حاجی ریاض صاحب گزشتہ سات برسوں سے مسلسل حج بیت اﷲ کی
سعاد ت حاصل کررہے ہیں ۔ وقتاًفوقتاً عمرے کے لیے بھی تشریف لے جاتے ہیں ۔
صرف حاجی صاحب ہی نہیں ان کے بیٹے ، بہوئیں اور خاندان کے دیگر افراد کو
جہاں اﷲ رب العزت نے دین پر چلنے کی سعادت سے نوازا وہیں حرمین شریفین کی
حاضری کو ان کے لیے بہت ارزاں فرمادیا ۔ حاجی صاحب کا خاندان دیکھ کر رشک
آتاہے۔ ایک دن ان سے پوچھا’’ حاجی صاحب !حرمین شریفین کی تسلسل کے ساتھ
حاضری کے معاملے میں آپ کی قسمت کیسے جاگی؟ اور اﷲ رب العزت نے حرمین
شریفین جانا آپ کے لیے کیسے اس قدر سہل فرمادیا ؟‘‘ فرمانے لگے’’ میرے پاس
حرمین شریفین جانے کی مالی گنجائش نہیں تھی لیکن میں حاجیوں کی خدمت کی
کوشش کرتا، ایک مرتبہ میں عازمین حج کے ایک گر وپ کو حجاج کیمپ پہنچانے گیا
۔ وہا ں سے شکستہ دل اور روتے روتے واپس لوٹا ۔ شاید وہ دن تھا جب اﷲ رب
العزت نے اپنے گھر کی حاضری کے راستے کھول دیئے اور اس کے بعد سے لے کر آج
تک بس اﷲ کی رحمتیں ہیں ۔
دوبرس ہوتے ہیں مردان سے مولانا ذاکر اﷲ تشریف لائے ۔ اسلام آباد کے علماء
کرام کو تربیت حج کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی اور دعوت دی کہ مردان میں ان
کے ہاں تربیت حج کی جو نشستیں ہوتی ہیں ان میں اسلام آباد کے علماء کرام
اور ائمہ وخطباء شرکت فرمائیں ۔ چنانچہ استاذ مکرم مولانا عبدالغفار کی
سربراہی میں ایک وفد تیار ہوا ، علماء کا یہ قافلہ جب روانہ ہونے لگا تو
گاڑیوں میں جگہ کم پڑگئی ۔ مولانا مفتی ابوبکر نے اس صورتحال میں رضاکارانہ
طور پر خو دکو اوراپنی گاڑی کو پیش کیا اور کسی پیشگی تیاری یا ارادے کے
بغیر وہ بھی اس کاررواں کے ہم رکاب ہوگئے ۔ مردان گئے لبیک اللھم لبیک کی
صدائیں سنیں ، شوق سے تمتاتے نورانی چہرے دیکھے تو حج بیت اﷲ کی سعادت کے
حصول کے لیے دل کسی ضدی بچے کی طرح مچل اٹھا اور پھر اﷲ نے اپنی رحمت سے
اسی سال ان کے لیے حج بیت اﷲ کی سعادت کے حصول کی نعمت مقدر فرمادی۔
مردان سے واپس آکر اسلام آباد راولپنڈی میں امداد ٹرسٹ کے زیر اہتمام تربیت
حج کی محنت کا آغاز ہوا۔ جو اں سال عالمِ دین اور روزنامہ اسلام کے بزنس
ایگزیکٹومولانا شہزاد عباسی اس محنت میں پیش پیش تھے ۔ انہوں نے جڑواں
شہروں میں جہاں جہاں حج ٹریننگ کے بارے میں سنا اس میں شرکت کی،ہر ٹریننگ
کی خوبیوں اور خامیوں کو نوٹ کیا ، خصوصیات کی فہرست بنائی ، تربیت حج کے
انتظامات کے لیے اس قدر ذوق وشوق کا مظاہرہ کیا کہ ان کا اشتیاق اور
والہانہ پن دیکھ کر ان پر بے طرح پیار آتا اور سب علماء کرام کے دل سے ان
کے لیے دعائیں نکلتیں ۔ اس سال اﷲ رب العزت نے اپنی رحمت سے شہزاد بھائی کے
سفر حج کا بندوبست فرمادیا ۔ شہزاد بھائی کہتے ہیں کہ جب مجھے اساتذہ کرام
، ائمہ وخطبا ء اور عازمین حج کی طرف حرمین شریفین کی حاضری کی دعائیں
ملتیں تو میں سوچا کرتا تھا کہ کہا ں میں اور کہاں حرمین کی حاضری ؟ــ شاید
میں زندگی بھر کبھی حج کے لیے نہ جاسکوں لیکن اﷲ رب العزت نے کرم فرمایا
اور میرے سفر حج کے لیے اپنے غیب کے خزانوں سے انتظامات فرمادیئے ۔
یہ صرف دو تین مثالیں ہیں ورنہ خدمت ایک ایسا عمل ہے جس کی برکت سے خدمت
کرنے والے کو اﷲ رب العزت دنیا وآخرت کی بہت سی خیروں سے مالا مال فرما
دیتے ہیں۔ خاص طور پر حجاج کرام کی خدمت بڑی سعادت اور خوش نصیبی والی بات
ہے ۔ اس وقت حجا ج کرام کی جس سب سے اہم اور بڑی خدمت کی ضرورت ہے وہ ’’حج
تربیت ‘‘کا اہتمام ہے کہ حاجی حضرات کوسنت کے مطابق حج کرنے کا طریقہ
سکھایا جائے ،حج کے احکام ومسائل ازبر کرائے جائیں ،حج کے فضائل سنا سنا کر
ان کے شوق کوبڑھاوا دیا جائے۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا مفتی ابولبابہ شاہ
منصور دامت برکاتھم العالیہ کی مساعی جمیلہ امید کی ایک کرن ہے۔ اﷲ رب
العزت حضرت کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر سے نوازیں۔ اس میدان میں اگر چہ
تبلیغی جماعت کے مراکز میں تربیت کا انتظام ہے ، بعض رفاہی ادارے اور بعض
مساجد کے ائمہ اور علماء کرام کسی نا کسی درجے میں تربیت حج کی محنت
فرمارہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس میدان میں کام کا تقاضہ کہیں زیادہ ہے
بالخصوص اس کام کو ایک تحریک کی شکل دینے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں ۔
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عازمینِ حج بھاری رقم خرچ کرکے ، سفر کی صعوبتیں
جھیل کر اور بہت مجاہدے کرکے حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرتے ہیں لیکن حج کے
مسائل اور احکام سے نابلد رہنے کی وجہ سے گاہے واجبات چھوڑ دیتے ہیں، گاہے
ان پر دَم لازم آجاتاہے ،کبھی حج ہی ناقص رہ جاتا ہے ۔ چنانچہ حج کے مختلف
مراحل پر پاکستانی مسلمانوں کی لا علمی کے عجیب وغریب مظاہر دیکھنے کو ملتے
ہیں ۔اس لیے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عازمین حج کو یہاں سے ایسی
تربیت دے کر بھیجیں کہ انہیں عمرہ اور حج کے ارکان ، واجبات اور افعال
واعمال انگلیوں پر یاد ہوں ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جس وقت انسان حج بیت اﷲ کی تیاری کررہا ہوتاہے اس وقت
اس کا دل نرم ہوا ہوتاہے ۔ اس میں اپنی اصلاح اور بہتری کا احساس پیدا
ہوتاہے ، اس کے دل کی مٹی زرخیز اور نم ہوئی ہوتی ہے اور اس کے دل کی دنیا
میں قبولِ حق کا لوہا گرم ہوتاہے یہی وقت ہوتاہے جب کسی بھی انسان کو سودی
لین دین ، معاملات کی خرابی او زندگی کو غلط روش سے ہٹا کر صراط مستقیم پر
لانے کے لیے آمادہ کیا جاسکتاہے اور اس کی زندگی کی کایا پلٹی جا سکتی ہے۔
تیسری وجہ ایک بڑا المیہ ہیاور وہ یہ کہ تربیتِ حج کے خوشنما عنوان پر جو
سرکاری سطح پر تربیت دی جاتی ہے یا مختلف لوگوں نے ا س میدان میں خو د کو
حج ٹرینر کے طور پر مشہور کر رکھا ہے۔ ا ن کی تربیتی نشستوں میں شریک ہونے
کا موقع ملا۔ان کی کاوشیں دیکھنے ، سننے سے اندازہ ہو ا کہ وہ بے چارے خود
ہی حج کے احکام سے ناواقف ہوتے ہیں ، مسائل سے تو سرے سے بے خبر اور بعض
ایسی چیزوں پر ااتنا اصرار کیا جاتاہے جو حج کا حصہ تو کیا دین اسلام کے
مزاج کے ہی منافی ہوتی ہیں ۔مثال کے طور پر ایسی اکثر مروجہ تربیتی نشستوں
میں پور ازورِ بیان حجاب اور پردے کی بندھنوں سے حج کے مبارک سفر پر جانے
والی بہنوں کو آزاد کروانے پر صرف ہوتاہے ،ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حج جیسے
مبارک عمل کی تربیت کا اہتمام اب مخلوط مجالس اور شادی ہالوں وغیرہ میں
ہونے لگاہے …… ہماری دانست میں اس ساری صورتحال کی تمام تر ذمہ داری علماء
کرام اور ائمہ و خطباء مساجد پر عائد ہوتی ہے ۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ حج تربیت کے نام پر عازمین حج پر یہاں پاکستان میں بھی
رنگا رنگ افکار ونظریات ٹھونسے جاتے ہیں ۔ اور دورانِ سفر بھی بہت سے شکاری
تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ وہ بڑے خوشنما عنوانات کے تحت لوگوں کے دلوں
میں تشکیک کے بیج بوتے ہیں، انہیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی تعبیر دین سے
بر گشتہ کرکے خود رائی اور خود نمائی کے فتنے میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا
لازمی نتیجہ تذبذب اور گمراہی کی شکل میں نکلتاہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جن کا اس مختصر سے کالم میں احاطہ ممکن
نہیں ۔بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شہر کے ہر
اہم مقام اور اہم مسجد میں تربیتِ حج کا اہتمام ہو ، مختلف شہروں کے علماء
کرام اس سلسلے میں بروقت اجتماعیت کے ساتھ کوئی نظم بنائیں ، اس شعبے میں
کام کرنے والوں سے رہنمائی لی جائے ، اگر خود ذوق ،مزاج یا فرصت نہ ہو تو
دیگر علماء کرام کو دعوت دے کر تربیت ِحج کا اہتمام کروایا جائے ، مستند
علماء کرام اور مفتیان عظام کی سفر حج کے حوالے سے کتب کو زیادہ سے زیادہ
مقدار میں شائع کرواکر ہر حاجی تک پہنچانے کا اہتما م کیاجائے ، سفر حج کے
دوران کا م آنے والا جملہ طباعتی مواد عازمین حج کے زادِ راہ میں شامل کرنے
کی فکر کی جائے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اس پر اﷲ رب العزت دنیا وآخرت کی
جملہ خیروں سے نوازیں گے، اس کے حیرت انگیز اثرات ظاہر ہوں گے اور اس کا
نقد انعام انشاء اﷲ حج وعمرہ اور حرمین شریفین کی حاضری کی شکل میں اﷲ رب
العزت ہر فکر کرنے ، محنت کرنے اور خدمت کرنے والے کو ضرور عطا فرمائیں گے
……اس لیے براہِ مہربانی اس کار خیر کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔دیکھنا !قافلے
چھوٹ ہی نہ جائیں ۔ |