مویشیوں کی ملکیت کے مقدمے تو اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن ان
مقدموں کے فیصلے انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ نہ تو جانور خود بتا سکتا
ہے کہ اس کا مالک کون ہے اور نہ ہی ان کے کوئی کاغذات ہوتے ہیں جس سے جانور
کے اصل مالک کا پتہ لگایا جاسکے-
تاہم بھارت کی ایک عدالت نے ایسے ہی ایک مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے انوکھا
راستہ اپنایا جس میں عدالت نے گاںے کے اصل مالک کا پتہ لگانے کے لیے گاںے
کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا اور مقدمے کا فیصلہ کر دیا-
|
|
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست کیرالہ کی رہائشی ایک خاتون سشیلکھا کا الزام
تھا کہ اس کی ہمسائی گیتا اس کے مویشی چوری کر رہی ہے اور معاملہ عدالت تک
جا پہنچا۔ تنازعہ اس حد تک شدید تھا کہ گائے کو بھی عدالت میں بھی پیش کیا
گیا۔
دونوں خواتین کے درمیان گزشتہ برس یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب گیتا نے یہ
دعویٰ کیا تھا کہ اس کی ایک گائے متنازع جانور کی ماں ہے۔ تب عدالت نے حکم
دیا کہ گائے کا ڈی این اے کروایا جائے-
تاہم ٹیسٹ کے نتائج گیتا کے حق میں نہیں آئے اور گائے سشیلکھا کی قرار پائی۔
سال 2013 میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں گیتا نے دعویٰ کیا تھا کہ اس
کے پاس 15 گائیں ہیں اور انہی میں سے ایک نے اس متنازع گائے کو جنم دیا تھا۔
تنازعے کے باعث اس گائے کو عدالت میں پیش کیا گیا اور سشیلکھا کو اجازت دی
گئی کہ وہ اسے اپنی تحویل میں ہی رکھیں، لیکن زر ضمانت کے طور پر انھیں 45
ہزار روپے عدالت میں جمع کروانے پڑے۔
|