عجیب و غریب خبریں
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, karachi)
آج کوشش ہوگی کہ کچھ عجیب و غریب
خبریں آپ کے سامنے لاؤں ۔ حالات ِ حاضرہ پر بہت کچھ لکھ لیا ۔ ہمارے ہاں
عجیب وغریب خبریں پڑھنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے
اخبارات اور ہماری نیوز ویب سائیٹیں اس طرح کی خبریں بھی آئے روز شائع کرتی
رہتی ہیں ۔ یہ بڑی اچھی بات ہے ۔ کیوں کہ لوگ سیاسی اور حالات ِ حاضرہ پر
خبریں پڑھتے پڑھتے بور ہو جاتے ہیں ۔اور بعض لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں ، جو
خبریں پڑھتے ہی محض اس لیے ہیں ، تاکہ وہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز خبریں
پڑھ کر لطف اندوز ہو سکیں ۔ وہ اس بات کے جاننے کے بالکل شائق نہیں ہوتے کہ
ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ سیلاب نے کتنی تباہی مچائی ہے ؟ دھرنوں کا کیا بنا؟
ہمارے وزیر ِاعظم کب ، کس ملک میں اپنا نیا دورہ کریں گے ؟اس ہفتے کتنے لوگ
فرقہ واریت کے بھینٹ چڑھے؟ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ نے کتنے لوگوں کی جان لی؟
عالمی افق پر کیا تبدیلیاں آئی ہیں ؟ امریکا کا اگلا ہدف کیا ہے ؟ اسرائیل
اور فلسطین کے درمیان صلح ہوئی یا نہیں ؟ یا ابھی تک جنگ جاری ہے ؟ سعید
اجمل کلئیر ہوا یا نہیں ؟ کیا واقعی آفریدی کو ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کا کپتان
بنادیا گیا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ بہر حال ہم کسی پر تنقید نہیں کر سکتے ۔
کیوں کہ ہر ایک اپنے شوق کے مطابق خبریں پڑھتا ہے ۔کوئی دینی اور مذہبی
خبریں پڑھتا ہے تو کوئی تعلیمی ۔ کوئی سیاسی خبروں سے لطف اندوز ہوتا ہے تو
کسی کی ٹیبل پر کھلاڑیوں کی تصویروں سے مزین جریدے دھرے ہوتے ہیں ۔ کوئی
تعلیمی خبروں کے پیچھے لگا ہوتا ہے تو کسی کو اپنے ملک کے علاوہ ہر ملک کی
خبر ہوتی ہے ۔ ہاں ! مگر یہ حقیقت ہے کہ آج کل زیادہ تر لوگ سیاسی اور
حالات ِ حاضرہ سے متعلق خبریں پڑھتے ہیں ۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب ۔ معلوم ہوا ہے کہ ہانگ کانگ کی گلیوں میں
خوبصورت رنگوں سے مزین ہاتھیوں نے مارچ کیا ۔ ہمارے ملک میں تو عوام مارچ
کرتے ہیں ۔ مارچ نہیں بلکہ لانگ مارچ کرتے ہیں ۔ لیکن ہانگ کانگ میں ہاتھی
لانگ مارچ کرنے لگے ہیں ۔ اور وہ بھی خوبصورت اور دل موہ لینے والے رنگوں
سے سج دھج کر ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہاتھیوں کی اس پریڈ کا مقصد ہاتھیوں
کی بقا اور بہتری کےلیے فنڈز جمع کرنا ہے ۔ ایکسپریس ڈاٹ پی کے کے مطابق :
"ایشیا ایلیفینٹ فاؤنڈیشن اور پریڈ کے کو آرڈی نیٹر مارک کا کہنا تھا کہ
ہاتھیوں کی حفاظت کرنے کا آئیڈیا اس وقت سامنے آیا جب تھائی لینڈ میں ایک
بے بی ہاتھی اپنی ایک ٹانگ سے اس وقت محروم ہوگیا جب اس کا پاؤں بارودی
سرنگ پر پڑ گیا۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہاتھی کو مصنوعی ٹانگ
لگائی جاسکتی ہےلیکن اس کے لیے فنڈز دستیاب نہیں اس کے بعد سے ہی ہاتھیوں
کی پریڈ کا آئیڈیا سامنے آیا اور 2006 میں ہالینڈ کے شہر ہیرلان سے اس کا
آغاز کیا گیا اور اب تک دنیا کے کئی مقامات پر پریڈ منعقد ہوچکی ہے جو
اپنے شاندار ڈیزائن کی وجہ سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔"ہمیں
مغرب کی اس اچھی بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ جانوروں کے سلسلے میں
کافی حساس ہیں ۔
ریکارڈ بنانا بھی کوئی مغرب سے سیکھے ۔ یہ لوگ عجیب و غریب ریکارڈ بناتے
ہیں ۔ جو ان کے محنتی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ایک عجیب وغریب خبر یہ
ہے کہ ایک برطانوی باغبان نے آٹھ کلو وزنی پیاز اگا کر عالمی ریکارڈ قائم
کر دیا ۔یہ واقعی حیرت انگیز خبر ہے ۔ اس محنتی مالی نے اتنا بڑا پیاز اگا
کر کم از کم مجھے تو ورطہ ِ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ نہ جانے اس شخص نے اتنا
بڑا پیاز اگانے والا بیج کہاں سے لیا ہوگا ۔ روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ کے
مطابق: "برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ٹونی گلوور نامی باغبان نے 8کلو سے
زائد وزنی پیاز اگا کر اپنا نام عالمی ریکارڈ قائم کرنے والوں کی فہرست میں
درج کرالیا ہے۔32 انچ کی چوڑائی پر مشتمل اس پیاز کا وزن مارکیٹ میں دستیاب
عام پیاز سے 25گنا زیادہ ہے۔گلوور کا کہنا ہے کہ وہ نو عمری سے ہی اپنے باغ
میں سبزیاں کاشت کرتے آرہے ہیں اور یہ پیاز انہوں نے گذشتہ برس اکتوبر کے
مہینے میں کاشت کی تھی۔"
کچھ ریکارڈ خود بہ خود بھی بن جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے لیے انسان کو کوئی
محنت نہیں کرنی پڑتی ۔کچھ لوگ گینز بک آف دی ورلڈ میں اپنا نام شامل کرانے
کے لیے عمریں کھپا دیتے ہیں ۔ اور کچھ لوگ گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کتاب میں
نام لکھوا دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ممبئی کے کرن سنگھ کو لے لیجیے ۔ اس
بچے کی عمر محض 5 سال ہے ۔ مگر اس کا قد پانچ فٹ ، سات انچ کا ہے ۔ روزنامہ
پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق: "کیایہ حیران کن نہیں ہے کہ 5سالہ کرن سنگھ
5فٹ اور 7انچ قامت کا ہے۔ اس غیر معمولی قد کی وجہ سے سر سنگھ کا نام گینز
بک آف ورلڈ ریکارڈ میں 2008ءمیں شامل ہوا ۔وہ اس وقت دنیا کا طویل قامت کا
واحد بچہ تھا۔ اس کا وزن 7کلو گرام تھا لیکن نشوونما کا عمل رکا نہیں۔ کرن
سنگھ کے والد کا قد 6فٹ اور 6انچ تھا جبکہ والدہ شویتا لان 7فٹ 2انچ کی
حامل خاتون تھی وہ بھارت کی طویل القامت خاتون ہیں۔ کرن سنگھ باسکٹ بال کا
کھلاڑی بننا چاہتا ہے اور ڈاکٹروں کی رائے یہ ہے کہ وہ دنیا کا طویل القامت
شخص بن سکتا ہے اگر اسے کبھی صحت کے دیگر مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"
پچھلے دنوں بی بی سی اردو نے اپنی ویب سائٹ پر "دس چیزیں جن سے ہم لا علم
تھے " کے نام سے ایک مضمون شائع کیا ۔ یہ مضمون دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ
معلوماتی بھی ہے ۔ ان دس چیزوں میں سے چند چیزیں درج ذیل ہیں :
1۔ بی بی سی نے نیوز وائز کے حوالے سے بتایا کہ موسم ِ گرما میں پیدا ہونے
والے بچے موسم ِ سرما میں پیدا ہونےوالوں کے مقابلے میں زیادہ جلدی گھٹنوں
کے بل چلتے ہیں ۔
2۔ نیند میں بھی ہمارا دماغ جاگ رہا ہوتا ہے ۔سائنسدان کہتے ہیں کہ دوران ِ
غنودگی ، لوگ الفاظ کی شناخت کر سکتے ہیں ۔
3۔ سب سے بڑا شکاری ڈائنو سار ممکنہ طور پر پوری مچھلی کھا جاتا تھا ۔ اس
سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈائنوسار کتنا بڑا ہو گا ۔
4۔ دی ٹائمز کے مطابق بابل کے ایک نسخے میں دی گئی ہدایت کے مطابق حضرت نوح
علیہ السلام کی کشتی جس رسی سے بنی گئی تھی اس کی لمبائی لندن سے ایڈنبرا
کے فاصلے کے برابر تھی ۔
5۔ دنیا میں پہلی بار ڈی این اے فنگر پرنٹ کا استعمال ایک نوجوان تارکِ وطن
کو واپس گھانا بھیجنے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔
6۔ اگر ہر ایک کو اس کے صحیح ساتھی کی تلاش ہو تو دنیا میں سچا پیار دس
ہزار زندگیوں میں سے صرف ایک میں مل سکے گا۔
ذرا تصور کیجیے کہ اگر کسی ٹی وی شو میں چمگادڑ آجائے تو کیا ہوگا ۔ ظاہر
ہے ، یہ ٹی وی شوخبروں کے حوالے سے نہیں ، بلکہ "چمگادڑ " کے حوالے سے یاد
گا بن جائے گا ۔ ایسا ہی ایک واقعہ امریکا میں پیش آیا ، جہاں آن کی آن میں
ایک چمگادڑ بن بلائے مہمان کی طرح آٹپکا ۔ اب تک ڈاٹ ٹی وی کے مطابق:
"امریکی ٹی وی پر"گڈ مارننگ شو ٹیینیسی"جاری تھا اور اسے 3 اینکرز بو ولیم،
ٹیئرسا اور ماہرموسمیات جولیا جونسن پیش کررہے تھے۔ تینوں اینکرز بڑے
انہماک سے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک چمگادڑ اسٹوڈیومیں
داخل ہوگئی اور یہ جانے بغیر کہ پروگرام براہ راست نشر کیا جارہا ہے،
اسٹوڈیو میں اپنی پرواز کی مہارت دکھانی شروع کردی، اب کیا تھا چمگادڑ کی
یہ اچانک آمد ان کے لیے کسی مصیبت سےکم نہیں تھی، چمگادڑ کبھی ایک اینکر
کے اوپر سے پرواز کرتی ہوئی ایک کونے سے دوسرے کونے پہنچ جاتی اور کبھی
دوسرے اینکر کے کان کے قریب اپنی میٹھی آواز میں گانا سنانے کی کوشش
کرتی۔"
کالم بہت طویل ہو گیا ۔ اسی پر اکتفا ہے ۔
|
|