ُپٹیل ہسپتال کے آئی سی یو میں
جب پہلی با رانہیں دیکھا تو کہیں سے بھی انکے بیمار ہونے کا شائبہ نہیں ہوا،
وہ بابا اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا کہ وہ بیمار ہیں اور
انہیں کسی قسم کا فالج کا دورہ پڑا ہے ۔ وہ تواس وقت بھی اپنے بیٹے (حبیب
الرحمن ) کو بار بار پاس بلا کر یہی کہتے کہ پتر چلئے کار چلئے ، اتے نئی
رئنا۔۔۔۔ اس کا بیٹا انکا دھیان کسی اور جانب مبذول کرکے کچھ دیر کیلئے
انہیں مصروف کر دیتے، اس طرح کچھ وقت گذرتا جاتا۔اس دوران کوئی ڈاکٹر ،
کوئی نرس ، کوئی وارڈ بوائے یا کوئی اور اسٹاف آکر بابا کی توجہ اپنی جانب
مبذول کرلیتے،بابا کا دھیان چند لمحوں کیلئے بٹ جاتایوں کچھ وقت گذرجا تا،
وہ وقت بھی یونہی گذرا جارہا تھا ۔لیکن بابا فالج کی بیماری کو تسلیم نہیں
کر پارہے تھے۔
کہتے ہیں ماننے میں عافیت ہے ، اگر بابا یہ مان لیتے کہ واقعی انہیں فالج
کا دورہ پڑا ہے اور وہ معالجین کے ساتھ ملکر اپنی بیماری کے خلاف علاج میں
معاونت کرکے روبہ صحت ہوسکتے ہیں تو شاید وہ ایسا نہ کرتے لیکن بابا ایسا
نہیں کر پارہے تھے ، ان کے بیٹے سے وجوہات معلوم کیں تو انہوں نے بتایا کہ
بابا کو ہم نے اپنی زندگی میں بیمار نہیں دیکھا یہ پہلا موقع ہے کہ آج بابا
بیمار ہوئے ہیں اس لئے وہ یہ بات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ وہ بیمار
بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔
وہ بابا کوئی تین سال تک فالج اور اس کے بعد پے درپے آنے والی بیماریوں سے
لڑتے لڑتے ۱۵ستمبر کی صبح شہر قائد کے ایک معروف ہسپتال میمن میڈیکل انسٹی
ٹیوٹ کے ایمر جنسی روم میں ۴۸ گھنٹے گذارنے کے بعد اس دار فانی سے کوچ کر
گئے۔ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ اس دوران جو ڈیوٹی ڈاکٹر تھے وہی دیکھتے رہے
کوئی بڑا ڈاکٹر دیکھنے نہیں آیا جس کی وجہ سے انکے بابا کی صحیح معنوں میں
تشخیص نہیں ہوپائی اور اور اس بات کا شکوہ انہیں ساری عمر میمن ہسپتال کی
انتظامیہ سے رہیگا۔ بابا کا انتقال پیر کی صبح ۸ بجے ہوا،انہیں تدفین کیلئے
میر پور خاص کے فوجی قبرستان میں لے جایا گیا۔جہاں سینکڑوں سوگواروں کی
موجودگی میں انہیں سپردخاک کر دیا گیا۔ بابا کے تمام بیٹے ، پوتے ، نواسے ،
دیگر عزیز و اقارب سبھی وہاں موجود تھے۔ انکے بیٹے حبیب نے دعا کرائی جس
میں نہ صرف وہ بلکہ دیگر کئی افراد بھی جذباتی ہوئے ۔
سارے سوگوار کچھ دیر وہاں کھڑے رہے پھر آہستہ آہستہ وہاں سے اپنے اپنے
گھروں کو روانہ ہونے لگے۔ قبرستان ، جہاں کچھ دیر پہلے سینکڑوں لوگ تھے اس
پر روایتی سناٹے کی فضا طاری ہوگئی۔بابا کے جواں سال بیٹے ساری عمر اس کا
ساتھ نبھا کر اپنے گھروندوں کو چل دیئے ۔ یقینا یہاں سے آگے کا سفر تنہا
ہوتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے موت کے بعد کا سفر ہر انسان نے تنہا کر نا
ہے۔ کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ وہ یہاں تک ساتھ نبھا کر لوٹ جاتا
ہے۔۔۔۔۔ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی قسمیں کھانے والے بھی یہاں کے بعد
ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ واپسی کا راستہ لیتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ قبر تک ساتھ
کا سفر رہتا ہے بس اور پھر اصل سفرتو ہر انسان کو تنہا کرنا پڑتا ہے۔اﷲ
بابا کے اور دیگر سبھی کے آگے کے سفروں کو آسان بنائے ، امین
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ، فل اسٹاپ یہاں پر نہیں لگ جاتا ۔ بلکہ اس کے
بعد اک نئی کہانی ، یا کہانی میں اک نیا موڑ آجاتا ہے۔ جانے والا چلا جاتا
ہے تاہم اس کی یادیں اس کی باتیں رہ جاتی ہیں جو اس کے اپنوں کو طویل مدت
تک آبدیدہ کرتی رہتی ہیں۔ نم آنکھوں کے ساتھ جانے والوں کا ذکر جب زبان پر
آتا ہے تو نمی اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ احساسات وہی محسوس کرتے ہیں
جن کے اپنے ان سے بچھڑ جاتے ہیں۔ جن کے اپنے ،انہیں بھری بزم میں تنہا چھوڑ
کر نا ختم ہونے والے سفر کے راہی بن جاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں
جدائی کا دکھ برداشت کیا ہوتا ہے او ر سہا ہوتا وہ کرب جو اپنے کسی پیار
کرنے والے کے بچھڑنے پر ہوتاہے۔۔۔۔وہ درد وہ احساس وہ جذبات نا قابل بیان
بھی ہوتے ہیں اور جو بیاں ہوتے ہیں تو وہاں آنکھوں میں نمی کے بجائے لہو کے
بہنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ ۔۔اک ان دیکھا درد و تکلیف کا یہ عالم میرے نزدیک
کم از کم اس قوت ناقابل بیاں ہے۔۔۔۔
بات کر رہاتھا بابا کی، تو بابا چلا گیا ، منوں ٹنوں مٹی تلے خالق خقیقی کے
پاس۔۔۔۔
اسی روز ٹھیک رات ۸ بجے اس بابا کی ہمسفر ، جس نے شاید اپنے جیون ساتھی کے
ساتھ ، ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی ہونگی ، جو نصف صدی سے زائد عرصہ
اپنے اس جیون ساتھی کے ساتھ چلی ہوگی ، وہ کہ جب اپنے ساتھی کے بیماری کے
بعد دن رات اس کی اس قدر تیمارداری کرتی رہی کہ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ جب
وہ خود بھی بیمار پڑ گئیں۔ وہ بھی بیمار پڑنے لگ گئیں ، وہ جس بابا کی
ہمسفر تھیں جب اس نے کبھی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا تو بلا
وہ کیونکر بیماری کو تسلیم کرتیں، انہوں نے بھی بیماری کے خلاف علم بغاوت
اپنے جیون ساتھی کی طرح بلند کئے رکھا ۔ اس بوڑھی نے بھی بیماری کو تسلیم
نہیں کیا یہاں تک کہ جسمانی بیماریوں نے ان کے مدافعتی نظام کو تباہ کر کے
رکھ دیا۔ ان کے تمام بیٹوں نے انہیں اور انکے ہمسفر کو اپنی ہتھلیوں پر
ررکھا ، ان کا علاج مہنگے سے مہنگے ترین ہستپال میں کرایا ، اسی میمن میں
بارہا دونوں بزرگ خضرات کا داخلہ بھی رہا۔ لیکن بیماریاں تھیں کہ ختم ہوکر
ہی نہیں دے رہی تھیں۔۔۔۔ اور پھر وہی ہوا ۔
اس بوڑھی عورت کو کومہ میں ہی ڈاکٹر وں نے جواب دیدیا ۔ سبکو بتا دیا کہ بس
اب آپ لوگ دعا کریں ، اس بوڑھی کو کومہ کی ہی خالت میں اس کے بچے میر پور
خاص لے گئے انہیں لے گئے اور ان کے ہمسفر کو میمن لے آئے ۔ میمن میں دو دن
زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد با با چل دیئے اور اسی روز شام ۸ بجے وہ
بوڑھی بھی اپنے جیون ساتھی کے پیچھے چل دیں۔ اس نے اپنے ہمسفر سے ساتھ جینے
اور مرنے کی قسم کاکھائی تھی شائد۔۔۔۔ جبھی صرف ۱۲ گھنٹے کے بعد ہی وہ بھی
اس کے پیچھے چل دیں جہاں سب کو جانا ہے۔۔۔۔۔کسی کو پہلے اور کسی کو بعد
میں۔۔۔۔۔۔ |