آرایس ایس کی سیاسی شاخ بی جے پی
نے مسلمانوں کے نز دیک گھیرا تنگ کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے لئے ’’لوجہاد‘‘
کی اور نئی اصطلاح قائم کرلی ہے ۔ انگریزی میں یہ لفظ "Love Jihad"ہے ۔اطلاع
کے مطابق بی جے پی اسے اپنی متھرا میں منعقد ہونے والی میٹنگ کے ایجنڈ ے
میں شامل کرنے والی تھی لیکن شدیدہنگامہ کے بعد اس نے فی الحال اسے موقوف
کردیا ہے ۔یہ لوجہاد کیا ہے ۔پہلے ہم اس کی تفصیل پیش کئے دیتے ہیں۔بی جی
پی کی اصطلاح میں لوجہاد نام ہے مسلم لڑکے کا غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا ۔یہ
اصطلاح اتر پردیش میں پیش آنے والے ایک واقعہ کے پس منظر میں گڑھی گئی ہے ۔میرٹھ
واقعہ کی سچائی یہ ہے کہ ہندو لڑکی نے ازخود اسلام قبول کیا تھا اور ایک
مسلم سے شادی بھی اس نے کی ۔یہی اس واقعہ کی سچائی ہے لیکن بھاجپا نے اسے
غلط رخ دیے کر پہلے وہاں فساد کیا اور اب مسلمانوں کے خلا ف ایک اصطلاح
قائم کرکے یہ سازش شرو ع کی ۔یہ اصطلاح سب سے پہلے 2006 میں کیرالہ میں بی
جے پی والوں نے شروع کیا تھا لیکن ان دنوں اسے فروغ نہیں مل سکا ۔نہ ہی
کوئی فرضی واقعہ گڑھنے میں وہ کامیاب ہوئے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا یہ فتنہ
کامیاب ہوئے بغیر ہی ناکام و نامراد ہوگیا۔
بین المذاہب شادی کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے ۔خود اسلام میں بھی اہل کتاب
کی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے ۔انگریزی میں بین المذاہب شادی کو
Interfaith Marraige‘‘ یا ’’ Mixed Marraige‘‘ کہا جاتا ہے۔ بین المذہب
شادی کا وقوع عموما محبت کی شادی میں ہوتا ہے ۔بین المذاہب شادی کو لیکر
ہمیشہ ہنگامہ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتاہی
جارہا ہے ۔بین المذاہب شادی کا رواج سب سے زیادہ امریکہ میں پایا جاتا ہے
جہاں چالیس فی صد بین المذاہب شادی ہے ۔پاکستان میں بھی غیر مذہب کی لڑکیوں
سے شادی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے ۔حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک
ہفتہ سے مسلسل احتجاج کررہے اور نیا پاکستان بنانے کا دعوی کرنے والے عمران
خان کی بیوی یہودی تھی جس سے اب ان کی جدائیگی ہوچکی ہے تاہم ان کے بچے اب
بھی ان کی یہودی بیوی کی ہی گود میں پروش پارہے ہیں۔ پوری دنیا سمیت
ہندوستان میں بھی بین المذاہب شادی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے ۔بالی
وڈ کے اداکارو ں سے لے کر سیاسی لوگَوں تک کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی شادی
دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے ہے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ اس فہر ست
میں وہ لوگ شامل ہیں جو اسلام کے شدید مخالف مانے جاتے ہیں۔
چناں چہ بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین نے رینو سے شادی کی، جو
ابھی تک ہندو ہے۔ سکندر بخت جن کے پاس اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں کئی
وزارت تھی، نے بھی ایک ہندو لڑکی سے شادی کی جس کا نام راج شرما ہے، موصوفہ
ابھی تک ہندو ہے۔ مختار عباس نقوی نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی ہے جس کا
نام سیما ہے۔ بی جے پی کے سابق وزیر مرلی منوہر جوشی نے اپنی بیٹی کی شادی
ایک مسلم نوجوان سے کی ہے۔ وشوہندپریشد کے شعلہ بیان و مسلم مخالف لیڈر
اشوک سنگھل نے اپنی بیٹی کی شادی ایک مسلمان لڑکے سے کی ہے۔ اڈوانی جی کی
بھتیجی نے ایک مسلم لڑکے سے شادی کی ہے اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ شادی کی
ان تمام تقاریب میں اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن اڈوانی بنفس نفیس شریک
رہے ہیں۔ بال ٹھاکرے کی پوتی نیہا ٹھاکرے کی شادی حال چند سال قبل ایک مسلم
لڑکے سے ہوئی ہے۔ سبرا منیم سوامی کی بیٹی سہانی سوامی نے ایک مسلم لڑکے
ندیم حیدر سے شادی کی ہے۔ سابق وزیرخارجہ سلمان خورشیدکی بیوی لوئس خورشید
عیسائی ہے ۔ہندوستان کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی بیوی موجودہ
کانگریس صدر سونیا گاندھی بھی عیسائی ہے ۔ فلمی دنیا کے سپر اسٹار شاہ رخ
خان کی شادی گوری خان سے ہے، عامر خان کی پہلے رینا دتہ اور پھر کرن راؤ سے
ہے، ارباز خان کی ملیکہ اروڑہ سے ہے ،سلمان خان کاباپ سلیم خان ہیلن سے ہے
اور سیف علی خان کی شادی کرینہ کپور سے ہوئی۔ مذکورہ تمام ہندو لڑکیاں آج
بھی ہندو ہیں اور بخوشی اپنے شوہر کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہیں۔
اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جنہیں اپنی پسند کی شادی
کرنے کے لئے مذہب تبدیل کرنا پڑا ہے لگے ہاتھ اس کی بھی ایک مختصر فہرست
دیکھ لیجئے ۔ دلنواز شیخ کو سنجے دت سے شادی کرنے کے لئے ہندو بننا پڑا، ان
کا موجودہ نام مانییتا دت ہے۔ فاطمہ رشید کو سنیل دت سے شادی کرنے سے پہلے
ہندوبننا پڑا، اس کا ہندونام نرگس دت تھا۔ بختیار مراد کو ہندی فلم
ڈائریکٹر راجیو رائے سے شادی کرنے کے لئے سونم بننا پڑا۔ نیر مرزا جو آزاد
ہندوستان کی پہلی مسلم مس انڈیا فائنلسٹ تھی کو شادی کرنے کے لئے نالنی
پٹیل بننا پڑا۔ مشہور اداکارہ نفیسہ علی کو آر ایس سوندھی سے شادی کرنے کے
لئے ہندو بننا پڑا۔ تمل اداکارہ خوشبو سندر کو شادی کرنے سے پہلے ہندو بننا
پڑا۔ عائشہ کو ممبئی کے لیڈر ارون گاؤلی سے شادی کرنے کے لئے آشا بننا پڑا۔
روشن آرا خان کو کون نہیں جانتا، موصوفہ موسیقی کا مشہور گھرانہ ’’مہر‘‘ کی
بانی ہیں کو شادی کرنے کے لئے اناپورنا دیوی بننا پڑا۔ موصوفہ بعد طلاق بھی
ہندو ہی رہی۔ بی جے پی کی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اور سابقہ اداکارہ
اسمرتی ملہوترا ( اسمرتی ایرانی) پہلے ہندو تھی لیکن جب زبین ایرانی سے
شادی ہوئی جو ایک ’’آتش پرست‘‘ ہے تووہ خود بھی آتش پرست بن گئیں۔ اب ان کے
پروفائل میں مذہب کے کالم میں ’’آتش پرست‘‘ لکھا ہے نہ کہ ہندو ۔ اس باب
میں سب سے عجیب و غریب واقعہ ہیمالہ مالن کا ہے جنہیں اپنی محبت کو برقرار
رکھنے اورمن پسند شادی کرنے کے لئے مذہب تبدیل کرناپڑا تھاکیوں کہ دھرمیندر
سے انہیں محبت تھی ۔لیکن وہ اس سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیوں کہ دھرمیندر
پہلے سے شادی شدہ تھے اور ہندو مذہب کے مطابق دوسری شادی نہیں کر سکتے تھے
تب ہیما اور دھرمیندر نے اسلام مذہب قبول کرکے شادی کی۔
بین المذہب شادی کے اس بڑھتے ہوئے سلسلہ کو دیکھ کر اسے انسانی ضروریات میں
شامل کرلیا گیا ہے ’’عالمی اعلامیہ برائے حقوق انسانی‘‘اپنے موضوع میں اسے
شامل کرکے ۔ آرٹیکل 16میں وضاحت کے یہ ذکر کردیا ہے کہ مرد و عورت جو اپنے
ملک میں رائج قانون کی رو سے بلوغت کو پہنچ گئے ہوں بلا تفریق رنگ و نسل،
مذہب و شہریت کے اپنی پسند سے شادی کرسکتے ہیں۔‘‘
بین المذاہب شادی کو دنیا میں بے پناہ فروغ مل رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ
اس طرح کی شادی مذہب اسلام میں پسندید نہیں ہے ۔یہ اسلام کے روح کے خلاف ہے
۔آرایس ایس اور بی جے پی نے لوجہاد کی یہ اصطلاح قائم کی ہے مسلمانوں کو
خلاف ایک سازش کا آغاز کرنے کے لئے ،انہیں پریشان کرنے کے لئے لیکن میراخیا
ل یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے حق میں ایک غیبی معاونت ہے ۔کیوں کہ قرآن میں
غیر مسلم خواتین سے شادی کو ممنوع قرار دیا گیااہل کتاب کی خواتین سے شادی
کی اجازت ضرور ہے لیکن وہ بھی پسندید ہ نہیں ہے۔بی جے پی کی اس مسلم مخالف
سازش کے بعد توقع ہے کہ مسلمان غیر مسلموں سے شادی کرنے سے اجتناب کریں
گے۔اس حرام امر کے ارتکاب اجتناب کریں گے۔بی جے پی کی اس تحریک میں پس پردہ
اسلامی تعلیمات کا فروغ ہے ،احیاء شریعت ہے مسلم نوجوانوں کو اسلامی تعلیما
ت پر عمل پیرا ہونے کا درس اور پیغام دیا گیا ہے۔ایسے ہی موقع کی ترجمانی
کسی شاعر نے کی ہے کہ
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے |