محبت چاہتی ہے ،پھروہی بیٹے کی قربانی
(محمدشارب ضیاء رحمانی , NEW DELHI )
حضرت ابراہیم علیہ السلام’’ جن
کی ایک اہم یادگار کوہم منانے جارہے ہیں‘‘ ،ان کی پوری زندگی پر اگرنگاہ
ڈالی جائے تویہی پتہ چلے گا کہ انہوں نے خداوندقدوس کی محبت میں اپنے وجود
کو ہی فنا کردیا تھا ،جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں زندگی جاوید سے نوازااور
قیامت تک ،ان کی اداؤں کی بھی حفاظت فرمائی۔چنانچہ قربانی کو اس کے وسیع
مفہوم میں دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بظاہر چھوٹاسالفظ ہے،مگریہ لفظ
اپنے مفہوم کے لحاظ سے بے پناہ وسعت رکھتاہے۔جان ومال اوقات ولمحات ،آرزؤں
اور خواہشات کی قربانی دے کر ہی جاہ ومنصب اور خوشحالی کا مزہ حاصل
ہوسکتاہے ۔قربانی اسلام کی روح اوراس کا مطالبہ ہے ۔یہ درحقیقت ایثار نفس
کے اظہارکا ایک محسوس طریقہ ہے جو گوشت کھانے ،کھلانے اور خون بہانے کانام
نہیں ،بلکہ اپنے اندر جذبۂ ایثار کی روح بیدار کرنے کا نام ہے اور اس مزاج
کو پیدا کرنے کا نام ہے جس کی وجہ سے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے
فرمایاگیا یؤثرون علیٰ انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ۔معلوم ہو اکہ قربانی کا
مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے مفاد اور اغراض کو مفاد عامہ پرقربان کردے۔دوسروں
کی ضروریات کو ،اپنی ضروریات پر مقدم رکھے۔اوراپنے پورے وجود کو رضائے
الٰہی کی خاطر فناکردے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی میں اسی کا
سبق ملتا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے مفاد کو ترجیح نہیں دی بلکہ اپنے پورے
وجود کو ہی خداتعالیٰ کے احکام کے سامنے جھکادیاتھا ۔اذقال لہ ربہ اسلم قال
اسلمت لرب العٰلمین :جب اس کے پروردگارنے اس سے کہا جھک جا،تو اس نے کہا
میں جھک گیا رب العٰلمین کیلئے ۔اور پوری زندگی اس کا عملی ثبوت بھی دیتے
رہے۔اسی براہیمی جذبہ کو پیداکرنے کیلئے قربانی کا حکم دیا گیا ،تاکہ
مسلمانوں میں دوسروں کیلئے بھی جینے کا مزاج پیداہوجائے۔مفاد پرستی ،خود
غرضی،بزدلی جیسی بیماریاں ،جوامت کیلئے ناسور کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کے
وجود کیلئے ہی خطرناک ہیں ،ان بیماریوں کا سد باب ہو سکے ۔اوراسی ذہن سازی
کے لئے سال میں ایک مرتبہ،امت کو دئے گئے اسباق کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے
۔حقوق العباداوراخلاقیات کی طرف اسلام نے باربارتوجہ دلائی ہے ۔
لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی سرد ہو گیا ہے ان کی ابراہیمی
اور محمدی شان ختم ہوگئی ہے ۔انہوں نے اپنی خواہشات اوراپنے جذبات کے آگے
،دین کو قربان کرناشروع کردیاہے ۔دوسروں کے لئے قربان ہونے اور قربانی دینے
کاجوسبق ہمیں دیا گیا تھا اسے ہم نے بھلادیااور’’ قربانی‘‘ اسی کو سمجھنے
لگے کہ اچھے سے اچھے اورگراں قیمت جانور بطور تفاخر خریدیں جائیں اوریہ
اشتہار دلوایا جائے کہ فلاں صاحب نے اتنے مہنگے جانور خریدے ،خداکی قسم یہ
اسلام کی روح کے منافی ہے اور اس کی تعلیمات کے ساتھ کھلواڑہے۔اللہ کے
نزدیک گوشت اور خون نہیں پہونچتے بلکہ وہ اخلاص اور وہ جذ بہ پہونچتاہے جس
کے ساتھ قربانی کی گئی ہے’’لن ینال اللہ لحومھا ولادماءھا ولکن ینالہ
التقویٰ منکم‘‘ ۔ ساتھ ساتھ ہما رے سامنے آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی سامنے رہنا
چاہئے’’انماالاعمال بالنیات،اعمال کا دارومدارنیت پرہے ‘‘ظاہر ہے جب نیت وہ
نہیں ،جواس قربانی کا مقصد ہے تو اس کے مثبت نتائج کیسے سامنے آسکیں گے۔
اور جب ہم نے اس کے مقصد کو بھلایااور خدا کے احکام کے ساتھ لاپروائی برتی
تواللہ نے بھی ہماری قربانی لینی شروع کردی ۔ہماری جان اورہمارے مال کو
غیروں کے لئے سستاکردیا ۔ اقبال نے تو اسی کا رونا رویاہے۔ رگوں میں وہ لہو
باقی نہیں ہے وہ دل ،وہ آرزو باقی نہیں ہے نمازوروزہ وقربانی وحج یہ سب
باقی ہیں تو باقی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف سے دی گئی قربانی،آج ان
کی روحانی اولاد’’امت مسلمہ‘‘سے اسی جذبہ کے پیداکرنے کامطالبہ کرتی ہے
جواس کامقصد ہے ۔آج حالات کسی اور چیزکامطالبہ کرہے ہیں ۔اورمحبت چاہتی ہے
،پھر وہی بیٹے کی قربانی ۔ |
|