پاکستانیوں کی اخلاقیات کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہے۔؟

السلام علیکم!
کل ٹی وی پر 12سالہ لڑکے کو حوالات میں دیکھا جس نے ہمسائیوں کی چار سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کی ہے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ اس واقعہ نے مجھے آپ کو لکھنے پر مجبور کیا ہے اور آپ کو یاددہانی کرانا فرض سمجھتا ہوں کہ صدر پاکستان دراصل 18کروڑ عوام کا مجازی باپ ہوتاہے اور ا س لئے ان کی جان ، مال ، عزت کی حفاظت کے لئے اﷲ کے یہاں آخرت میں جواب دہ بھی ہوگا جیسے حضرت عمرؓ کا قول تو آپ کویاد ہوگا کہ دجلا کے کنارے کتا بھی بھوکا رہا تو عمر جواب دہ ہوگا۔

اس خبر کو پڑھ اور دیکھ کر میں نے سوچا کہ 12سالہ لڑکا انٹرنیٹ سے یا تو اردو کہانیاں پڑھتا ہوگا یا پھر گندی سائٹس یا وڈیوشاپس سے گندی فلمیں لا کر دیکھتا ہوگا۔ صرف تین الفاظ لکھ کر گوگل سے سرچ کی تو پہلے صفحات پر جو کچھ گند آیا وہ بیان سے باہر ہے۔

اس سے قبل چند سال پہلے بھی میں نے سابق وزیر اعظم اور وزراء اعلی کو ایک تفصیلی ریسرچ پیپر بھیجا تھا کہ انٹرنیٹ کیسے ہمارے نسلوں کے اخلاق تباہ کرنے میں مصروف ہے ، فوری طور پر کچھ کریں ۔ مگر اس پر کیا ایکشن لیا گیا مجھے پتہ نہیں مگر کچھ بھی ایکشن نظر نہیں آرہا کیونکہ جب میں نے چیک کرنا چاہا اور چند گندی سائٹس کو کھولنے کی کوشش کی تو صرف چند کو بند پایا۔ زیادہ تر اب بھی کھل سکتی ہیں ۔
جناب صدر ! بطور بزرگ پاکستانی آپ سے درخواست ہے کہ کچھ فوری طور پر کریں۔ اس سلسلے میں میری یہ تجاویز ہیں۔

میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ سعودی عرب ، آسٹریلیا ، چائنا میں ان گندی سائٹس پر پابندی ہے۔ میرا خیال ہے کہ PTCLان تمام ممالک سے مدد لے سکتی ہے کہ وہ اپنے ملک میں گند کو آنے سے کیسے روک رہے ہیں۔

میری یہ بھی تجویز ہے کہ PTCLمیں ایک اخلاقیات کی حفاظت کا سیکشن کھول دیا جائے جس کا کام ہی سائٹس کی مانیٹرنگ کر کے ان کو بند کرنا ہونا چاہیے۔

اگر ہم یوٹیوب بند کرنے لاکھوں ڈالر خرچ کر سکتے ہیں تو ہمیں اپنی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے گندی سائیٹس کو بند کرنے کے لئے تو بہت کچھ کرنا چاہیے بلکہ جتنا بھی خرچ کریں کم ہے ۔

یوٹیوب بھی اور بہت سی سائٹس کھولنے کے لئے 18سال سے زائد ہونے کو شرط رکھتے ہیں۔ مگر ہمیں چاہے اٹھارہ سال سے زائد عمر کا بھی ہو ان کو بھی گندی سائٹس دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ایسے گندے ذہن ہی ہماری عورتوں اور بچیوں کی عزت کے دشمن بن جائیں گے ساتھ ہی اﷲ کے عذاب کو دعوت دینے والے بھی ۔ حضور اکرم ﷺکا فرمان ہے کہ آنکھوں کا زنا فحش دیکھنا بھی ہے اور بری نظر سے دیکھنا بھی ۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ اگر اﷲ تعالی سبحانہ نے مسلمانوں کو عورت دیکھ کر نگاہ نیچے کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر گندی تصویریں یا وڈیو دیکھنے تو زنا کو دیکھنا اور اس سے لطف اندوز ہوناہی بنتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں، بچیوں، عورتوں اور مردوں کو آنکھوں کے زنا سے بچانا ضروری ہے۔کیونکہ یہ دیکھنے سے ان میں زنا کی خواہش پیدا ہوگی۔ اور اس بارہ سالہ لڑکے سے پوچھیں تو اس میں یہ خواہش اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی۔

پاکستان میں بہت سے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنا اپنا کام کوئی نہیں کر رہا بلکہ ہر ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی کر رہا ہے یاکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اگر ہر ایک اپنے فرض کی طرف پوری دلجمعی سے توجہ دے تو ہم سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں جب ائر اتاشی تھا تو ٹی وی پرچاندی گڑھ کے چیف منسٹر سے فارن پالیسی کا سوال پوچھا گیا تو اس نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ بابا یہ دلی والوں سے پوچھو مجھ سے میری سٹیٹ کے بارے پوچھو۔ اسی طرح مذہبی رہنما، سائینس دان،فوجی،صنعت کار، جج، بیوروکریٹ ،سفارت کار، بیرون ملک پاکستانی،سب سیاست میں آنا چا ہتے ہیں۔ سیاست کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس ملک کی خدمت نہیں کرنا چاہتے۔

۱۔ علما کرام، مشائخ عظام کی کانفرنس بلائیں اور ان کو درخواست کریں؛۔

اﷲ تعالی فرماتا ہے۔ کہ سورۃ امائیدہ؛آیت۔ٔ۶۱؛ تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم اور زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔اور حرام کے مال کھاتے ہیں۔بہت بری حرکات ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔آیت؛ ۶۲۔ کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔؟۔یقینا بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے ۔جو وہ تیار کر رہے ہیں۔" تو یہ ان کا بنیادہیفرض بنتا ہے کہ؛۔
کہ وہ اپنے لڑائی جھگڑوں اور سیاست میں حصہ لینے کو چھوڑ دیں، اور اپنے بنیادی کام یعنی لوگوں کے اخلاق کی تعلیم، تربیت پر لگ جائیں۔

ان کے مسلکی اور اعتقادی اختلاف یا مسلکی برتری یا صرف ان کے صحیح ہونے یا نہ ہونے اور دوسروں کے غلط ہونے کا فیصلہ صرف اﷲ کی ذات نے آخرت کے دن کرنا ہے۔ یہاں کسی کو سدھارنے کی ضرورت نہیں، ہر ایک اپنے مسلک پر عمل کرے دوسروں کو اپنے مسلک کی برتری ثابت کرنے یا کافر قرار دینے، یا جہنمی ہونے کی تبلیغ بند کریں۔ ماضی میں ہمارے دشمنوں نے بغداد، سپین، بنگال، میسور کی سلطنتیں اسی اختلاف کو استعمال کر کے ہمارے ہی ہاتھوں کی تباہ کی تھیں۔ اب صرف ایک مسلم ایٹمی قوت کو تباہ کرنے لئے دشمن پھر یہی حربہ استعمال کر رہا ہے۔

اپنے اپنے مسلک کے لوگوں کو عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تعلیم اور تربیت اور منکرات کی عادات اپنانے کے نقصانات سمجھانے پر سارا وقت لگائیں تبھی پاکستان بچ سکے گا۔اخلاقیات میں بھی اجتماعی معاملات والے اخلاقیات یعنی مندرجہ ذیل پر زور دینا بہت ضروری ہیں۔

i ۔ اتحاد و اتفاق کی ضرورت اور اس کی پریکٹس۔قائید اعظم نے بھی اتحاد کے اصول کو پہلے نمبر پر رکھا تھا۔ ہمیں اسی سے پھر
شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
ii۔صداقت۔سچ بولنے سے وعدہ نبھانا، تجارتی دیانت داری۔ معاشرتی امن سکون،انصاف خود بخود پیدا ہو جائیں گے۔
iii ۔امانت اور دیانت۔ ہماری مشہور زمانہ کرپشن اس اصول پر عمل نہ کرنے سے ہے۔
iv ۔مساوات صرف مساوات پریکٹس کرنے سے باقی اسلامی اصول جیسے عالمگیر اخو ت ، احترام آدمیت ، بنیادی انسانی حقوق ،رواداری ، اخلاص،اتحاد، خودبخود پیدا ہوتے جائیں گے-
v۔عدل و انصاف۔ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ نہ ترقی کر سکتا ہے نہ اتفاق پیدا کر سکتا ہے نہ ہی اپنی حفاطت کر سکتا ہے۔چرچل کا قول بڑا مشہور ہے کہ برٹش معاشرہ ااور عدالتیں چونکہ انصاف کر رہے ہیں تو پھر ان کی جیت ہو گی۔ اور یہ سچ بھی ثابت ہوا ہے۔
v ۔تعلیم اور حریت فکر
جیسے دین کے پانچ ستون ہیں اسی طرح ہر مسلمان کے کریکٹر کے چند ستون ہیں جو یہ ہیں۔
1۔ صاد ق 4۔ مساوات پسند 7۔ شجاعت
2۔ امین 5۔ عدالت 8۔ یقین محکم
3۔ انسانیت سے محبت 6۔ علم و تفکر 9۔ حسن پسند۔ حسنہ

ورنہ تاریخ گوا ہ ہے کہ ماضی میں جو قومیں تباہ کی گئی تھیں وہ سب کے سب جنسی جرائم کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ کلام پاک میں بھی اﷲ تعالیٰ وارننگ دیتا ہے کہ شیطان تمہیں بھی لباس سے ننگا نہ کردے جیسے تمہارے باپ کو کیا تھا اور جنت سے نکلوا دیا ۔ مغربی تہذیب تو جنسی لحاظ سے ہر وہ بات کر رہی ہے جس سے اﷲ ناراض ہوتا ہے۔ مگر وہ تو ترقی کر کے، اس کو انجوائے کر کے، اپنے زوال کی طرف رواں دواں ہیں، مگر ہم نے تو ابھی ترقی شروع بھی نہیں کی۔ دنیا پر غلبہ نہیں پایا ، اثرو رسوخ یا طاقت حاصل نہیں کی اور زوال پذیر قوموں کی عادات اختیار کرلی ہیں۔

وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ کو بتائیں کہ ہمارے سیاست دان اوپر دی ہوئی اخلاقیات کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ دنیا میں ان کی یا پاکستانیوں کی دوسروں کی نظر میں کوئی عزت نہیں ہے۔ اگر یہ حضرات اخلاقی مثال بن جائیں تو دنیا میں ان کی عزت بھی ہوگی وقار بھی۔ اس لئے انہیں بھی اپنی اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہئے اور لوگوں کی اخلاقیات بچانے کے لئے فوری اقدامات بھی کرنا چاہئیں۔

انٹرنیٹ سے بھی زیادہ نقصان ہماری ٹی وی چینلز کر رہی ہیں۔ان کے پاس اپنا تو کوئی مواد نہیں ہوتا اس لئے یہ انڈین فلمز اور ٹی وی چینلز کے فحش ترین پروگرام، گانے، فلمیں ہر وقت دکھاتے رہتے ہیں۔اور یوں پیسے کے لالچ اور آپس کے مقابلے کے لئے، پاکستانی قوم کے اخلاق تباہ کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اب تو ٹی وی کی پاکستانی خواتین اینکرز بھی فحاشی پھیلانے کے لئے اپنے ڈریس کو اتارنا شروع ہو گئی ہیں۔پیمرا کیا کر رہا ہے؟۔آنکھیں بند کر کے یہ بھی تباہی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔اور وہ بھی ہمارے ٹیکسوں کی رقم سے بھاری تنخواہیں لے لے کر۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں پولیس عدلیہ کو کہیں کہ کسی جگہ تو غیرت کا ثبوت دیں۔ عورتوں کی عزت کو محفوظ کرنے کے لئے پوری دیانت داری اور قوی مقصد سمجھ کر فوری عمل کریں ورنہ ان کی اپنی اولادوں بھی شکار ہو سکتی ہیں۔
۴۔ PTCLفوری طور پر فلٹر لگا کر زیادہ سے زیادہ گند پورے ملک کے اندر آنا بند کریں یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اسمگلنگ کو روکنا ہوتا ہے یہ اخلاق جرائم کی سمگلنگ ہے جو مغربی تہذیب کر رہی ہے اور ہر ملک میں کر رہی ہے۔ اپنے ساتھ پوری دنیا کو دبونے پر لگ گئی ہے۔
۵۔ اردو سائٹس بنانے، گندہ لٹریچر ڈالنے اور اس کے ذریعے پاکستانیوں میں گند پھیلانے والوں کے خلاف قانون سازی کر کے اسے قابل سزا جرم بنایا جائے جیسے کہ میں نے دو سائٹس کی مثال دی ہے۔ جو لڑکیوں کو جرائم پر اکسا رہے ہیں یا ان سے جسم فروشی کروا رہے ہیں۔
۶۔ انٹرنیٹ کیفے اور وڈیو شاپس پر بھی قانون سازی کی جائے کہ یہ گند ا مواد نہیں رکھیں گے اور کرائے پر دے سکیں گے۔ انٹر نیٹ کیفے کا ایسا اوپن ڈیزائین ایسا ہو کہ اس پر گند دیکھا نہ جا سکے یا پھر فلٹر لگوا دیں پولیس سول کپڑوں میں جا کر اس کو یقینی بنائے اور موقع پر پکڑے۔

جناب صدر۔ یہ صرف چند تجاویز ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اور بہت سی حفاظتی تدابیر خود بھی تجویزیا اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اخلاقیات کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں اور وزیراعظم کو باقی کام کرنے دیں تو ہم بہت جلد بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اخلاق کے بغیر دنیاوی ترقی کا سوچنا دراصل جہالت اور بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

محترم صدر پاکستان۔ کیا ایک بزرگ پاکستانی جس نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ اس کی یہ استدعاء قابل سماعت ہے۔؟

ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالی آپ کااس کام میں حامی اور ناصر ہو۔آمین

Ch Imtiaz Ali
About the Author: Ch Imtiaz Ali Read More Articles by Ch Imtiaz Ali: 37 Articles with 39348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.