لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفا ق المدارس العربیہ پاکستان

اس بات میں دورائے نہیں کہ احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی اور قانونی حق ہے ۔حکمرانوں پر چیک رکھنے کے لیے ، ان کی غلط پالیسیو ں کی روک تھام اور غلط روش سے انہیں باز رکھنے کے لیے اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اپوزیشن اور احتجاج نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن احتجاج کے کچھ شرعی ضابطے ہیں ، کچھ قانونی باریکیاں ہوتی ہیں اور کچھ حالات وواقعات کے نزاکت کے تقاضے ہوتے ہیں ۔اس لیے حالیہ دنوں میں ہونے والے احتجاج کا انصاف اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔

سب سے پہلے یہ بات پیش نظر رہے کہ جس طرح ہر حکومت کی بعض غلط پالیسیاں ہوتی ہے اسی طرح موجود ہ حکومت بھی بعض بدترین کوتاہیوں کی مرتکب ہوئی ہے مثلا میاں بردار ان کا غیر لچکدار انہ رویہ ، ان کی طرف سے بدترین اقرباء پروری ، غیرمنتخب افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کی روش اورکار ہائے حکومت کو کاروباری طرز پر چلانے کی سوچ نے یقینا کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔جبکہ بعض امور ایسے ہیں جو ہمارے ملک کی بنیادی خرابیاں کہلاتے ہیں اور ہر دور میں وہ خرابیاں کسی نا کسی شکل میں موجود رہیں مثلابنیادی طور پر پورا سسٹم ہی غلط بنیادوں پر قائم ہے جس میں وسیع پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے بطور خاص ہمارے انتخابی سسٹم کی خرابیاں ہر کس وناکس کے علم میں ہیں کہ کس طرح روپے کے پیسے زور پر ،طاقت وقوت کے بل بوتے پر اوربیوروکریسی کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو مینڈیٹ چرائے جاتے ہیں اور گاہے نادیدہ قوتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مینڈیٹ میں رد وبدل کیا جاتا ہے ۔ایسے میں حکمرانوں کی ان غلط پالیسیوں پر احتجاج کرنا ، ظلم وزیادتی کی روک تھام کی کوشش اور فکر کرنا اور وطن عزیز میں اصلاح احوال کی تگ ودَو کرنا ہر محب وطن اور ذمہ دار پاکستانی پر لازم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر احتجاج کا دائرہ اور طریقہ کار کیا ہے ؟ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ احتجاج کی ایسی کوششیں نیک نیتی پر مبنی ہونی چاہیں، شفافیت اور خلوص اس احتجاج کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ تاثر زہر قاتل ہے کہ احتجاج کسی غیر مرئی قوت کے اشارے پر کیا جارہاہے یا اس احتجاج کے پیچھے کچھ بیرونی عناصر کاہاتھ ہے جبکہ حالیہ احتجاج بدقسمتی سے سر تا سرا یک ایسا معما ہے جو نہ سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا۔

ان دھرنوں میں جو افسوسناک بلکہ المناک ٹرینڈ سامنے آیا وہ فحاشی وعریانی ، ناچ گانا اور مردوزن کا اختلاط ہے ۔ دھرنوں کو جس طرح میوزیکل کنسرٹ کی شکل دی گئی ، ان دھرنوں کے ذریعے جس طرح مشرقی روایات کا جنازہ نکالاگیا ، اسلامی احکامات کو جس ڈھٹائی کے ساتھ نظر انداز کیا گیا اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی اور فحاشی رواج پائے ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے ‘‘ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا ’’جب تم میں شرم وحیاء نہ رہے تو تم جو چاہو کرو ! یعنی شرم وحیاء اﷲ رب العزت کی طرف سے عطا کرہ ایسا وصف ہے جس کی بدولت انسان گمراہی ، بے راہ روی اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتوں سے باز رہنے کی کوشش کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری اور طاغوتی قوتوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اہل ایمان کے دلوں سے متاع شرم وحیاء چھین لیں ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ حالیہ دھرنوں کے ذریعے جس طرح قوم کے بچے بچیوں کو شرم وحیاء کی دولت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں جس انداز سے ناچنے تھرکنے پر لگا دیا گیا اس سے یقینا ابلیسی اور طاغوتی قوتوں کے ہاں جشن کا سماں ہو گا اور اہل ایمان اور اہل درد وفکر کی طرف سے اس پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بیہودگی اور بے حیائی کے اس کلچر کو فروغ دینے والوں کی عقل سلیمہ پر نہ جانے کتنے پردے پڑچکے ہیں کہ وہ سرے سے اپنی غلطی اور خطا تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں بلکہ وہ ناصحین کو اور ایسے علماء کرام، دانشوروں اور سنجیدہ حضرات کو جوانہیں ان کی نادانیوں سے منع کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے خلاف بدترین گستاخی اور فاشزم کا مظاہر ہ کیا جاتاہے ۔

دوسرا مسئلہ گانا بجانا اور موسیقی ہے۔ ان دھرنوں کے بعض رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ اس راگ رنگ سے کچھ مخصوص علماء کو تکلیف ہوتی ہے وہ یہ یا د رکھیں کہ صرف علماء کو تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ایسی اوچھی حرکتیں اﷲ رب العزت کے غیض وغضب کو دعوت دینے والی اور انسانیت کو تباہی و بربادی کی طرف کے لے جانے والی ہوتی ہیں ۔ قرآن کریم کے اکیسویں پارے کی سورہ لقمان میں نام لیے بغیر ایک ایسے بدبخت اور بد طنیت شخص کا تذکرہ ہے جس کے بارے میں مفسرین کرام کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد نضر بن حارث ہے جو تجارت کی غرض سے حجاز مقدس سے باہر جاتا ۔دیارِ عجم سے گانے بجانے والی عورتیں لے کر آتا اور پھر مکہ مکرمہ میں میوزیکل کنسرٹ منعقد کرواتا،لوگوں کو قرآن کریم ، نبی اکرم ﷺ کے فرامین اور آپ ﷺ کی مجالس سے دور رکھنے کی کوشش کرتا اس کے بارے میں بڑی سخت وعید ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ آج اگر دیکھا جائے تو آزادی کے خوبصورت عنوان پر اور انقلاب کے خوش رنگ پرچم تلے وہی کچھ ہورہاہے جس کو صدیوں پہلے نضربن حارث نے رواج دیا تھا ۔
اور المیہ یہ ہے کہ اسے گناہ تک نہیں سمجھا جاتا ․․․․․․․․

ان دھرنوں اور احتجاج کاتیسرا بڑا مسئلہ ہے غیر ملکی مداخلت ․․․․ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہاہے کہ آزادی اور انقلاب کے خوشنما نعروں کی آڑ میں کوئی بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا جارہاہے ۔ بہت سی بیرونی قوتیں ہیں جن میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے اپنے ہتھکنڈے ہیں اور انہوں نے اپنے نمائندوں کو انقلاب کے پرچم پکڑا کر اپنے مقاصد و مفادات کی تکمیل کے میدان میں جھونک دیا ہے ۔بعض بیرونی ممالک کی روایتی دشمنی اور سازشوں شرارتوں سے کون بے خبر ہے لیکن اب تو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور عراق وشام کی طرح یہاں کے گلی کوچوں میں کشت وخون کا بازار گرم کی کوششوں کے پیچھے ایک ’’برادر ہمسایہ اسلامی ملک‘‘ کا نام بھی تواتر سے لیا جانے لگا ہے ……اﷲ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔

سب سے افسوسناک صورتحا ل یہ ہے کہ ایک طرف حکومت کی طرف سے غفلت اور لا پرواہی کی روش روا رکھی گئی ہے ۔ جبکہ دوسری طرف مظاہرین کی طرف سے ضد ، انا پرستی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا جارہاہے ۔ فریقین کی اس باہمی کھینچا تانی نے پوری قوم کو عجیب کرب اور عذاب میں مبتلا کررکھا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ابھی اسی حکومت کے دور میں سانحہ تعلیم القرآ ن جیسا المناک واقعہ پیش آیا ۔ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف زخم ہرے تھے ،نوجوان جذبات میں تھے ، معمولی سی دیا سلائی دکھانے سے کبھی نہ بجھنے والی آگ بھڑک سکتی تھی لیکن اس وقت حکومت نے لوگوں کے جذبات کو قابو کیا ،کرفیو لگایا ،فوج بلائی ،تمام تر ریاستی مشنری اور وسائل کو جھونک کر کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونے دیا ۔ لیکن اب کی بار نجانے کیوں حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں ۔ خون خرابا بالکل نہیں ، تصادم کا یہ ملک قطعا متحمل نہیں لیکن حکمت اور طریقے سے لوگوں کو کنٹرول تو کیا جاسکتاہے،ملک کے اہم ترین مقام پر رچائے گئے اس ناٹک کو از خود نہ سہی سپریم کورٹ کے آرڈر پر لپیٹا تو جا سکتا ہے لیکن یہاں کچھ عرصے سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ماحوال پروان چڑھایا جا رہا ہے لیکن یاد رہے کہ اگربازو مروڑنے والوں ،دھرنے دینے والوں ،بات بات پر احتجاج کرنے والوں کے سامنے جھک جانے کی روایت کو اس حکومت نے بھی برقرار رکھا تو کل کوئی بھی جتھہ اسی طرح ریاست کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجائے گا اور اسے کنٹرول نہیں کیا جاسکے گا ۔ اس لیے جہاں مظاہرین کو نرمی ، دانشمندی اور مذاکرات سے کام لینا چاہیے وہیں حکمرانوں کو اب یہ تماشا ختم کروا نے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہیے لیکن یہاں مسئلے کے حل کی بجائے الٹا مخالفانہ ریلیوں اور دھرنوں کی افسوسنا ک ریت ڈال کر ملک بھر میں نظام زندگی مفلوج کرنے اور پوری قوم کو باہم دست وگریباں کرنے کا احمقانہ طرزعمل اپنا یا جارہاہے ۔

ہماری دانست میں اس وقت قوم کو تقسیم کرنے کا موقع نہیں ہے بلکہ اتحاد ویکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ نازک دور میں کسی بھی غیر آئینی اقدام سے بہر صورت گریز کیا جانا چاہیے۔ خاص طورپر آزادی وانقلابی مارچ کے متوالے اور حکومت کے رکھوالے پاکستان کے حال پر رحم کریں ․․․․․حدود اﷲ کو پامال کرنے ، اعلانیہ طور پر اسلامی احکامات کو نظرانداز کرنے ، مشرقی کلچر اور روایات کا جنازہ نکالنے سے گریز کریں ،خاص طور پر وطن عزیز پاکستان کو انتشار وخلفشار اور عدم استحکام سے دوچار کرنے سے بچائیں۔کیونکہ پاکستان کی اس وقت کی حالت اس بچے جیسی ہے جس کے بارے میں دوعورتوں نے قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ۔ ان میں سے ہر عورت اسے اپنا بچہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔ قاضی بڑا سمجھدار تھا۔ اس نے کہا فوراً تلوار منگوائی جائے ، جب تلوارلائی گئی تو اس نے کہا’’ اس بچے کو کاٹ کر دوحصے بنا کر ایک ایک عورت کو دے دیئے جائیں‘‘ ان میں سے ایک عورت بولی’’ قاضی صاحب! خدارا اس بچے کے ٹکڑے مت کریں، میں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوں اور اپنا دعوی واپس لیتی ہوں میں نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا یہ بچہ میری اس بہن کا ہے اسی کو دے دیں ‘‘۔ قاضی نے وہ بچہ اسے کاٹنے سے منع کرنے والی عورت کو دیتے ہوئے کہا’’ بچے کے کٹنے کا دکھ اس کی حقیقی ماں کو ہی ہوسکتاہے کسی اور کو نہیں ہوسکتا‘‘ اس وقت پاکستان کا بھی یہی معا ملہ ہے۔ یہ وطن ہمارے اکابر اور ہمارے آباء واجداد نے بڑی قربانیوں اور مشقتوں کے بعد حاصل کیا ۔ ہم نے دنیا کے مختلف خطوں میں غلام قوموں کے حالات وواقعات کو بہ چشم خود دیکھا ہے اور آزادی کی نعمت سے محروم قوموں کو دَردَر کی خاک چھانتے پایا ہے۔ اس لیے ہم حکمرانوں کو بھی اور آزادی کے نام نہاد متوالوں اور بیرونی قوتوں کی ایماء پر انقلاب درآمد کرنے والوں سے دست بستہ عرض گزار ہیں کہ وہ وطن عزیز کے حال پر رحم کرتے ہوئے افہام وتفہیم کاراستہ اپنائیں اور صبر وتحمل سے کام لیں ۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ؂
لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزاپائی

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.