تعمیر و ترقی………………اور ذہنی سرمایہ کاری کے اثرات

سوچ کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ چلتی رہے تو محرومیوں میں کمی رہتی ہے، یہ تسلسل قائم نہ رہ پائے تو فیصلے اغیار کے ہاتھوں ہونے لگتے ہیں، اپنے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ یہ ایک بنیادی اور اہم پہلو ہے جس پر پہرہ دیا جائے تو کبھی بھی مایوسی نہیں ہوتی۔ گھر ہو یا ریاست اس اصول کو نظر انداز کر دیا جائے تو مسائل، اندھیر ے اور جہالت کے سائے انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ایسی صورت حال سے بچنے کے لئے سوچ کی رفتار کو وقت سے ہم آہنگ رکھنے کی اہمیت بڑھتی رہتی ہے۔ ذہنوں کو وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے اور ان کے بند دریچے کھولنے میں تعلیمی معیار اور اسلوب کو بھی مزید وسعت دینے کی ضرورت رہتی ہے کیوں کہ شعور اور آگاہی کے بغیر ذہنوں کو سرعت کے ساتھ زمانے سے ہم آہنگ رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ تعلیمی معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے تو ہی ترقی اور خوشحالی کے مطلوبہ نتائج برآمد کیئے جا سکتے ہیں۔ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ قوم ہی ترقی یافتہ قوم کہلاتی ہے جو نہ صرف اپنے نفع نقصان کو بہتر طور پر پرکھنے کی تمیز رکھتی ہے بلکہ دوسروں کی بھی رہنمائی کرنے کی بھرپور استعداد رکھتی ہے۔

وسائل کی بہتات اور رسل و رسائل کی سہولیات میں سبقت حاصل کر لینا ہی شاید ہمارے نزدیک تعمیر و ترقی کا تصور پایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں ترقی اور آزادی کی منزل کا حصول ذہنی بالیدگی اور شعور پر منحصر ہے۔ یہ ذہنی پختگی صرف اور صرف تعلیم ہی کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس سے معاشرے میں تعصب، خود غرضی اور تنگ نظری کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ جب اس بنیادی تبدیلی کے باعث سوچ و فکر کی مزید راہیں ہموار ہوتی ہیں تب جا کر یہی پختہ ذہن اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیئے اپنے عظیم رہنماؤں کا انتخاب کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پھر یہی رہنما اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف ملک و معاشرے کی بہتری کے لئے ہی سوچتے ہیں۔ ایسے میں زیادہ نہیں تو دو چار رہنما ہی میسر آ جائیں تو صدیوں کا کام ہو جاتا ہے۔ یہی وہ اہم موڑ ہے جہاں انتخاب میں اکثر لوگ غلطی کر جاتے ہیں اور ساری زندگی اس کا خمیازہ ان کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک دکھ دہ امر ہے کہ بسااوقات قحط الرجال کے سبب کوئی دوسرا آپشن بھی تو نہیں ہوتا۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ترقی پر گامزن رہنے کے بنیادی اصولوں کو بھول کر درمیان سے اپنا کام شروع کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ جب کہ اس کا بنیادی مرحلہ تو ہماری ذہنی تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتا ہے جسے شاید اہمیت ہی نہیں دی جاتی یا تعمیر و ترقی کے لیئے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی۔

انسانی ذہنوں پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے جب ہماری سوچ صرف چند ترقیاتی سکیموں تک محدود رہے گی تو پھر قوم بھی ایسی ہی پیدا ہو گی جو بظاہر تو معاشی طور پر کسی حد تک آسودہ حال نظر آئے لیکن فی الحقیقت اخلاقی گراوٹ کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہو۔ قومی ترقی کے سفر میں کچھ بنیادی اور اہم کام ریاست کسے پہلے افراد اور معاشرے کے خود اپنے کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ سب کام اگر کسی معجزے یا انقلاب کی انتظار پر ہی موقوف رہیں تو بھی بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہر فرد کو اپنے اپنے حصے کا کردار بہرصورت ادا کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کو مثبت رخ دینے میں کسی بھی درسگاہ یا ادارے کی ذمہ داری سے پہلے اپنے گھر سے ہی اس کی ابتداء کر نا ہو گی تب ہی ریاست کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنے اور دوسروں کے لیئے مثالی ماحول فراہم کرنے میں کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب مجموعی طور پر ہر فرد کی یہ کوشش رہے کہ وہ خود تو درست نہ ہو بلکہ دوسرے لوگ ٹھیک ہو جائیں، وہ خود تو آئین و قانون کی گرفت سے آزاد ہو صرف دوسرے پاسداری کریں تو معاشرے میں تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے۔ آج ہمارا بھی یہی المیہ ہے۔ تبدیلی کے لیئے اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے، معاشرے کی بہتری کے لیئے پہلے خود اپنے عمل سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اسی عمل سے بتدریج قومی سطح پر سوچ و فکر میں نکھار اور پاکیزگی آنا شروع ہوتی ہے جس سے معاشرے میں مثبت رویے جنم لیتے ہیں۔ پھر یہی مثبت رویے عدم برداشت کی جگہ تحمل و بردباری کا موجب بھی بنتے ہیں، کرپشن اور تخریب کاری کی جگہ شفافیت اور تعمیری سوچ کی بنیاد رکھتے بھی ہیں، آئین و قانون کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کلیدی اور اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہنا لازم ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے میں ہی انسانی زندگی کے تمام پہلو روشن رہتے ہیں۔ اسی لا ریب ہدایت کی روشنی میں جہالت کی پستی سے باہر نکلنے میں مدد ملتی ہے۔ پھر جب ذہن ترقی یافتہ ہوتے ہیں تو کٹھن سے کٹھن سفر بھی بآسانی طے ہو جاتے ہیں، منزلیں قریب آ جایا کرتی ہیں۔ بہتر ذہنی نشو و نما ہی اصل میں معاشرتی، معاشی اور اخلاقی ترقی کی ضامن ہے۔ مفادات کی بجائے نظریات کو اہمیت صرف اسی صورت دی جا سکتی ہے جب انسانی تعلیم ضابطۂ حیات سے موافقت رکھتی ہو۔ قوموں کی تعلیم و تربیت، نظم و نسق اور تہذیب و تمدن جب ان کی حقیقی اور بنیادی تعلیمات سے موافقت نہ رکھتے ہوں تو مصائب اور پریشانیاں ان کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔ تاہم جز وقتی آزمائشیں، مشکلات اور مصائب انسانی رویوں کا رخ بہتر سمت موڑنے کا اشارہ بھی دیتے ہیں اور کھوئی ہوئی منزل کا پتا بھی۔ زندہ قومیں ایسے ہی مواقع سے سبق حاصل کر تے ہوئے اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے پر کمر بستہ ہو جایا کرتی ہیں۔ ایسی ہی قوموں کے لیئے پھر حالات بھی موافق ہو جایا کرتے ہیں، ماحول بھی سازگار رہتا ہے اور ترقی کی راہ پر نہ صرف گامزن ہو جایا کرتی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سہارا دینے کی صلاحیت پیدا کر لیتی ہیں۔
Abdul Majeed Siddiqui
About the Author: Abdul Majeed Siddiqui Read More Articles by Abdul Majeed Siddiqui: 6 Articles with 4084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.