صدی کا تباہ کن سیلاب کشمیر،
گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کو روندتا ہوا بحیرہ عرب کی جانب بڑھ رہا ہے،
لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے والا بے رحم پانی بڑے بڑے جاگیرداروں، رئیسوں،
وقت کے فرعونوں ص کی طاقت کا مذاق اڑاتا چھوٹی چھوٹی ’’جھگیوں‘‘ والوں کو
بھی ساتھ لے گیا۔ مسکراتے بچوں کی مسکراہٹیں چھین گیا، پاک دامن عورتوں کی
چادر چاردیواری تار تار کر گیا، عزت اور خودداری سے جینے والے بزرگ ایک ایک
نوالے کے لئے حسرت کے ساتھ آسمان کی طرف تک رہے ہیں، اخبارات دیکھتے ہیں تو
حسرت و یاس کی تصویریں ملتی ہیں، ٹی وی چینلز آن کرتے ہیں تو مصیبت زدہ لوگ
گلے پھاڑ پھاڑ کر بچاؤ، بچاؤ کی دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں، یہ سیلاب 2010ء
کی طرح آنے والی بے رحم موجوں کی طرح ایک آفت ہے، ایک عذاب ہے، اﷲ تعالیٰ
کے احکامات سے روگردانی کی سزا ہے، ہماری سستیوں، نااہلی اور گناہوں کا
ردعمل ہے۔ اﷲ کا غضب ہے، اﷲ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے ان آفتوں سے‘ ہم کمزور
انسان ہیں، کمزور ملک کے باشندے ہیں، ہم میں برداشت کرنے کی قوت نہیں، ہم
جو سیلاب سے محفوظ رہے ہیں متاثرین کی بے بسی کا مذاق نہ اڑائیں، جعلی
کیمپوں اور فوٹو سیشن سے دنیا کو دھوکہ دے سکتے ہیں، مجبور لوگوں کو نہیں
اور نہ ہی پوری کائنات کے خالق اﷲ تعالیٰ کو جو لمحوں میں دنیا کو بنانے
اور ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اﷲ ان لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہے جو صحیح
معنوں میں خدمت کا حق ادا کر رہے ہیں اور ان کو بھی دیکھ رہا ہے جو سیاست
اور دکھاوا کر رہے ہیں، خادم اعلیٰ پنجاب نے خادم ہونے کا ثبوت دے دیا،
تمام خطرات سے بے خطر میاں شہباز شریف پیدل چل کر واٹر بوٹس کے ذریعے پھنسے
لوگوں کو نکال رہے ہیں، ہیلی کاپٹر سے لٹک کر پانی میں پھنسی رعایا کو
خوراک پہنچا رہے ہیں۔ جن قوموں کے ایسے حکمران ہوتے ہیں وہ ہر طوفان کا
مقابلہ کر سکتی ہے، اور جس کے جذبے الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکنان جیسے ہوتے
ہیں وہ ہر دکھ کو ہنسی خوشی جھیل سکتے ہیں، جن کی ہمت مولانا عبدالستار
ایدھی جیسی ہوتی ہے وہ قوم کبھی نہیں مر سکتی، نوجوانوں کی طرح کام کرنے
والا، ملک کے چپے چپے میں دکھی انسانیت میں خوشی بانٹنے والا عبدالستار
ایدھی زندگی کی امید بانٹ رہا ہے، حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوۃ جس پر
حکومت کی طرف سے پابندی ہے، جسے دنیا کے فرعون ’’دہشتگرد‘‘ کہتے ہیں،
پابندی کے باوجود فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پورے جذبے کے ساتھ خدمت میں پیش
پیش ہے۔ خانیوال میں بابا اسحاق کا ادارہ خدمت خلق محدود وسائل کے ساتھ
نیکی کے کام میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اسی طرح کئی تنظیمیں اپنے محدود
وسائل کے باوجود انسانوں میں زندگی بانٹ رہی ہیں، ایسے حالات میں عمران خان
کی تحریک انصاف کو سیلاب زدگان کی خدمت کر کے دل فتح کرنے چاہئیں تھے۔
علامہ طاہر القادری کی منہاج القرآن کو اپنے ہی آبائی علاقے اٹھارہ ہزاری
کی فکر کرنی چاہئے تھی، منہاج القرآن تو ویسے ہی خیراتی ادارہ ہے، لوگوں کے
چندوں سے لوگوں کی امداد کے لئے بنایا گیا تھا، افسوس کہ اقتدار کی کرسی
کیلئے اٹھنے والی آواز کے نیچے سیلاب زدگان کی ’’چیخیں‘‘ دب گئیں اﷲ کی
رحمت ہو ان سب لوگوں پر جو مصیبت کے وقت اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ رہے ہیں،
عالمی برادری، مخیر حضرات، صاحب استطاعت لوگ فنڈز ان لوگوں کو دے سکتے ہیں،
یہ لوگ پوری دیانت کے ساتھ خرچ کر رہے ہیں، تم مت دو اپنی امداد ایسے شخص،
ایسی تنظیم کو جس کے ہاتھوں سے کرپشن کی بو آتی ہو، پاک آرمی کے کیمپوں میں
چندہ دو جس کے سجیلے جوان ہر آفت، ہر مصیبت میں اپنی قوم کا ساتھ دیتے ہیں
جنگ کے میدانوں میں سینے پہ گولی کھاتے ہیں تو سیلاب میں تیز پانی کی لہروں
سے کھیلتے ہیں، ہواؤں میں عقابوں کی طرح پرواز کرتے ہیں تو خشکی پر شیروں
کی طرح دشمن پر دھاڑتے ہیں، سلام ہے اُن ماؤں کو جن کی کوکھ سے ایسے سپوت
جنم لیتے ہیں، سلام ہے صوبیدار عناب گل شہید کو جو باراتیوں کو بچاتے ہوئے
بے رحم لہروں سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کر گیا، سلام ہے جنرل راحیل شریف
کی سپہ کو جو وزیرستان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، یہ وقت بیداری
کا ہے، بھائی چارے کا ہے، اتحاد اور محبت کا ہے، دکھ اور درد میں گھری
انسانیت کو خوشیاں لوٹانے کا ہے، عید قربان قریب ہے اپنے بچوں کی طرح سیلاب
متاثرین اور آئی ڈی پیز کے بچوں کو نہ بھولنا ، عورتیں چار دیواری مانگ رہی
ہیں، بوڑھے عزت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، بچے اپنی مسکراہٹیں مانگ رہے ہیں،
اے ہم وطنو! سیاست کو چھوڑو، یکطرفہ صحافت کو دفعہ کرو، تاجرو! نیکی کی
تجارت کرو۔ اپنے بچوں کی خوشیوں کو دیکھتے ہوئے ان بچوں کی خوشیوں کو یاد
رکھو جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں میری ہنسی مجھے لوٹا دو، میری ہنسی مجھے
لوٹا دو۔ |