نصحیت وہی بندہ مانتا ہے جو ڈرتا ہے۔

 نصحیت وہی بندہ مانتا ہے جو ڈرتا ہے۔
یا
تعلقات دو طرفہ ہوتے ہیں اس لئے کوئی چیز مفت نہیں ملتی
سورہ اعلی ٰ
آیت۔۹ اور نصیحت کیجئے شاید کہ نصیحت اثر کرے
آیت ۔۱۰ نصیحت وہی مانتا ہے جوڈرتا ہے
آیت۔۱۱ مگر وہ نہیں مانتا جو بد بخت ہوتا ہے۔

87--9. Therefore remind (men) in case the reminder profits (them).
87-10. The reminder will be received by him who fears (Allah),
87-11. But it will be avoided by the wretched,

ہیوسٹن امریکہ سے میری بیٹی نے بتایا کہ میری نواسی نے سکول میگزین کے لئے ٹاپک کے لئے مشورہ مانگا تو میری بیٹی نے اسے ایک کیس پر لکھنے کے لئے کہا۔ کیونکہ وہاں کورٹ میں ایک اٹھارہ سالہ بیٹی نے ماں باپ پر کیس کر دیا ہے کہ انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ والدین نے بتایا کہ اس لڑکی کے چال چلن صحیح نہیں اور وہ ان کی کسی بھی نصیحت پر ان کی بات بھی نہیں مانتی اور اپنی مرضی کرنا چاہتی ہے۔

اس پر میں نے بیٹی کو یہ آیت بتائی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک اصول بیان فرما دیا ہے جو کہ ہر رشتے کے لئے اور تعلق کے لئے ہے اور صرف اﷲ اور بندے کے تعلق سے متعلق نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے کلام پاک سے اس دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اور اﷲ کے کلام کو صرف مذہب اور آخرت کے لئے سمجھتے ہیں جبکہ کلام پاک تو کتاب زندگی ہے۔
زندگی کے ہر رشتے کی ،بشمول اﷲ اور بندے کے، سب سے پہلی ڈیمانڈ فرمانبرداری اور حکم ماننے کی ہوتی ہے۔آپ چاہے گھر میں ہوں، مسجد میں یا سکول، کالج ،دفتر، فیکٹری میں ہوں یا سڑک پر ڈرائیو کر رہے ہوں آپ کو کسی نہ کسی قانون، ہدایت،نصیحت پرعمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر نہ کریں تو سزا کے مستحق بنتے ہیں۔اس لئے سزا کا ڈر، یا کسی ایسے شخص ،سے جس سے آپ کو محبت ہو،کی دل آزاری کے ڈر کا احساس ہی غلط کام کرنے سے روک سکتی ہے یا روکتی ہے۔

اس امریکن لڑکی کو اس اصول کی بات کا نہ ہی پتہ ہے اور نہ ہی والدین کی محبت یا عزت ہے اور نہ ہی یہ ڈر ہے کہ والدین ناراض ہونگے یا اس کی غلط عادات یا بات نہ ماننے سے ان کو دکھ ہوگا، ذہنی تکلیف ہو گی۔ اور نہ ہی ان کی سزا کا ڈر۔ یہ حالت تب آ تی ہے جب والدین نے بچپن سے یہ بات بچوں کو نہ سکھائی ہو کہ زندگی میں ہر جگہ مرضی نہیں کر سکتے بلکہ ہر جگہ کے ڈسپلن کی پاسداری کرنی ضروری ہوتی ہے۔ یبھی معاشرے امن اور سکون سے رہ سکتے ہیں۔اگر ہر ایک اپنی مرضی کرنے لگے تو پھر زندگی میں کوئی سسٹم نہیں چل سکتا۔ اور ایسی حالت صرف ذہنی طور پر دور جاہلیت یا dark ages میں داخل ہوتے وقت ہوتی ہے۔

والدین نے اس لڑکی کو غالبا ایک اور اصول کی یہ بات بھی نہیں سکھائی کہ والدین ہمیشہ بچوں کےwell wishers ہوتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کامیاب انسان بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس لئے ہمیشہ ان کی بہتری کا سوچتے ہیں اور صحیح نصیحت کرتے ہیں۔ اس لئے بچوں کو والدین کی بات مان لینی چاہئے چاہے اس کی حکمت عمر کی کمی کی وجہ سے سمجھ نہ پا رہے ہوں۔وقت کے ساتھ اس کی سچائی کا پتہ چل جائے گا۔
والدین نے اس لڑکی کو ایک اور اصول بھی نہیں سکھایا کہ زندگی میں ہر تعلق دو طرفہ ہوتا ہے اور اس لئے کوئی چیز مفت نہیں ملتی۔ ہر ایک تعلق کو قائم رکھنے یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لئے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔چاہے یہ مال ہو یا، پیسے، وقت، جذبات کی شکل میں ہو۔ والدین یا کسی کی محبت کے لئے بھی کسی چیز کی قربانی دینی پرتی ہے۔کامیاب ہونے کے لئے پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ سکول میں بھی ڈسپلن کی تابعداری ضروری ہے ورنہ سکول سے نکال دیں گے۔ اس لڑکی نے تعلیم سے کوئی بھی بات نہیں سیکھی۔

اس لڑکی کو اس کے والدین نے زندگی گزارنے کے اصول نہیں سکھائے تھے اور نہ ہی اس نے خود دوسروں کو دیکھ کر یا سوچ کر سیکھے ۔اس لئے والدین بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں مگر لڑکی زیادہ مجرم ہے کیونکہ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد وہ اپنے تمام اعمال کے لئے خود ذمہ دار بن جاتی ہے اور خدا کے سامنے یا ملکی قوانین کے سامنے والدین کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔اور وہ خود جواب دہ ہوگی۔

اس لئے اگر وہ اپنے والدین کے گھر کے قوانین، اوررولز یا ڈسپلن کی پاسداری نہیں کرتی تو اس کے والدین کا حق بنتاہے کہ وہ اسے گھر سے نکال دیں۔ کورٹ کو یہ بات واضح طور پر بتا دینی چاہئے کہ والدین گھر سے نکالنے کے گناہ گار نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ اگر وہ اصلاح کر لیتی ہے تو کوئی ماں باپ ایسا نہیں ہوتا جو اپنے بچوں کی غلطیوں کو معاف نہ کرے اور انہیں پھر سے گلے نہ لگا لے۔

نصیحت بھی وہی مانتا ہے جسے یہ پتہ ہو کہ نصیحت نہ ماننے کے کیا برے نتائج نکلیں گے اور زندگی میں کیا تکالیف آسکتی ہیں۔جیسے والدین کی بات نہ ماننے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ گلیوں میں خوار ہورہی ہے اور اس خواری کے بعد بھی اس نے سبق نہیں سیکھا کہ گھر جا کر والدین سےsorry کہہ کرمعافی مانگ لے اور آئیندہ کے لئے توبہ کرکے اپنے چلن کو ٹھیک کر لے۔ اس کی بجائے وہ والدین کو سبق سکھانے چل پڑی ہے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس میں سیکھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے یا بچپن میں والدین نے اس کی ہر بات مان کر اسے زیادہ لاڈلا بنا دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کو بچپن سے ان کی ہر بات نہ مان کر ہی یہ سبق سکھلا دیا جائے کہ دنیا میں ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری نہیں کی جاسکتی اور یوں اپنے آپ پرکنٹرول کرنا سکھا دینا چاہئے۔ میری کتاب انسانی فطرت سے مندرجہ ذیل پیرے بہت اہم ہیں۔

"ہر انسان چاہتا ہے’’ یہ انسانی فطرت کا پہلا اورانتہائی اہم اصول ہے۔ اس اصول پر اخلاق اور تجارت کا دارومدار ہے ۔اسی پر شخصیت ، کریکٹر ، اور کامیابی کا انحصار ہے۔ مجرم ، ملزم اور پاگل وہ ہوتے ہیں۔ جن کی خواہش حقیقت سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے۔ کوئی بھی تدریسی سلسلہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ بچوں میں ان خواہشوں کو کنٹرول کرنا نہ سکھا دے۔ کن خواہشوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کون سی خواہشیں غلط ہیں۔ جو خواہش سماجی طور پر نا پسندیدہ ہیں ان کو کیسے قابو میں کیا جائے۔ یہ سب سکھانا ہی استاد کا کام ہے۔ اگر وہ یہ نہیں سکھاتا تو پھر اس استاد کا کیا فائدہ ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنی خواہشوں کو قابو میں کر کے ترقی کرے، اخلاقی طور پر، اور ہماری نئی نسل ہم سے بہتر ہو، اخلاقی طور پر، تو ان کی خواہشوں کو قابو میں کرنا ۔ ان کو اس کا شعور دلانا اور طریقے سکھلانا یہی وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہم سے بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان کو شروع سے ہی یہ سکھلانا ضروری ہے کہ ہر وہ چیز جس کی وہ خواہش کر یں اور چلائیں۔ ضروری نہیں کہ پوری کی جائے یا ہو جائے۔ اس طرح لڑکے اور لڑکیاں دوسروں کی خواہشات کا مطالعہ کریں اور سیکھیں کہ دوسروں کا بھلا کرنے میں ہی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے۔

انسانی فطرت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر کوئی نقل کے ذریعے زیادہ تر چیزیں سیکھتا ہے۔ "زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ ان کو پڑھایا نہیں جاتا بلکہ وہ ایک دوسرے سے چیزیں سیکھتے ہیں۔ اور عام طور پر یہ سارا غلط ہوتا ہے کیونکہ بجائے مکمل اور صحیح طور پر سیکھنے کے وہ ایک دوسرے سے صرف چھوٹے چھوٹے حصے سیکھتے ہیں۔ مثلاً احمد نے محمود سے سیکھا۔ محمود نے اسلم سے اور اسلم نے اشرف سے اور اشرف کو پوری طرح آتا نہ تھا۔ اس طرح ایک ادھوری بات سب تک پہنچ گئی ۔ اور اس طرح بعض اوقات نسلوں کی نسلیں غلط بات کو صحیح مانتی رہتی ہیں۔ اس طرح کی نقل سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ "

آج کل کے بچے زیادہ ٹی وی ڈراموں، فلموں، ناولوں افسانوں سے زیادہ سیکھتے ہیں اور والدین، بڑوں، استادوں، مذہب کی باتوں کو بہت کم وزن دیتے ہیں۔ صدیوں کے انسانی تجربات پر مبنی اخلاق کو غلط سمجھتے ہیں۔کلام پاک بار بار یہ بتاتا ہے کہ جب انہیں صحیح بات بتائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں اور کہانیاں ہیں۔۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں شخصی آزادی کے خیال نے تو اپنی مرضی کرنے سے بتباہی مچا دی ہے۔اس امریکن لڑکی نے بھی دوسرے خراب بچوں سے ہی یہ سیکھا ہے۔ اور غلط باتوں کو صحیح مان کر اور والدین کی بات نہ مان کر ہی مصیبت میں پھنسی ہے۔

یہی حال ان مسلمانوں کا بھی ہوگا جو اﷲ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر نہیں مانیں گے اور دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھا رہے ہیں اور اس امریکن لرکی کی طرح اﷲ تعالی کو سوری کہنے اور اپنی عادتیں ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں۔

اس واقعے سے یہ ہم سب کے لئے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اچھی نصیحت، مشورہ کو مان کر اس پر عمل کر لینے میں ہی کامیابی ہے۔ اور اگر نہ مان کر خود تجربہ کر کے نقصان اٹھانا پڑے تو یہ بھی طریقہ ہے سیکھنے کا مگر ضروری ہے کہ نقصان اٹھا کرفورا اپنی اصلاح کر لے اورجس نصیحت یا بات کو نہ مانا تھا اس پر عمل کرکے اپنی عادت بدل لینی چاہئے۔

Ch Imtiaz Ali
About the Author: Ch Imtiaz Ali Read More Articles by Ch Imtiaz Ali: 37 Articles with 39340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.