ایک زمانہ تھا کہ تیسری دنیا میں
ممالک میں الیکٹرانک میڈیا حکومت کی ملکیت ہوتا تھا اور اخبارات کو بھی
سرکاری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا، پھر نجی ٹی وی چینلز کا سلسلہ شروع
ہوا، مگر یہ چینلز بھی مجبوریوں، دباؤ اور ذاتی پسند ناپسند کے رجحان کے
باعث اپنے ناظرین کو پورا سچ دکھانے میں ناکام رہے۔
یہاں تک کے مغرب کے ترقی یافتہ اور آزاد ترین معاشروں کے ذرایع ابلاغ پر
بھی یہ الزام ہے کہ ان کی خبریں اور تجزیے بڑی حد تک مخصوص لابیز اور اپنے
اپنے ملک کی اسٹبلیشمینٹ کے مفادات اور احکامات کے تابع ہوتے ہیں، اور جہاں
تک ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے تو ان میں سے تو بہت سے ملکوں کے الیکٹرانک
اور پرنٹ میڈیا اب تک پابندیوں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس صورت حال میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ایک ایسے میڈیا کے طور پر سامنے آئی
ہیں جس کے ذریعے عام آدمی براہ راست واقعات اور خبریں دنیا تک پہنچا رہا
ہے، یہی وجہ ہے کہ حقائق چھپانے کے لیے کوشاں حکومتیں سوشل میڈیا اور اس کے
یوزرز سے خائف اور ناراض رہتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی اثر انگیزی اور طاقت کیا ہے، اس کا اندازہ افغانستان میں حال
ہی میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر بھی ہوا۔ جن انتخابات کو افغانستان
کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کے ہم نوا شفاف، منصفانہ اور غیرجانب دارانہ قرار
دینے پر تلے ہوئے ہیں، سوشل ویب سائٹس پر ان انتخابات کے حوالے سے سامنے
آنے والی پوسٹس بتاتی ہیں کہ ان میں کس پیمانے پر اور کس کس طرح کی
دھاندلیاں کی گئی ہیں۔
کئی عشروں سے جنگ اور بدامنی کے عذاب سہتا اور پس ماندگی کی مثال سمجھے
جانے والے افغانستان کے یوزرز سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں الیکشن میں
ہونے والی مختلف نوعیت کی دھاندلیوں کے ثبوت وڈیوز اور تصاویر کی صورت میں
سامنے لائے ہیں اور انھوں نے افغان حکام سے اس سلسلے میں نوٹس لینے کا
مطالبہ کیا ہے۔ اسمارٹ فونز سے ملک کے مختلف پولنگ اسٹیشنز پر بنائی جانے
والی افغان یوزرز کی یہ وڈیوز اور تصاویر جعلی ووٹ بھگتانے، رائے دہندگان
کو پولنگ بوتھ سے باہر ہراساں کرکے ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور
کرنے اور گلیوں میں بکھرے بیلٹ پیپرز کے مناظر پر مشتمل ہیں۔
سوشل میڈیا پر آنے والی ان وڈیوز نے افغانستان کے حالیہ انتخابات پر
سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ افغانستان کے ’’الیکشن کمپلینٹس کمیشن‘‘ کے ترجمان
نادر محسنی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر آنے والی ان وڈیوز کے حوالے سے کہتے
ہیں کہ سوشل ویب سائٹس پر آنے والی زیادہ تر وڈیوز ان جگہوں یا علاقوں کی
ہے جہاں حکومت کی رسائی نہیں تھی۔
افغان یوزرز کی جانب سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر آنے والی وڈیوز میں سے
ایک میں تین نوجوان اور ایک کم عمر لڑکا بہت تیزی کے ساتھ اور مضطربانہ
انداز میں ایک کے بعد ایک بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگاتے نظر آرہا ہے۔ ان میں
سے زیادہ تر ٹھپے صدارتی امیدوار اشرف غنی احمد زئی کی حمایت میں لگائے
جارہے ہیں، تاہم کچھ ٹھپے افغانستان کی صدارت کے دوسرے امیدوار عبداﷲ عبداﷲ
کے لیے بھی لگائے جارہے ہیں۔ یہ وڈیو فیس بک پر تیرہ سو مرتبہ سے زیادہ
شیئر کی گئی ہے۔
افغانستان کے انتخابات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر آنے والے ایک اور وڈیو
کلپ میں، جو بہت بڑے پیمانے پر شیئر کی ہے، میں ایک عورت انتخابی قواعد
وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسری عورت سے کہہ رہی ہے کہ وہ ایک مخصوص
امیدوار کے حق میں ووٹ دے، جب کہ جس خاتون سے مخصوص امیدوار ووٹ دینے کو
کہا جارہا ہے وہ برہمی کے ساتھ جواب دے رہی ہے،’’قانون مت توڑو، مجھے یہ مت
بتاؤ کہ میں کیا کروں، یہ میرے لوگ ہیں۔‘‘
افغانستان جیسے پس ماندہ اور جنگ زدہ ملک میں یوزرز کی جانب سے اسمارٹ فونز
اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابات کی دھاندلیاں اور بے قاعدگیاں سامنے لانے
کا عمل اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا باہمی ربط
کس طرح ان حقائق کو آشکار کرسکتا ہے اور کر رہا ہے جو کسی اور ذریعے سے
سامنے آنا ممکن نہیں، یوں جن مقامات تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی رسائی
ممکن نہیں، سوشل میڈیا وہاں بھی موثر انداز میں کام کر رہا ہے۔ |