوں پر مسلط پالیسی
سازدانشور،ہرجگہ انہیں کاراج ہے اور ہرمقام پر انہیں کا سحراور جب یہ
سحرسُپرپاور پر اس قدر حاوی ہے تو اس کے جادو سے باقی دنیا کیونکر اچھوتی
رہ سکتی ہے۔
اگر ہم نگاہ اٹھا کردیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ہمارے اردگرد،پاس پڑوس،آگے
پیچھے ان کی کرشمہ سازیوں کی جلوہ نمائیاں ہیں۔جی ہاں!!میری مراد قوم یہود
ہے مگرہاں اس تحریرسے قوم مسلم کی ذلت اورقوم یہودکی تعریف مقصود نہیں بلکہ
یہ باور کرانا ہیکہ آخر ایساکیوں ؟ یہودی محدودوسائل اور نفرت وقہر کاشکار
رہ کر بھی حکومت ومعیشت ،علوم وحکمت،ذرائع رسل ورسائل کے ناخدا،دنیا کی
قوموں کی تقدیر بدلنے والے،فیصلوں میں ان کا رول،بدلتے زمانے کی نبض پر ان
کا ہاتھ،دنیاکے بیشترطاقتور ہاتھوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ میں،دنیاکی ہر چھوٹی
بڑی خبر سے باخبراور ہر چھوٹے بڑے دوست ودشمن سے آشنا،صدر اسلام میں بیٹھ
کرعالم اسلام کا شیرازہ بکھیرنے میں مصروف،اور․․․․․․مسلمان․․․․․․․اپنے ہی
کچھار میں مجبورومحصور،سب کچھ رکھ کر قلاش،بے کس،بے بس،بے سہارے،بے
چارے،قسمت کے مارے۔آخر کیوں؟؟انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا،منصوبہ بندطریقے
سے زندگی کی راہوں میں قدم بڑھایا،اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے بے پناہ
کاوشیں کیں اور ہم اس کے بالکل برعکس۔ہماری ناکامی ومحرومی کی پہلی وجہ
قرآن پاک سے عیاں ہوتی ہے جس کی ترجمانی ڈاکٹر اقبال نے یوں کی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان راہوں کواختیار کیاجائے جن پر چل کر امت مسلمہ
اپنے کھوئے ہوئے وقارکوبحال کرسکیں،اپنی شناخت کو مستحکم کرسکیں،اپنے آپ کو
مضبوط کرسکیں،یہودیوں کو برابھلاکہہ کریا شیطان کومورد الزام
ٹھہراکریاتوکّل کا حوالہ دے کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآنہیں
ہوسکتے،ہمیں اپنے دن بدلنے کے لئے خود ہی ہاتھ پیر مارنے ہونگے،خود ہی تعلم
کی طرف بڑھنا ہوگا،خود ہی اپنی آواز بلندکرنی ہوگی، خود ہی اپنے وجود
کااحساس دلانہ ہوگا،تعلیمی میدان میں قدم بڑھانا ہوگااور وقت وحالات کے پیش
نظراپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔مگرآہ صدآہ!!آج امت مسلمہ قرآن وسنّت کو چھوڑ کر
یہودونصاریٰ کے طریق کواختیار کررہی ہیں،جن قوموں کوقرآن نے ہمارا دشمن
گرداناہے آج ہم انہیں کی تہذیب کے متوالے،انہیں کے تمدن میں رنگے
ہوئے،انہیں کی سوچ وفکر کوقبول کئے ہوئے،وہ جس طرف چاہے ہمیں موڑدے،جس
گہرائی میں چاہے ڈھکیل دے اگر یہی روش رہی تو حالات دن بہ دن بدتر ہوتے
جائینگے،مسلمان مزید خستہ حال ہوتے جائینگے،ہماری عزت وآبرو مجروح
ہوجائینگی،دنیا جس طرف چاہے گی فٹ بال کی طرح لات مار کر اڑادینگی،انہی
حالات کو دیکھ کرشاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہاتھا
وضع میں تم ہونصاریٰ توتمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
در حقیقت کسی کی کشتی میں سوار ہوکر اپنی نیّا نہیں تیرائی جاسکتی،ہمیں
اپنی ہی کشتی کی نگہبانی کرنی ہوگی،ہمیں اسلامی تہذیب وتمدن کو بحال
کرناہوگا،اپنے ہی اصول وضوابط اور قوانین کو اختیار کرناہوگا،فرد واحد نہیں
بلکہ ملّی تشخص پر توجہ مرکوز کرناہوگی،ناموس رسالتﷺ کی خاطر متحد
ہوناہوگا،مصطفی کریم ﷺکی محبت میں تمام فتنوں،آپسی تنازعات اور خرافات کو
بھلانا ہوگا،یکجا ہوکر عشق رسولﷺکے پلیٹ فارم سے ایکتا ئی کا مظاہرہ کرکے
قوم مسلم کی بلندی کے لئے لائحہ عمل تیار کرناہوگا۔تب کہیں جاکر بلند
ہوگامسلمانوں کاکھویاہواوقار،بحال ہوگا مسلمانوں کا تشخص اور حاصل ہوگی وہی
عظمت،بلندی اور سرخروئی جودور رسالت میں حاصل تھی۔ |