فلسفۂ جہاد
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
16ستمبرمنگل کے دن شیخ زائد
سینٹر اورicrcکے اشتراک سے کراچی یونی ورسٹی میں انٹرنیشنل ہیومن ٹیرین
لاء(IHL)کے موضوع پر ایک روزہ ورک شاپ کا انعقاد کیا
گیاتھا،پروفیسرڈاکٹرنوراحمد شاہتازاور ڈاکٹر ضیاء اﷲ رحمانی نے ہمیں بطور
خاص مدعوکیاتھا،وہاں جو معروضات ہم نے گوش گذار کیں ،انکا خلاصہ اپنے
قارئین کیلئے پیشِ خدمت ہے:
جہاد کو سمجھنے کیلئے پہلے اسلام او راسلام کو سمجھنے کیلئے پہلے ایمان کو
سمجھنا ضروری ہے ، چنانچہ ایمان ایک ویثرن اور نظریئے کا نام ہے ، اس
نظریئے میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں ہیں ، اﷲ تعالی کا سب سے بڑا حق
یہ ہے ،کہ اسے یکتا وتنہا مانا جائے ، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کسی بھی قسم
کاشرک نہ کیاجائے ، بندوں کے حقوق کیلئے اس کے پیامبرﷺ نے جو کچھ بیان
فرمایاہے ، اس تمام تررسالت وتبلیغ میں انہیں اﷲ کا حقیقی پیغامبراور
نمائندہ تسلیم کیاجائے ، یہ ایک ویژن ہے، اور اسلام وہ راستہ ہے جن پر عملی
طورپر چل کر اپنے عمل ،کردار او رحسن ِ کارکردگی سے اس کا ثبوت دیاجائے ،گویایہ
پریکٹیکل اس کا ایک مشن ہے ، یا د رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس ویژن اور مشن
نیز اس ایمان واسلام سے خداکی خدائی پر کسی طرح بھی کمی بیشی کا کوئی اثر
نہیں پڑتا ،ہاں حضرت ِ انسان پر حیات وممات میں اس کے وجود وعدم سے اچھے
برے اثرات ضرورت مرتب ہوتے ہیں ۔
امن سے مأخوذ ایمان اور سلامتی سے مأخوذ اسلام کے سرسری جائزے سے معمولی
انسان بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتاہے، کہ یہ ویژن اور مشن سراسر أمن وسلامتی
،محبت وبھائی چارگی اور بھلائی وعافیت پر مشتمل فلاح وبہبود انسانیت کیلئے
ہے ، ویژن خالق ِ انسانیت کا دیا ہواہے اور مشن جو پریکٹیکلی راستہ ہے ،اس
کے مخلوق میں سب سے اشرف ترین اور شفیق ترین شخصیت جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کا
ہے ، جس کی امانت ، دیانت ،صداقت ،شرافت اور عدل وانصاف پر مسلم وغیر مسلم
سب متفق ہیں ، معلوم ہواکہ ایمان واسلام کو بطور ویژن اور مشن متعارف
کروانے والے دونوں ہی یعنی اﷲ ورسولﷺ انسانیت کے خیر خواہ تھے ، اس کائنات
میں وہ بھلائی اور محبت وپیار چاہتے تھے ، تو پھر یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ
دونوں خون خرابے ،اور قتل وقتال کے داعی ہوں ، جہاد میں تو خون بہتاہے ،
لوگ قتل ہوتے ہیں ،یہ نکتہ اچھی طرح سمجھنے کا ہے ، اسی اﷲ ورسول ﷺنے قاتل
کو قصاصاً قتل کرنے کاحکم آخر کیوں دیاہے ؟تاکہ قتل در قتل کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ رک جائے ، قصاص جوکہ بظاہر ایک قتل ہے میں حیات اور زندگی کا
نظریہ اسلام میں اسی لئے ہے ، انفرادی قتل اگر پوری انسانیت کے حیات وممات
کا مسئلہ ہے ،جیساکہ فرمودۂ قرآن کریم ہے ،اور اس کے بدلے میں قصاصاً قتل
میں سب کو سیکورٹی ہے ،تو اسی طرح اجتماعی قتل جو افراد کے بجائے جماعات
اور اقوام کو خاک وخون میں ملاتاہے ،اس کے سدّباب کیلئے جو آپریشن متعین
کیاگیاہے ، وہ قصاص کے بجائے لفظ جہاد کے عنوان سے ہے ،یہ عظیم نکتہ صرف
اتنی سی بات میں ہے ،یعنی اگر قصاص سے معاشرے میں امن کا تصور ممکن ہے ، تو
جہاد سے بطریق اولی ممکن ہے ، باقی رہی یہ بات کہ جہاد میں دفاعی اور
اقدامی کونساہے ، حقیقت یہ ہے کہ مذکورۃ الصدر آفاقی اور ابدی ویژن او رمشن
کو تسلیم نہ کرنے والاانسان نہ صرف ان کو عملاًرد کرتاہے ،بلکہ گویا وہ اسے
چیلنج بھی کررہا ہوتاہے ، اسے للکاررہاہو تاہے ، اب اہل اسلام اس کی وار کا
انتظار کرکے حملہ کردیں، تو یہ دفاع ہے اور اس کے مزعومہ وار سے قبل ہی اس
پر اقدام کریں، تو یہ اقدامی جہاد ہے ، دونوں اہل عقل ودانش کے یہاں حق
بجانب ہیں ۔
اب آتے ہیں آداب الجہاد ،آداب القتال ، او رآداب المعر کۃ پر تو اس حوالے
سے مسلم وغیر مسلم محققین سب ہی نے قرآن وحدیث کے تناظر میں یہ ثابت کیاہے
کہ اسلام میں جہاد کا خلاصۃ الخلاصۃ یہ ہے ،کہ جہاد ان لوگوں کے خلاف
ہوتاہے جو بالفعل مقاومت ومقابلہ کررہے ہوں’’ وقاتلوا فی سبیل اﷲ الذین
یقاتلونکم، ولا تعتدوا ‘‘ اس پرواضح نص ہے، جو لوگ دشمن میں ایسے ہوں جن
میں لڑائی کی اہلیت نہ ہو یا پھر دیگرمشاغل کی وجہ سے لڑائی میں شامل نہ
ہوسکتے ہوں، ان سے تعرض کو اسلام نے ’’اعتداء ‘‘جس کا لغوی معنی ہے ظلم
وزیادتی، قرار دے کر اس سے منع کیاہے ، جب ان سے کسی بھی نوع کے تعرض کو
ممنوع قرار دیا گیا، تو وہ املاک اشیاء وحیوانات جن میں جنگ کی استطاعت ہی
نہیں ، اسلام انہیں تباہ کرنے کا کیسے حکم دے سکتاہے ، الا یہ کہ دشمن اسے
جنگ میں وسیلہ بنائے ، تب اسباب ِ شر کے قانون کے تحت وہ چیزیں بھی لپیٹ
میں آجاتی ہیں ، مثلا ً چھاؤنیا ں ، بکتر بندگاڑیاں ، جنگی جہاز ، قلعے
درخت وغیرہ۔ پتہ چلا کہ بنیادی طور پر اسلام میں جہاد دشمن کاوجود ختم کرنے
کیلئے نہیں، البتہ دنیا میں امن وسلامتی کے لئے دشمن کی تخریبی صلاحیت
اوراس کی شرانگیزی کو ختم کرناہے ،گویاجنگ برائے امن ہی ’’ فلسفۂ جہاد‘‘ہے
، اسی لئے اسلام نے وہ آداب الجہاد،آداب القتال اور آداب المعارک متعارف
کروائے ہیں،جن کو مد نظر رکھ کراقوامِ عالم نے انٹر نیشنل ہیومن ٹیرین لاء
مرتب کیاہے اور مسلم ممالک ومفکرین نے کھلے دل سے اس قانون کو تسلیم کیا
ہے۔ |
|