وہ پانچ مہمات

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو مختلف حوالوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان سائٹس کے منفی پہلو اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماجی ویب سائٹس کا جہاں، جسے ہم سوشل میڈیا کے نام سے جانتے ہیں، بہت سے مثبت پہلو بھی رکھتا ہے، جس کا ایک ثبوت سوشل میڈیا پر شروع کی جانے والی مختلف تحریکیں اور مہمات ہیں۔ اس مضمون میں ہم سوشل میڈیا پر شروع کی جانے والی ایسی پانچ مہمات کا تذکرہ کررہے ہیں جو کسی مثبت اور انسان دوست مقصد کے تحت چلائی گئیں، انھوں نے زبردست پذیرائی حاصل کی یا وہ کسی منفرد اور بہت اچھے مقصد کے لیے چلائی جارہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی ایسی مہموں اور تحریکوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اور آپ بھی کسی بلند مقصد کے لیے سوشل میڈیا کی طاقت کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔
Movember
مونچھوں والی تحریک
یہ مردوں کی صحت کے معاملات سے آگاہی پھیلانے کے لیے چلائی جانے والی ایک سوشل میڈیا مہم تھی۔ اس مہم کی شروعات 2003میں ہوئی۔ اس دل چسپ مہم کا مقصد مردوں اپنی صحت بہتر بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے مونچھیں رکھنے پر آمادہ کرنا تھا۔ اس مہم کا نام ’’moustache‘‘ (مونچھ) اور نومبر کو ملاکر بنایا گیا تھا۔ اس مہم کے تحت ایک کمیونٹی وجود میں آگئی تھی، جس کے ارکان آپس میں پُرمزاح اور شگفتہ پوسٹس شیئر کرتے تھے۔

اس مہم کی کام یابی اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے مردوں کے صحت کے ضمن میں اب تک 63.9 ملین یورو کی خطیر رقم پر مبنی فنڈ جمع کیا جاچکا ہے۔ گذشتہ سال یعنی 2013 میں اس مہم کے فیس بک پیج تک رسائی اور ٹوئٹر پر اس کے ری ٹوئٹس کی تعداد میں پینتالیس فی صد اضافہ ہوا۔ اس مہم کے شروع ہوتے ہی پہلے دن اس کے پیج پر 35,000 پوسٹس کی گئیں اور گذشتہ سال اس مہم کے سلسلے میں پوسٹ کی گئی تحریروں اور تصاویر کی تعداد ایک اعشاریہ دو ملین تک جا پہنچی تھی۔

اگرچہ ’’مومبر‘‘ مردوں کی صحت کے معاملات اور انھیں لاحق ہونے والی سرطان کی دیگر اقسام کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں بھی سرگرم ہے، تاہم اس مہم کی توجہ کا مرکز Prostate کینسر ہے اور اس مہم کے ذریعے Prostate کینسر کے علاج کے سلسلے میں فنڈ جمع کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اس مرض سے بچنے کے لیے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ مہم مومبر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام چلائی جارہی ہے، جو Movember.com کے پلیٹ فارم پر چیریٹی ایونٹ منعقد کرتی ہے۔ اس مہم کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے،’’مردوں کی صحت کا چہرہ بدل دو‘‘ اور مونچھیں رکھنے کا عمل صحت کے چہرے کی اسی تبدیلی کا اظہار یا علامت ہے۔

اس مہم کے تحت ہر سال دنیا بھر سے اکیس International Man of Movember منتخب کیے جاتے ہیں۔ ان منتخب کردہ افراد کو تاج پہنائے جاتے ہیں اور یہ پورے سال کے لیے مومبر مہم کا چہرہ قرار پاتے ہیں۔ 2011 میں گوگل کروم اور مومبر مہم کے اشتراک سے ایک وڈیو بنائی گئی، جو یہ دکھاتی ہے کہ مومبر مہم کے ارکان Movember.com کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنے مقصد یعنی مردوں کی صحت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مومبر مہم مختلف اداروں اور کمپنیوں کے اشتراک سے اپنے مقصد کو آگے بڑھنا کے لیے سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔
Action on Hearing Loss
سماعت سے محروم افراد کے لیے
یہ مہم برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ان 9 ملین افراد کے لیے شروع کی گئی جو پیدائشی طور پر بہرے ہیں یا کسی حادثے یا بیماری کے باعث سماعت سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ بہت سادہ مگر بڑی پُراثر سوشل میڈیا مہم ہے۔ اس مہم سے وابستہ ارکان نے گذشتہ برس کرسمس کے حوالے سے بنائے جانے والے ٹی وی کے اشتہارات کے ساتھ ’’سب ٹائٹلز‘‘ کا سلسلہ محض ٹوئٹر پر ٹوئٹس کے ذریعے شروع کروادیا تھا۔

Action on Hearing Loss کے تحت برطانیہ میں سماعت سے محروم افراد کے ضمن میں قوانین اور پالیسیاں تبدیل کرنے کی مہم جاری ہے۔ ’’ایکشن آن ہیئرنگ لوس‘‘ کے تحت free, confidential online hearing check کا آن لائن سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے، جہاں یوزرز اپنی سماعت کی آزمائش کرسکتے اور اس حوالے سے چیک اپ کرواسکتے ہیں۔
nomakeupselfie
اے بی بیو! میک اپ نہ کرو
اس مہم کا آغاز خواتین کی میک کے بغیر اپنی تصاویر مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر پوسٹ کرنے سے ہوا۔ یہ مہم میک اپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کرنے اور خواتین کو میک اپ سے گریز پر مائل کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔

اس مہم کے تحت خواتین سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی بغیر بناؤسنگھار کی تصویریں پوسٹ کرنے، جو کسی خاتون کے لیے یقیناً بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس مہم کے تحت اس کے شروع ہوتے ہی صرف ایک ہفتے کے دوران اب تک آٹھ ملین یورو بہ طور فنڈ جمع کرلیے گئے۔
UNICEF- Likes Don’t Save Lives
لائیکس کافی نہیں
بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی سویڈن کی شاخ نے بیتے سال ایک مہم چلائی، جس کا مقصد سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے یوزرز کو یہ باور کرانا تھا کہ بچوں کی صحت بچانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ بس فیس بُک پر موجود یونیسیف کے پیج کو لائیک کردیا جائے۔ اس حوالے سے چار وڈیوز بناکر یوٹیوب پر لائی گئیں، جن میں سے ایک وڈیو میں ایک بچہ طنزیہ طور پر کہہ رہا ہے کہ وہ (اپنی زندگی کے حوالے سے پُرامید ہے کیوں کہ فیس بک کے یونیسیف کے پیج کو ملنے والے لائیکس کی رقم آچکی ہے۔ ان وڈیوز میں سے ہر ایک کا اختتام اس پیغام پر ہوتا ہے کہ لائیکس ویکسینیشن کے لیے فنڈ کی صورت اختیار نہیں کرسکتے۔ اس مہم کے دوران ان وڈیوز کو 195 ملکوں میں 750, 000 مرتبہ دیکھا گیا اور ان کے حوالے سے ٹوئٹر پر 10,500 ٹوئٹس کیے گئے۔

Rethink- #FindMike
محسن کی تلاش
اس مہم کا آغاز ذہنی عارضے شیزوفرینیا کے خطرناک حالت کو پہنچے ہوئے ایک Jonny Benjamin نے کیا تھا۔ Jonny Benjamin کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ وہ ایک پل سے کود کر جان دینے والا تھا، مگر اسے بچالیا گیا۔ جونی نے یہ مہم اس شخص کی تلاش کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر پر شروع کی تھی جس نے اس کی جان بچائی اور اس کی زندگی بدل ڈالی۔ جونی کو اپنے محسن کا نام تک معلوم نہ تھا، تاہم اس نے اسے مائیک کا نام دے کر یہ مہم شروع کردی تھی۔

چھے سال پہلے شروع ہونے والی اس مہم کے دوران دیگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اس مہم کے فیس بک پیج کو 5,000 لائیکس ملے اور اس کے ٹوئٹر پر بنائے گئے اکاؤنٹ کو2,600 فالوورز مل گئے۔ ساتھ ہی اس ایشو پر ٹوئٹر پر ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

کئی ملین افراد نے جونی کی کہانی سوشل ویب سائٹس پر شیئر کی۔ آخر کار Neil Laybourn نامی وہ محسن مل ہی گیا جس کی جونی کو تلاش تھی۔ نیل نے جونی سے رابطہ کیا، ان کی ملاقات ہوئی، یوں جونی کی بھرپور طریقے سے شروع کی جانے والی محسن کی تلاش کی یہ مہم سوشل میڈیا کے لاتعداد یوزرز کی مدد سے کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 312383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.