سانحے انتظار میں ہیں

زندگی میں کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں جنھیں فراموش کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ ہم لاکھ چاہیں کہ زندگی کے وہ واقعات و حادثات اپنے ذہن سے ہم کھرچ کر پھینک دیں لیکن ساری کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں۔

ہونے والی چیز ہو ہی جاتی ہے لیکن اگر وہ حادثات ہماری بے پرواہی کی وجہ سے ہوں تو میں اسے قسمت کا لکھا نہیں مانتی، بلکہ میرے نزدیک اکثر یہ ہماری شدید بے پرواہی اور غیرذمے داری ہوتی ہے جو حادثات اور سانحات کا سبب بنتی ہے، ایسے میں ہم تقدیر کو قصور وار ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ یہ تو وہ ہی بات ہوئی کہ چوتھی منزل سے چھلانگ لگاکر کوئی یہ سوچے کہ اگر قسمت میں موت لکھی ہوئی تو مرجاؤں گا ورنہ دوسری صورت میں وقت کی بچت ہوگی، سیڑھیاں اترنے کے جھنجٹ میں کون پڑے۔
آگ کے اوپر ہاتھ رکھ دیجیے اگر تکلیف قسمت میں لکھی ہے تو ضرور ملے گی ورنہ آگ کے اوپر ہاتھ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیا انسانی ذہن ان باتوں کو قبول کرتا ہے؟ نہیں ناں․․․․یقیناً ایسا ہی ہے۔
خدا نے انسان کو دوسری مخلوقات سے اس لیے افضل بنایا ہے کیوں کہ انسان عقل و شعور رکھتا ہے۔ وہ اپنے ذہن اور دل سے اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ موت و زندگی تقدیر میں لکھی جاچکی ہے، لیکن قسمت بنانا یا بگاڑنا ہمارے ان ہاتھوں میں قید ہے۔

مثلاً رزق تقدیر میں لکھا جاچکا ہے اب وہ رزق ہم حلال طریقے سے کمائیں یا حرام راستہ اختیار کریں یہ ہم پر منحصر ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے، لیکن تکلیف دہ موت ہونا یا حادثاتی موت ہونا یہ حالات پر منحصر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص جو ٹریفک حادثے میں یوں جاں بحق ہوجاتا ہے کہ اس کے جسم کی باقیات دور دور تک بکھر جاتی ہیں۔ اس وقت اس کی موت لکھی جاچکی تھی اس لیے وہ بچ نہ سکا، لیکن حادثہ ہونا !حالات پر منحصر ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے ساتھ وہ حادثہ نہ ہوتا اور وہ کسی دوسرے شخص سے باتیں کرتے کرتے رب کو پیارا ہوجاتا ہے۔ اذیت ناک موت تقدیر کا حصہ نہیں حالات کا ستم ہے۔
اسی ستم کا شکار وہ بچہ ہوا۔

ایک سال اور دس ماہ کا عبدالباری اپنی جڑواں بہن کے ساتھ اس پروجیکٹ میں داخل ہوا جہاں اس کے نانا کا فلیٹ تھا۔ راستے میں نانا ابو نے اس کے ہاتھ میں کیلے کی تھیلی تھمائی اور دونوں بچوں کو پیار کرکے نانی کے پاس بھیج دیا۔ لیکن نانی کے پاس صرف عبدالباری کی بہن پہنچی، وہ خود کہاں گیا۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ فقط پروجیکٹ کے گیٹ سے لے کر فلیٹ کے دروازے تک کا مختصر راستہ، اور عبدالباری غائب ہوچکا تھا۔ گھر میں صف ماتم بچھ چکی تھی۔ نانا نانی، دادا دادی، ماں باپ، محلے والے، رشتے دار ہر کوئی ننھے عبدالباری کے لیے پریشان تھا اور اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ بظاہر کوئی بے پرواہی نہ ہوئی تھی۔ بچے کو کوئی اٹھا کر لے جائے، اس کا امکان بھی نہ تھا، کیوں کہ پروجیکٹ کے دروازے پر عبدالباری کے نانا موجود تھے۔

پانچ گھنٹے مستقل ڈھونڈنے کے بعد کسی کوپروجیکٹ کے کوریڈور میں بنے پانی کے ٹینک کا خیال آیا، جو ڈھکن سے بے نیاز تھا۔ سوچا گیا کہ کہیں بچہ اس کُھلے ٹینک میں نہ گر گیا ہو۔ کاش یہ خیال اندیشہ ہی رہتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ڈھونڈنے والوں نے ٹینک میں جھانکا تو وہاں عبدالباری کا ننھا مُنا بے جان جسم پانی میں تیر رہا تھا۔

یہ اندوہ ناک واقعہ سنا تو مجھے ایک اور حادثہ یاد آگیا، جو میرے رب کی مہربانی سے اس کے کرم سے سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا تھا، ایسا سانحہ جس کا شکار میں ہوتی۔ یہ حادثہ مجھے ماں ہونے کے احساس سے آشنا کرنے والی میری پہلی بیٹی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس کی تعلیم کے ابتدائی دن تھے۔ ایک روز وہ اور اس کی ایک ہم جماعت اسکول میں کھیلتے کھیلتے آپس میں لڑپڑیں۔ دونوں بچیاں اور ناسمجھ۔ ہم جماعت بچی نے میری بیٹی کو دھکا دیا اور وہ کھلے ہوئے ٹینک میں جاگری۔ کسی کو اس واقعے کا پتا بھی نہ چلتا، اﷲ اس بچی کا بھلا کرے جس نے سزا کے خوف سے بے نیاز ہوکر ٹیچرز کو اس حادثے کے بارے میں بتادیا اور یوں میری بیٹی بچ گئی۔

یہ اور اس جیسے کتنے ہی واقعات ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ایسے میں اخبار میں شایع ہونے والی ایک سانحے کے متاثرین کو معاوضے کی عدم ادائیگی کے متعلق خبر نے اس دردناک المیے کی یاد دل میں تازہ کردی، سانحۂ بلدیہ ٹاؤن․․․․۔ ایک گارمینٹ فیکٹری میں آگ لگنے کا سانحہ، جس میں ڈھائی سو سے زیادہ جانیں بھڑکتی آگ کا ایندھن بن گئی تھیں۔ اس فیکٹری میں کیمیکل تھے، بوائلر تھا، اور جس وقت موت کے شعلے بھڑکے فیکٹری کے دروازے اور کھڑکیاں سب بند تھے۔ فیکٹری میں آگ لگنے کی صورت میں بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ نتیجہ قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلا، جن میں سے کئی افراد اپنے گھر کے واحد کفیل تھے۔

میرے تحریر کردہ تین واقعات تین الگ الگ جگہوں پر پیش آئے، کم سن عبدالباری ایک رہائشی عمارت میں حادثے کا شکار ہوا، میری بیٹی کو ایک اسکول میں حادثہ پیش آیا اور وہ ایک فیکٹری تھی جس میں لگنے والی آگ نے درجنوں زندگیوں کو کوئلہ کردیا۔

ان تمام حادثات اور اس نوعیت کے دیگر واقعات کو اگر ہم ایک عنوان کے تحت لکھنا چاہیں تو وہ ہوگا ’’بے پرواہی‘‘ یا ‘‘غیرذمے داری۔‘‘ کسی گھر، رہائشی عمارت یا اسکول، کا ٹینک کھلا ہے، تو کھلا رہے، کسی کو کیا پروا۔ کوئی اس میں گرتا ہے تو اس کی قسمت۔

فیکٹری میں آگ بھڑکانے کے تمام لوازمات موجود ہیں ۔مگر آگ بجھانے کا سامان موجود نہیں،نہیں تونا ہوا کرے، آگ لگنا مقدر ہے تو لگے گی اور جن کے نصیب میں جلنا ہے وہ جل کر رہیں گے۔

غرض یہ کہ گھر سے اداروں تک ہماری یہی روش ہے کہ ہم حادثوں سے بچنے کی تدبیر نہیں کرتے اور حفاظتی اقدامات کو گویا حماقت سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں قوانین بھی موجود ہیں اور ادارے بھی، مگر ہمارے یہاں قانون اور اداروں کا جو حال ہے سب جانتے ہیں۔ قوانین اور اداروں کی راہ میں تو ان کی اغراض اور مالی مفادات حائل ہوجاتے ہیں، لیکن ہم عام لوگ کس مقصد اور غرض کے تحت بے پرواہی کا مظاہرہ اور حفاظتی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ رہائشی عمارتوں میں بجلی کے ننگے تار اور کھلے ٹینک ہماری اس بے پرواہی کی کہانی سناتے ہیں، اور پھر کوئی حادثہ ہمیں اس کہانی کا ’’بدنصیب کردار‘‘ بنادیتا ہے۔
آئیے! اپنے اردگرد نظر ڈالیں، کہیں کوئی حادثہ کئی سانحہ کسی زندگی کو نگل لینے کا منتظر تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس حادثے سے بچنے کے لیے کچھ کر گزریے۔ اتنا تھوڑا سا انقلاب، اتنی چھوٹی سی تبدیلی تو ہم لاہی سکتے ہیں نا۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311768 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.