عرب اُمراء کی سررد مہری اوربے بسی، مگر حماس کا جوش و
جہاد و استقامت نے ظالم اسریٔل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ! ۔ تجھے ا س
قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں،کچل ڈالا تھا جس نے پاوں سے تاج سرِ
دارا(اقبال)
اوریاد کیجیٔے اُس وقت کوجب اﷲ تعالی نے اپنے رسول محمدﷺکو راتوں رات مسجدِ
حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا،اور یہ بات عالمِ اسلام کی توجہ کے لیٔے کیا
کم تھی؟ جسے ربّ کایٔنات نے مسلمانوں کے قبلۂ اول کو بھی اس کی اہمیت
وفضیلت کو باقی رکھّ کر،مسلمانانِ عالم کے لیٔے اسے ہمیشہ کیلیٔے قابلِ
احترام اور توجہ کا مرکز بنا دیاتھا،مگر افسوس ہم مسلمان انبیاء کی اس زمین
کی عظمت کو نہ صرف بھول رہے ہیں بلکہ اپنی تانباک تاریخ سے بھی کٹ رہے ہیں
جس کے لیے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓنے سفر کیا اور غازی اسلام
صلاح الدین ایوبی ؒ اور ان کے جانثار ساتھی برسوں لڑتے اور داد شجاعت دہتے
رہے یہاں تک کے اس سر زمین کے زرہ زرہ پر ان کاخون رچ بس گیا اور آج بھی
مضطرب و بے چین ہے اور ایک نیٔ کروٹ کا منتظر ہے،لیکن صد افسوس آج مسلمان
خصوصا عالمِ عرب اس کی اہمیت کوکھو یا ہوا ہے ،اور ایک چھوٹے سے ملک
اسرایٔل جس کی بنیاد جھوٹ اور ظلم پر قایٔم ہے کے اگے بے بس نظر آرہاہے،جس
کا بنیادی سبب ہمارے نام نہاد حکمران خاص کر عرب اُمراء کی نااہلی اور سرد
مہری ہے،جنہیں اپنی جھوٹی شہنشاہیت سب سے زیادہ عزیز ہے، اوراس نشے میں
انہیں فلسطین میں معصوم مسلمانوں کاگرتا ہوا خون نظرنہیں آیااور وہاں سے
اُٹنے والی کویٔ بھی آواز اور معصوم بچوں کا رونا بلکنا،ٹڑپنا اور مظلوموں
کی آہ وبکا ان کے کانوں پر اثر انداز نہیں ہو ی، جہاں نصف صدی سے ذیادہ ظلم
و ذیادتی کا بازار گرم ہے اور حالیہ دنوں اس کی انتہا ہو چکی ،اور اس سے
دنیا کے ظالم و جابر بھی لرزہ بر اندام ہیں،جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان
بے گھر ہو چکے ہیں، ہزاروں افراد اپنی جانیں گنواں چکے ہیں،اور سینکڑوں
صیہونی ظلم کا شکار ہو کراپاہیج بن کر نہایت بے بسی کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں،مگر افسوس اب بھی عالم اسلام پر گہری نید تاری ہے ، ا ب انکے
حالات ایسے ہیں کہ فلسطین کے لیے کچھ کرنے کی تو دور کی بات ان کے حلق سے
اس ظلم و ذیادتی کے خلاف آواز بھی نہیں نکل سکی ، جبکہ اوروں نے آواز
اُٹھایٔ ،احتجاج کیااور کم از کم ، اسرایٔل اور اس کے مسنوعات کابایٔکاٹ
کیا مگر ہمارے عرب حکمرانو ں سے یہ بھی نہ ہو سکا ، یہ تو صرف مالی مد د
بہم پہنچانے پر ہی اکتفا کرتے ہے یعنی اسریٔلی سے تباہی مچنے کے بعد ملبے
میں میں دبے زخمی یا مارے جانے والوں کے لیے طبی امداد یا کفن دفن کا
انتظام یا اجڑے ہوؤ ں کوکچھ اشیاے خورد نوش پہنچا کر اس خوش فہمی میں مبتلہ
ہیں کہ انہوں نے پنی ذمداری کو پورا کیا ہے دراصل اس کی اصل وجہ انکی
ایمانی رگ کا کمزور ہونا ہے مجروح ہونا ہے جس کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ
نے اس طرح اشارہ کیا ہے اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں گفتار
دلبرانہ ،کردار قاہرانہ
ا ور یہ سچ ہے کے پچلے کیٔ دہاییوں سے عرب اس مسلۓ پر کچھ نہ کچھ کوششیں
کی ہیں،لیکن آج تک اس میں کویٔ خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ،وجہ اس کی
یہ ہے کے ان کے اکثر جلسے یامشورے وغیرہ یوروپی آقاؤں کے ساۓے تلے یا ان
کے اشاروں پر یاپھر یوروپی ممالک میں ہی ہوۓے،جہاں سب سے پہلے ان کی مہمان
نوازی کے نام پر عیش و عشرت کے سامان مہیا کیۓ گۓ،تاکہ اس سے متاثر ہو کر
یہ حق بات نہ کہہ نہ سکیں،خیر یہ تو رہا انکا رویہ یا خارجہ پالسی کا رسوخ
، اور اب خلیجی ریاستوں کے اندروں کے حالات ایسے ہیں کہ ا نہیں فلسطینن سے
زیادہ اپنی گدی کی فکرلاحق ہوچکی ہے، اور ایسے میں قومِ مسلم ان سے کیا
اُمید رکھ پاتی؟جس قوم کا باگ دوڑ ایسے حکمراں کے ہاتھوں میں ہو جن کا
محبوب ترین مشغلہ کھیل کوداور بلند ترین عمارتیں تعمیرکرنا ہواور عیش و
عشرت وتفریحی کے سامان اکٹھا یا مہیا کرنا ہو، توکیا یہ پنی شناخت بھی باقی
رکھّ پایں گے؟یہ عرب جن کاورثہ شجاعت و دلیری تھی اور فوجی تربیت اور جنگی
مشقیں جن کا محبوب مشغلہ تھالیکن آب انکا مشغلہ صرف لغویات یا کارٹونس سے
دل بہلانہ اور رقص وسرور کی محفلیں سجا کر لطف اندوز ہونا ہے،کیا اس کے
بعداسلام اور اسلامی تاریخ سے انہیں دلچسپی باقی رہ پا یٔگی ؟دوسری قومیں
تو خودتو دنیا کی تسخیر میں لگ گۓ لیکن مسلمان اور اہل عرب کو لایعنی یا
فضول کاموں میں لگا دیا۔اقوامِ عالم جنگی سازوسامان کے ساتھ فوجی تربیت کو
وقت کی اہم ضروت سمجھ کر اسے اپنا نصب العین بنا یٔ ہویٔ ہے ،اور عرب اس سے
دور رہنا ہی اپنی عافیت سمجھنے لگے ہیں اوراس سے کوسوں دور رہ کر اپنے
یورپی ہم منصبوں پر یہ ثابت کر نے پر جُٹے ہوے ہیں ،کے ہم پر امن حکمراں
ہیں اور ہم سے دنیا کو کویٔ خطرہ نہیں، تاریح ِ انسانی اور تاریخ ِ اسلام
سے بالکل بے پرواہ ہو کراور زعم میں ہیں کے صرف اس طریقے سے ان کی بادشاہت
یا جھوٹی شہنشاہیت سلامت رہ پاے گی،حالانکہ یہ انکی خود فریبی یا خام خیالی
ہے اجس سے نکلنا اب ان کے لیٔے محال بن چکاہے۔کاش کے تاریخ سے سبق لیتے
یہاں پر تومیسور (ہندستان) کی تاریخ دھرایٔ جانے والی ہے، اور اب شایٔد وقت
دور نہیں کے یہ تاریخ یہاں بھی دھرایٔ جاے کیا ،آج تونس اورمصرکے بعددیگر
عرب ممالک میں اٹھنے والا سیاسی طوفان( بھونچال) انہیں حالات کا بیش خیمہ
یا اشارہ تھا؟ـ: جو اب وقتی طور پر تو تھمتا ہوا نظر آ رہاہے ، لیکن حالات
سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ،لیکن دوسری جانب فلسطینی نوجوان راستے پڑے
کنکروں کے سہارے ا ور حماس نامی اسلامی جہادی تنطم اپنے محدود وسایٔل سے
صدا ے اﷲ اکبر کی گونج سے ظالم اسریٔل جو اپنے سارے وسایٔل یا جدید اصلہ سے
لیس ہو کر غزہ کے معصوم شہریوں پر اپنا غیض و غضب ڈھا رہا تھا ، مگر انجام
کار کے طور پر نہتے اور مٹھی پر جماعت کے جذبہ جہاد و شوق شہادت کیلے انکے
پاے استقامت کو دیکھ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا ہے، دوسری طرف مادی
طاقتوں سے متا ثر عرب حکمرانوں اور انہیں دہشت گرد قرار دینے والوں کو
سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ ظلم و بربریت روکنے کا واحد علاج جہاد فی سبیل اﷲ
ہی ہے اور اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلا کر اپنا ماضی کا ایٔنہ دہکھایا ہے،
اور ساری دینا کو یہ پیغام دیا ہے کہ خبردار ! ہماری رگوں میں آج بھی ہماری
اسلاف کا خون ڈور رہا ہے تم بہت دیر تک ہمیں دھوکہ میں نہیں رکھ سکتے ،ہم
نے کبھی ظلم کو برداشت نہیں کیا ہے،ہمارا وجود ہی ظلم کا خاتمہ ہے ہم سے جو
بھی ٹکراے گا اسے ہر حال میں جھکنا پڑیٔگا یا ٹوٹنا یا پاش پاش ہونا
پڑیگا،کیونکہ ہم تو وہ ہیں جو دنیا کے ظالم و جابربادشاہوں کو نہایت بے
باکی سے للکارا تھااور زمانے کے مغرور بادشاہوں کے تخت تاج کو اُکھاڑ کر
پھینک دیا تھا، ہم تو وہ ہیں جو فقر وفاقہ کو ہمیشہ اپنی دولت
سمجھا،زہدوتقویٰ کواپنی اقلیم استغناکو تخت وتاج بنایابے نیازی سے بے مرادی
کے لازوال خزانوں پر ہمیشہ قایٔم رہے،ہم تو وہ ہیں جوعشقِ حق اورپرستاریِ
علم کے بورے کہینہ پر بیٹھ کردنیااور دنیاکی ساری عظمتوں سے بے پرواہ رہے
لیکن بایٔں ہمہ ہماری کسرِ حق اور سطوتِ الہیٰ کا یہ عالم رہا کے شاہانِ
عالم نے ہمارے پھٹے پرانے دامنوں پر عقیدت و اطاعت کی انکھیں ملیں اور تخت
وتاج اور حکومتوں کو ہمیشہ ان کے پاے ٔاستقامت کی ٹھوکریں نصیب ہویٔ،ہم تو
وہ ہیں جو اﷲ کی چوکھٹ پرسر نیازجھکا کرتمام کرۂ ارض کی عظمتوں اور رفعتوں
کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کیا ہے، اور یہ سچ ہے کے آج یہ اپنی ہی
غفلت وخود فراموشی کی بدولت اپنی عظمت و جلال کھو ے ہوے ہیں ،اور یہ حقیقت
بھی تاریخِ ماضی کا ایک افسانہ بن کر رہ گیٔ ،ﷲ تعالیٰ نے جس عظیم منصف پر
ہمیں سرفراز فرمایا تھا ،ہم نے اسکی ناقدری کی اور خود اپنے ہی ہاتوں اپنے
شرف عزت وخلقتت کوپارہ پارہ کر دیا ،اﷲ نے ہمارے حق پر استقامت و اخلاص کے
بدلے دنیا کو ہمارے سامنے گرایا تھا ،اﷲ نے انہیں کلمۂ حق کی خدمت کے لیٔے
مامور کیا تھا،لیکن ہم نے اپنے فرضِ منصبی کو نہیں سمجھا اوراس سے بالکل ہٹ
کر مادی مفادات کے پیچھے پڑ کر دھوکہ میں آگے،ٔ اُف بہت ہو چکا ہے اب ہم
خواب غفلت سے بیدار ہو کرتوبہ کر چکے ہیں لہٰذااب وقت ان پہنچا ہے تاریخ کے
کروٹ لینے یا دھرانے کا، اور حال ہی کا یہ حماس(فلسطین) و اسرایٔل کا تازہ
طویل مدتی امن یا جنگ بندی کا محاہدہ عربوں کو جگانے یاجھنجوڑنے کے لیے بہت
کافی ہے، |