ضمیر اپنا اپنا

جان سے زیادہ کسی چیز کواہمیت دینے والوں سے معذرت کے ساتھ،ہمیشہ دیتا ہوں، سیلاب کیوں،جان سے عزیز کیوں

سیلاب سے متاثرہ لوگ ایک سوال پوچھ رہے ہیں ، غم کی تصویر بنے ہوئے ہیں ، بچے ڈوب گئے ہیں ، جوان ڈوب گئے ہیں ، معزور ڈوب گئے ہیں ، عورتیں ڈوب رہی ہیں ،عام سا سادہ سا سوال ہے ایک طرف ایک کروڑ روپیہ ڈوب رہا ہو، ایک سائیڈ پر آپکی بوڑھی ماں ہو ، باپ ہو ، بہن ہو بیٹی ہو ، کو ئی عام انسان ہو ،ایک ہزار خاندان کی زندگی ، رزق ، فصل ، عزت ، عزت نفس، آپ ایک کروڑ روپیہ بچائیں گے یا ماں ، بہن ،بیٹی ، ہزار خاندان بچائیں گے یقینا اگر آپ باضمیر ہیں تو یہی کریں گے لیکن اگر آپکا ضمیر مردہ ہوچکا ہو تو آپ لوگوں کی جانوں کی گھروں کی عزت آبرو کی پرواہ کئے بغیر ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کریں گے ، ہزاروں لوگوں کو بے گھر کریں گے ،پھر دکھاوے کا مسیحا بننے کے لئے خود انھیں لوگوں کے ٹیکس پر پلنے والے لوگ ، خود سخی بن کر انھیں کا دیا گیا ٹیکس فقیروں کی طرح ان میں بانٹیں گے،ایک عام کسان سے پوچھیں، ایک ان پڑھ، کسی اجڈ سے پوچھیں ،بند کو بمبوں سے توڑ کر پل بچانے کے لئے ہزاروں گھرانوں کو تباہ کرنے پر بڑی معصوم سی انجنئیرنگ سے فارمولہ بتاتا ہے ، ایک کسان کہتا ہے میں ہوتا تو بیراج ، پل، سپل وے بچانے کیلئے پل کے سائیڈ وں سے حصوں کو توڑ کر پل بھی بچا لیتا اور گھروں کو برباد بھی نہ ہونے دیتا ، ایک عام آدمی کہتا ہے میں سیلاب سے پہلے ہی اس پل کو بڑا کر دیتا اور متعدد جانوں اور گھروں کو برباد ہونے سے بچا لیتا ،پل کا ایک حصہ بم سے توڑ کر سیلاب گزار دیتا ، کوئی کہتا ہے پل سارا توڑ کر بھی جانوں اور گھروں کو بچا لیتا ،کوئی کہتا ہے کہ سیلاب زدہ شہروں دیہات کے گرد بند باندھ کر بچایا جا سکتا تھا ، کوئی کہتا ہے میٹرو بس سروس والے پیسے اگر بیراجوں ، پلوں پر لگا دئے جاتے تو آج اتنے لوگ بے گھر نہ ہوتے ، کوئی کہتا ہے موٹر وے بنانے والے اگر سپل وے ، دریاؤں کے پل بڑے کرتے تو آج یہ دن کبھی نہ دیکھنے پڑھتے ، ہمارے ٹیکس کے پیسے اگر پالیمان میں بیٹھے لوگ بیرونی دوروں پر نہ اڑاتے تو آج غریب بے گھر نہ ہوتے ، ٹیکس دیتے ہیں مگر ہمارے ٹیکسوں سے بڑی بڑی لگژر ی گاڑیاں خریدنے والے اگر بندھوں کو بموں سے توڑنے والے اگر دفا ع اربوں کے بجٹ سے چند سکے ڈوبنے والوں کے دفا ع پر بھی لگاتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے ،گرا کر اٹھانے کی روش نہ اپناتے تو یہ حالات نہ ہوتے ،بموں سے خود ہی بندھ توڑ کر ڈبونے والے ہمارے ٹیکس کے پیسے ہمیں فقیروں کی طرح دے گا مسیحا بن جائیں گے ایسے ہی جیسے ایک بے آسرا شخص کو قاتل قتل بھی کرے اور پھر مدعی بن کر خون بہا بھی خود ہی لے ۔وہ اور ملک ہیں جہاں اگر کشتی میں ڈوب کر کوئی ہلاک ہو جائے تو بروقت امداد نہ پہنچانے پر حکمراں اقتدار سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ہم کس ملک میں رہتے ہیں جہاں پل بچانے کے لئے ،بندھ مظبوط کرنے کی بجائے ہزاروں گھروں کو جانوں کواذیت میں مبتلا کرنے کے لئے بموں سے بندھ توڑے جا رہے ہیں ، ہزاروں ماؤں بہنوں بیٹیوں کے جہیز پانی میں ڈبوئے جا رہے ہیں ،دھرنوں کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان کا تخمینہ لگانے والے ،بنیادی وجوہات کو ہائی لائٹ کیوں نہیں کرتے ، کس کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے لوگ آج سڑکوں پر بیٹھے ہیں ، اگر حکمران عزیز رکھتے ہیں ملک کا مفاد تو اس نقصان سے بچنے کی تدبیر کیوں نہیں کرتے ، ایک پل بچانے کے بہانے ، ڈبو دئے ہیں ہزاروں گھرانے ، ملک کے نقصان سے گرز کیا ہر کسی کو اپنی انا کی ناک کی فکر ہے ، پوچھتا ہوں اگر نواز شریف کی جگہ اسحاق ڈار وزیر اعظم بن جائے سیلاب میں ڈوبنے والوں کو کیا فرق پڑے گا ایک بھائی کی جگہ دوسرا آجائے بیوروکریسی پر کیا اثر پڑھے گا صرف اپنی اپنی ناک کی خاطر ، اپنی اپنی سیاسی دھاک کی خاطر غریبوں کو ڈبویا جاتا ہے ، آئندہ بچوں کی سیاست کے لئے جاہلیت کا بیج بویا جاتا ہے ،سڑکوں پہ رلاتے ہیں ،بھوکے پیاسے تڑپاتے ہیں ،خواب نئے نئے دکھاتے ہیں ،غریب کے لئے تو کوئی ایجنڈا نہیں ، مذاکرات میں غریب کے لئے کچھ نہیں اپنے اپنے اقتدار کی باتیں ہیں ،میں تو دیتا ہوں ہمیشہ ٹیکس میرے ٹیکس سے دریا کے پل کی گزر گا ہ کیوں بڑھائی نہیں جاتی ، نہیں اگر بڑھائی جاتی تو میرے ٹیکس کے پیسے کھانے والوں کو ڈیم نہ نہ بنانے والوں کو پل کے پانی کی گزرگاہ بڑی نہ کرنے والوں کو سیلاب میں ڈوب کر مرنے کے جرم میں پھانسی کیوں لگائی نہیں جاتی ، ہمیشہ دیتا ہوں ٹول ٹیکس بھی پھر بھی دفا ع کے ٹیکس سے ٹول ٹیکس سے ، میرے ٹیکس سے میرے عزیزوں کی جان کیوں نہیں بچائی جاتی ۔فصل ، گھر بار ، جان گئی ،عزت نفس کیا سب عزت آن گئی سڑکوں پہ بیٹھے ہے فقیروں کی طرح ، خود مجرم ہو کر خون بہا دینے کی بجائے حکمران ٹیکس میرے کی خیرات مجھ کو دیگا فقیروں کی طرح ۔پل کو جان سے عزیز سمجھنے والوں سے معذرت-
Bashir Ahmad Chand
About the Author: Bashir Ahmad Chand Read More Articles by Bashir Ahmad Chand: 19 Articles with 16480 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.