حقیقت میلاد النبی - انیسواں حصہ

واقعاتِ مسرت و غم کی یاد:-

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کائنات کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ جس دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری ہوئی، فرحت و اِنبساط کے اِظہار کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دن نہیں ہو سکتا۔ غم ہو یا خوشی، یہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ ان کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے۔ غم اور خوشی، خوف اور سکینت یا امید اور ناامیدی زندگی کے وہ پہلو ہیں جو انسان کے تصور و تخیل میں جاگزیں ہو کر اس کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے گزشتہ اُمتوں پر انعامات فرما کر انہیں خوشی اور انسباط کی دولت سے مالا مال کر دیا، مگر ساتھ ہی اُن کی سرکشی پر عذاب کی وعید بھی سنائی اور نافرمان قوموں کو درسِ عبرت بنا دیا۔

ہدایت ہو یا گمراہی، ان کا تعلق انسان کے نفسیاتی حقائق سے ہے۔ جب تک دل کے اندر حسنِ نیت کا پھول نہ کھلے اور انسان کے وجود میں کیفیت کی خوشبو نہ مہکے اس وقت تک عمل کا گلشن بے بہار رہتا ہے۔ جب کیفیت انسان کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوجائے اور انسان صاحبِ حال ہوجائے تو اَفکارِ ہدایت اور اَنوارِ رضا کا نزول ہونے لگتا ہے۔ پھر وہ نور عطا ہوتا ہے جس کے تتبع میں انسان زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔

ان کیفیات سے مستفیض ہونے کے لیے یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کیفیت کا چشمہ نسبت و تعلق سے پھوٹتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی کے غم میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ اللہ کے یہ نبی غم کی کیفیت میں ڈوبے رہتے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا قمیض بھیجا تو اسے آنکھوں پر لگانے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اور غم خوشی میں بدل گیا۔ پہلے صبر طاری تھا اب شکر طاری ہوگیا۔ یہ سارا کمال نسبت کا تھا، قمیض کو حضرت یوسف علیہ السلام سے نسبت تھی۔ ہماری زندگی کے کئی واقعات ایسے ہیں جن کا محور یہی نسبت ہے۔ ہمارے گھروں میں کون کون سی اَشیاء برسوں سے چلتی آرہی ہیں، ہم انہیں بہ حفاظت رکھتے ہیں اور اپنے والدین یا بزرگوں اور اَقرباء کی نشانیاں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ ان کے لمس سے وجود میں کیفیت کا ایک باغ کھل اٹھتا ہے۔ ہمارے غم اور خوشیاں بھی اِسی طرح نسبت و تعلق سے وجود پاتی ہیں، ہماری کیفیات کا دھارا نسبت کے چشمے سے ہی پھوٹتا ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی واقعات مذکور ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے اُمت کو یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب کبھی خوشی کا لمحہ یاد کرو تو اس لمحے کی کیفیات اپنے اوپر طاری کرلو اور جب کوئی لمحہ مصائب و آلام یاد آئے تو غم کی کیفیات میں ڈوب جاؤ. جب ان لمحات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سمٹی ہوئی کیفیات اس نسبت سے جنم لے رہی ہیں جو ان لمحات کو کسی ہستی سے تھی۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ایسے چند واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں

1۔ یومِ موسیٰ علیہ السلام منانے کی ہدایت:-

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، 2 : 704، رقم : 1900
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالي : وهل أتاک حديث موسي، 3 : 1244، رقم : 3216
3. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب اتيان اليهود النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين قدم المدينة، 3 : 1434، رقم : 3727
4. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب صوم يوم عاشوراء، 2 : 795، 796، رقم : 1130
5. أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب في صوم يوم عاشوراء، 2 : 326، رقم : 2444
6. ابن ماجة، السنن، کتاب الصيام، باب صيام يوم عاشوراء، 1 : 552، رقم : 1734
7. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 291، 336، رقم : 2644، 3112
8. أبو يعليٰ، المسند، 4 : 441، رقم : 2567

اِس سے واضح ہوتا ہے کہ بنی اِسرائیل اپنی قومی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے خوشی کے واقعہ کی یاد روزہ رکھ کر مناتے تھے، اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی خوشی کے ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے روزہ رکھا۔

2. یومِ نوح علیہ السلام کی یاد منانا:-

مام احمد بن حنبل (164۔ 241ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یومِ عاشورہ منانے کا یہ پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ عاشورہ حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں پر اﷲ تعالیٰ کے فضل و انعام کا دن تھا۔ اس روز وہ بہ حفاظت جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئے تھے۔ اِس پر حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت اس دن کو یوم تشکر کے طور پر منانے لگی، اور یہ دن بعد میں آنے والوں کے لیے باعثِ اِحترام بن گیا۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 359، 360، رقم : 8702
2. عسقلاني، فتح الباري، 4 : 247

جاری ہے۔۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.