وہ بارہ سال کی بچی ہے، قیامت
خیز زلزلے میں وہ اپنے مکان کے ملبے تلے دب گئی تھی جس کی وجہ سے اس کے کان
کے پردے پھٹ گئے تھے اور وہ قوت سمات سے محروم ہو گئی اور بات کرتے ہوئے اس
کی زبان بھی لڑ کھڑاتی ہے ،اس کا تعلق ضلع باغ کے ایک گاؤں چیڑان سے ہے ،وہ
چوتھی جماعت کی طالبہ بھی ہے ،اس کا والد ڈھائی تین سال پہلے جس کا نام
اختر تھا ہارٹ اٹیک سے اچانک اﷲ کو پیارا ہو گیا۔اس کے بعد وہ بچی باپ کے
سائے سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ اس کے رشتے داروں نے اس کے سر سے چھت بھی
چھین لی۔اور اب راتوں کی نیندیں بھی چھنی جا رہی ہیں ۔ وہ اپنی لڑ کھڑاہتی
زبان میں کیا کہہ رہی ہے ۔۔یہاں کہ منصفوں سے اور با اختیار لوگوں سے کیا
امید رکھتی ہے ۔۔،ان کے رشتے دار ،(سرور) جوباغ میں کسی وکیل کے ساتھ معاون
کے طور پر کام کر رہا ہے ،خود کو ایڈووکیٹ ظاہر کرتے ہوئے ،اپنے تعلق کی
دھمکی دیتے ہوئے ان کی زمین یہاں ان کا مکان زلزلے سے پہلے تھا کی جگہ قبضہ
ہی نہیں کر رکھا بلکہ اب ان کا جینا بھی دوبہر کر دیا ۔یہ کہانی قدسیہ اختر
کیسے بتاتی ہے یہ اسی کی زبانی سنئے۔قدسیہ اختر کا کہنا ہے کہ میرے باپ کے
مرنے کے بعدہم بہن بھائیوں کے لئے ماں ہی واحد سہارا تھی ،زلزلے میں ہمارا
مکان گر گیا تھا ۔ہم نے عارضی طور پر ایک کچا شیڈ بنا کے سر چھپایا،حالات
اچھے نہ تھے کہ ہم فوراََ اپنی پرانی جگہ پر مکان بناتے ،کیونکہ ،(مختیار
نامی شخص) جو لوکل گورنمنٹ کا ملازم ہے ،اور( سرور) جو باغ میں وکیل کے
ساتھ معاون کے طور پر کام کر رہا ہے نے ہمارا معاوضہ بھی نہیں ہونے دیا تھا
،اور ہم کچھ بھی نہ کر سکے ،والد صاحب کے مرنے کے بعد گاؤں والوں نے ہماری
مدد کی ،کسی نے ٹین کی چادریں دیں ،کسی نے لکڑی ،کسی نے مالی امداد کی تاکہ
ہم اپنی پرانی جگہ یہاں زلزلے سے پہلے ہمارا مکان نسلوں سے چلا آرہا تھا
بنا سکیں ،ہم نے وہاں مکان بنانے کی کوشش کی تو( مختیار) او(ر سرور) نے
ہمیں روک دیا ۔جب کہ ان لوگوں نے سارے گاؤں کے سامنے میرے والد کی نماز
جنازہ پر یہ علان کیا تھا کہ ہم نے اس کو اس کے بچوں کو سب کومعاف کر
دیا،جو بھی ہمارے کیس تھے وہ ختم،اس بات کی گواہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ
دے رہے ہیں،مگر انہوں نے دل میں کینہ رکھتے ہوئے ہمیں مکان نہ بنانے
دیا۔پھر میری ماں گاؤں، برادری،رشتے داروں،کے گھر گھر گئی کہ ہمیں ہمارا حق
دلایا جائے،عوام الناس نے کوشش کی مگر ان دونوں بھائیوں کی گردن سے سریا
نہیں نکل سکا،اور لوگ بھی تھک کر خاموش ہو گئے،میری ماں جب اپنے معزور بچوں
کو دیکھتی ،جب وہ ان لوگوں کا سلوک ،رویہ سوچتی ہے تو پریشان ہو جاتی ا ور
پھر ہمیں ہمارا حق دلانے کے لئے ہاتھ پیر مارتی،مگر سب بے سود ہوتا آخرکار
جب کوئی راستہ نہ ملا تو بار ہا، کوشش کے بعد پھر میری ماں نے میڈیا کا
اخبارات کا اور خبروں کا سہارا لیا،جب ہم مظلوموں کی آواز ،بے بسوں کی پکار
،گاؤں کی سرحدیں پار کر کے باہر نکلی تو ان لوگوں نے خاص کر کے سرور نے
ہماری رات کی نیندیں بھی حرام کر دیں ،روزانہ رات کے نو بجے کے بعد جب سب
گاؤں والے گہری نیند سوئے ہوتے ہیں سرور خود بھی اور اپنے بچوں سے رات کو
ہماری ٹین کی عارضی چھت پر پتھر مرواتا ہے ،اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری
رہتا ہے ،جس سے ہم سب خوف کے مارے اندر ہی ہوتے ہیں باہر نکلیں تو یہ ڈر
ہوتا ہے کہ کوئی پتھر ہمیں یا ہماری ماں کو نہ لگ جائے ،ایک دو بار تو پڑوس
والوں کو جگایا مگر اب روز روز ان کو بھی تنگ کرنا اچھا نہیں لگتا ،مگر
راتوں کو ہمیں خوف و حراس میں مبتلا کرنا ان کا معمول بن چکا ہے ،ساتھ یہ
بھی کہتے ہیں کہ ہم ان کو ایسا حق دلائیں گئے کہ یہ یاد رکھیں گے ،ہم کب تک
اس خوف میں راتیں گزاریں ۔یہ خلاقیات سے گری حرکتیں راتوں کو بیوہ اور یتیم
بچوں کو گھر میں پتھر مار کر ان کو حراساں کرنا نہ صرف انسانیت سے گری حرکت
ہے بلکہ ،انسانیت کی تربیت پر بھی سوالیہ نشان ہے؟ ،اس کے ساتھ ساتھ گاؤں
والوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی موجودگی میں بے بس خاندان کو بے
جا تنگ کیا جائے۔کیا اپنا حق مانگنے کی سزا یہی ہے کہ راتوں کو گھروں میں
پتھر مارے جائیں،کیا اس گاوں میں کوئی ایسا نہیں جو ان لوگوں سے پوچھ سکے
کہ انہوں نے ہماری زمین پر قبضہ کیوں کیا ہوا ہے ؟ کیا یہاں منصف ختم ہو
گئے۔ہم غریب،بے بس ،بے سہارا ہیں ہمارا قصور کیا ہے کہ ہم سے جینے کا حق
بھی چھین لیا گیا۔میں قدسیہ اختر اس گاؤں کی عزت ہوں ،اس گاؤں کی بیٹی
ہوں،کیا یہ سب لوگ اپنی بیٹی ،اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔سرور جن کا
وطیرہ یہی رہا کہ لوگوں کو تنگ کرنا ،اپنے رشتے داروں کی زندگی اجیراََ
کرنا،کمزور کو نہ صرف دبانا بلکہ اس سے سانس لینے کا حق بھی چھین لینا ،یہ
بے لگام ہاتھی کی طرح سب کی عزتوں کو روندتے ہوئے اپنی مغروری میں مست
ہیں،میں سوال پوچھتی ہوں سب سے کہ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ انہوں نے ہماری
اس زمین ،اس جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے جو ہمارے باپ داد کے زمانے سے ہمارے
پاس ہے اس بات کی گواہی سارا گاؤں دینے کو تیار ہے پھر ہمیں انصاف کیوں
نہیں دلایا جاتا۔ہمیں راتوں کو تنگ کیا جاتا ہے ان سے کیوں نہیں پوچھا
جاتا،ان کو اتنی کھلی چھٹی کس لئے دے رکھی ہے کہ یہ ہم جیسے بے بسوں کا
مقابلہ کریں ،یہ ہم جیسے ،یتیم اور بیوہ کو اپنے اختیارات استعمال کرکے
سنگین نتائج کی دھمکی دیں۔ان سے پوچھا جائے ،ان کو ظلم کرنے سے روکا
جائے،اس سے پہلے کہ یہ عوام کی اور اﷲ کی گرفت میں آئیں ،ان سے ہمیں ہمارا
حق دلایا جائے۔۔۔۔ |