دفاع پاکستان ماضی اور حال کے آئینے میں

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل ہونے والی ایک ایسی ریاست ہے جسے 14 اگست 1947 ،رمضان کے مقدس مہینے میں آزادی نصیب ہوئی قائدین تحریک پاکستان نے اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم کیا تاکہ مسلمان اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں کزار سکیں ابتدائی ایام میں پاکستان نے اپنی منزل کی طرف جانے کے لئے بڑی تیزی سے سفر کیا ملک مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا یہ ترقی ہمارے دشمن بھارت کو برداشت نہ تھی اس نے مملکت خدداد کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا لہذا قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ہم پر حملہ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا6ستمبر کا دن ہماری قوم کیلئے عزم نو کا آئینہ دار ہے6 ستمبر1965ہماری عسکری تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے اس تاریخی دن کے ساتھ انمٹ یادیں نقوش وابستہ ہیں جنہیں گرد زمانہ دھندلا نہ کر سکے گی 6ستمبر1965کو بھارت نے اس بھول سے دس گناہ زیادہ فوج، جدید اسلحہ سے لیس ہوکر بڑے غرور کے ساتھ پاکستان پر حملہ کر دیا کہ شائد پاکستان کی افواج اور قوم سو رہی ہے وطن کی محبت سے سرشار پاک فوج نے قلیل وقت میں دشمن کو اسکی حقیقت سے آگاہ کودیا یہ وہ عظیم دن ہے جس دن افواج پاکستان کے ساتھ قوم کے نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے نوجوان کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کے ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹ گئے اور دشمن کے ٹینکوں کو ہوا میں اڑا کے رکھ دیا اور دشمن کی پیش قدمی کو روک دیاسیالکوٹ چونڈہ ، لاہور واہگہ باڈر،برکی،قصور،کھیم کرناور سلیمانکی سمیت سات مقامات سے بھارت نے حملہ کیا ،کشمیر،جونا گڑھ،ماناوادر،منگرال پر قبضہ کرنے والے بھارت کی خام خیالی تھی کہ 6ستمبرکی دوپہر لاہور فتح کرلے گا مگر اسے شرمناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا،چونڈہ اور واہگہ کے محاذ وں پرغیور اہل پاکستان و زندہ دلان لاہور نے وہ قربانیاں دیں جسے پاکستان کی تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی تاریخ شاہد ہے کہ سترہ دن جا ری رہنے والی اس ا عصاب شکن جنگ میں نوجوانوں نے لائنوں میں لگ کر اپنا نام بم باندھ دشمن کے ٹینک کے نیچے لیٹ جانے والے سرفروشوں کی فہرست میں لکھوایا، پاک فوج نے دشمن سے نہ صرف اپنا علاقے واپس چھینے بلکہ اس کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگئی اسطرح دشمن کولینے کی بجائے دینے پڑھ گئے ،اعیاردشمن نے جب اپنی شکست دیکھی تو اپنے آپ کو بچانے کے لئے اقوام متحدہ کے در پر صلح کے لئے حاضر ہوگیا اس طرح اس تایخی دن پر پاکستانی افواج اور عوام نے ملک و ملت کی حفاظت کی۔مسلمانوں کے بم باندھ کر دشمن کے ٹینک کے نیچے لیٹ جانے والے جذبے اور ملی وحدت کو بھارت سمیت سب دشمنوں نے بہت محسوس کیا اور اسے ختم کرنے کے لئے اپنے خفیہ ہتھکنڈوں کا منظم سلسلہ شروع کیاقوم کے نوجوانوں کے اندر سے غیرت ملی نکالنے کے لئے ان کے اندر سے حیاء جیسے گوہر نایاب سے تہی دامن کرنے کے لئے فحش ڈراموں،فلموں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اس کے دو نقصانات ہوئے ایک یہ کہ حیاء کم ہوتی گئی دوسراقیمتی وقت بہت زیادہ ضائع ہوا،ابھی بھی یہ نقصان ہورہا ہے پاکستان کی گھریلو عورتیں ان کے ڈراموں کی اس قدر اسیر ہوگئی ہیں کہ کھانا پکانا تک بھول جاتی ہیں اس کی وجہ سے کئی شوہروں نے اپنی بیویوں کو غصے میں آکر طلاقیں دے دی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں انڈین ڈراموں اور فلموں کو سحر ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا ان ڈراموں اور فلموں میں ہندو مذہب کی تبلیغ بہت زیادہ ہوتی ہے جس نے ہماری نئی نسل کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے آج کی نسل جذبہ جہاد سے بیزار صرف انہی ڈراموں فلموں کی وجہ سے ہوئی ،ڈراموں فلموں نے اسلامی تہذیب وتمدن پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اس کے بعد دوسری چیز جو بطور ہتھیار استعمال کی گئی وہ پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا تھا جس میں انھیں ڈحاکہ کی جگہ بنگلہ دیش بنا کر کامیابی ملی مزید ملک کے اندر بریلوی،دیوبندی ،اہلحدیث تینوں مسلمان فرقوں میں نفرت کا بیج بونا تھا آج ہمارے مذہبی لیڈران اسلام کی بجائے اپنے مسلک کو ہی سچا،حقیقی اسلام قرار دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں یہ مذہبی لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں مذہبی فرقہ واریت گلی محلوں،گھروں تک سرائیت کر چکی ہے،سیاسی تقسیم نے بھی بڑا کام دکھایا ہے جسکی وجہ سے قومی وحدت کو نقصان پہنچا ہے،ملک پاکستان کے اندر بھارت کی طرف سے حملوں ،جنگجو گروپوں کی مالی واسلحہ سے معاونت نے بھی شدید نقصان پہنچایا ،اس کے علاوہ سنگین حملہ و واردات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہی مسلمان کو مار رہے ہیں اور دشمن ہمیں استعمال کر رہا ہے مندرجہ بالا سازشوں ،حملوں کے اثرات آج پاکستان میں بہت زیادہ محسوس کئے جارہے ہیں انڈین اور دیگر فحش مواد پر پابندی لگانے کے مطالبے کئے جارہے ہیں مگر حکومت پاکستان اس پر کان تک نہیں دھر رہی۔

قارئین کرام!ایک بہت بڑی غلطی جو ہمارے ارباب اقتدار سے ہمیشہ ہوئی وہ یہ کہ ہم نے صرف زمینی سرحدوں کی حفاظت کو ہی ضروری خیال کیا اس پر ہی ہمیشہ بہت زیادہ زور دیا بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ اسی زمینی یا سرحدی دفاع پر خرچ ہوتا ہے مگر نظریاتی تحفظ کے لئے ہمارے ملک میں کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے نظریاتی دفاع سے مرادنظریہ پاکستان، اسلامی نظریہ حیات ،اسلامی نظام کے قیام کی طرف مسنون طریقے سے پیش رفت ہے ہمارے حکمرانوں میں ہمیشہ اس کا فقدان رہا شائد یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے بغیر ملک ترقی کر جائے گا مگر ایسا ناممکن ہے ملک میں اسلام کی صورتحال بہت زیادہ قابل رحم ہے جو اسلامی قوانین بنائے گئے ان پر عمل نہیں ہورہا ،انگریز کے قوانین کا دور دورہ ہے اگر قرآن و سنت،اسلامی قوانین کے علاوہ انگریز کے قوانین ہی چلانے تھے تو پاکستان بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک رپورٹ کے مطابق نوے ہزار سے زائداسلامی قانون سازی کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ردی کے ٹوکریوں میں پڑی قانون پاکستان بننے کی منتظر ہیں ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا گیا اس لئے کہ جمہوریت میں تو اسلامی قوانین کی گنجائش ہی نہیں ۔۔۔ہاں جو قوانین عوام کے شدید دباؤ پر بنائے گئے ان پر بھی عمل نہیں کیا جارہا جیسا کہ توہین رسالت ایکٹ جسے ہزاروں ،لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دینے کے بعد 7ستمبر1974کوپاس کروایااور اسی دن کو دنیا بھر کے مسلمان تحفظ یو م ختم نبوت ﷺ کے نام سے ہر سال مناتے ہیں اور اسلام سے انحراف کرجانے والے قادیانیوں کو دعوت اسلام دیتے ہیں مسلۂ ختم نبوت کی اہمیت آپ کے علم میں اضافے اور اپنے لئے ذخیرہ آخرت کی نیت سے مختصرا رقم کر دیتے ہیں کہ یہ مسلۂ ایک سو قرآنی آیات،تقریبا بارہ سو احادیث سے ثابت ہے ختم نبوت کے تقدس کے لئے ایک ہزار دو سو صحابہ کرامؓ نے مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ لڑ کر جام شہادت نوش کیاان شہدا میں سات سو حافظ قرآن اور ستر بدری صحابہ کرام ؓتھے 1953کی ختم نبوت کی تحریک میں دس ہزار نوجاونوں نے جام شہادت نوش کیا29مئی1974کو ملتان نشتر کالج کے طلباء پر ربوہ اسٹیشن پر قادیانیوں نے حملہ کیا تو اس کے بعد مولانا یوسف بنوریؒ کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے علما کرام نے تاریخ ساز جدوجہد کی بالآخر 7ستمبر 1974کو قادیانیوں کے دونوں لاہوری اور قادیانی گروہوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیتے ہوئے انکی مذہبی تبلیغ و اشاعت پر پابندی لگا دی گئی اسمبلی میں پہلی قراراداد مولانا شا ہ احمد نورانی نے جبکہ دوسری پیرزادی عبدالحفیظ نے پیش کی ،مولانامفتی محمودؒ،مولانا غلام غوث ہزارویؒ،مولانا شاہ احمد نورانیؒ ،مولانا عبدالحقؒ،مولانا عبدالمصطفی ازہریؒ ،مولانا صدرالشہید ؒسمیت تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے اپنا کلیدی کردار اداکیا نوجوانوں کو قادیانیت کے اوچھے ہتھکنڈوں،دجل و فریب سے با خبر رہنے کے لئے ختم بنوت کی تحاریک کے رابطے میں رہنا چاہئے۔۔۔ المیہ یہ ہے کہ آج تک کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں دی گئی بلکہ عالمی طاقت ور ممالک کی ایک فون کال پر گستاخان رسول کو خصوصی پرٹوکول کے ساتھ سفارشی ممالک میں بھیج دیا گیا سود اﷲ اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف ہے لیکن اسکا دور دورہ ہے ،زنا ہر حال میں قابل گرفت ہے مگر یہاں زنا برضا کے نام پر زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہے ،صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ کی گستاخی کرنے والوں کو غیر مسلم اقلیت وسزائے موت کا قانون ملک میں موجود نہیں آخر کیوں؟ کیا اسلام سے راہ فرار اختیار کرکے پاکستان ترقی کر سکتا ہے ؟ہرگز نہیں بلکہ اسلام کا نفاذ،اسلام کا دفاع ہی دفاع پاکستان ہے ہمیں بے حیثیت قوم اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ زمینی دفاع کی طرح نظریاتی ،دینی سرحدات کادفاع بھی ازحد لازم ملزوم ہے اس کے بغیر پاکستان کی حقیقی شناخت ختم ہوجاتی ہے نظریاتی دفاع نہیں کیا تو آج ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم غیر محفوظ ہیں دفاع پاکستان کے موقعہ پر ساری قوم کو زمینی دفاع کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی کرنے کا عزم کرنا ہوگا ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.