کانوں کو متعدد آوازیں بھلی معلوم ہوتی ہیں جیسے کہ دھیمی
موسیقی ،سریلے نغمے اور چڑیوں کی چہچہاہٹ وغیرہ۔ مگر جب کوئی آواز ناگوار
گزرے یا اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کو متاثر کرنے لگے تو ہم اسے شور کا نام
دیتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہمارے کس حد تک نقصان دہ ہے؟ اس بارے میں جاننے کے
لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف ای این ٹی سرجن ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی سے
خصوصی بات چیت کی- ڈاکٹر امتیاز اب تک شور کی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے
مختلف ممالک میں منعقد کیے جانے والے کئی سیمینار میں شرکت کر چکے ہیں اور
ساتھ ہی اس حوالے سے کئی آرٹیکل بھی لکھ چکے ہیں-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ سب سے پہلے شور کی تعریف کے بارے میں معلوم
ہونا چاہیے کہ شور کہتے کسے ہیں؟ شور سے متعلق بہت کم لوگوں کو آگہی ہے-
شور ہماری زندگی میں آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے- اور اگر شور حد سے بڑھ جائے
اور ہم مستقل اس کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی
ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ شور اسی دن پیدا ہوگیا تھا جس دن ٹیکنالوجی نے جنم
لیا تھا- اور ٹیکنالوجی اس دن پیدا ہوئی جب انسان نے پہیہ ایجاد کرلیا-
پہیہ ہمارے آباؤ اجداد سے لے کر آج تک ہماری ٹیکنالوجی کا ایک اہم رکن ہے“-
“ جس دن پہیہ وجود میں آیا اس نے شور مچانا شروع کر دیا اور اسی دن سے شور
ہماری زندگی میں داخل ہوگیا“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ بنیادی طور پر شور تین حصوں میں تقسیم ہے٬ پہلا
ٹریفک کا شور٬ دوسرا ہوائی جہازوں کا شور جو کہ ائیرپورٹ اس کے ملحقہ
علاقوں میں پایا جاتا ہے اور تیسرا صنعتی شور“-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو سماعت دی ہے یا سننے کی
طاقت عطا کی ہے وہ 86 decibel تک کا شور برداشت کر سکتی ہے- لیکن جب شور اس
حد سے بڑھنا شروع ہوتا ہے تو سماعت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آواز
دماغ تک پہنچ جاتی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے
مضر اثرات بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں“-
“ 86 decibel میں تمام اقسام کے شور شامل ہوتے ہیں٬ چاہے وہ ٹریفک کا شور
ہو٬ جہازوں کا شور ہو یا پھر کارخانوں میں چلنے والی مشینوں کا“-
“ جو بھی شخص روزانہ 8 گھنٹے تک اور مسلسل کم سے کم 6 ماہ تک اس شور میں
موجود رہے گا اس کی سماعت میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی-
اور اس کمی کا احساس بھی اسے بالکل نہیں ہوگا“-
|
|
“ اس کے علاوہ شور کے مضر اثرات ہمارے جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں- تحقیق نے
ثابت کیا ہے کہ شور کی وجہ سے ہماری نیند میں خلل واقع ہوتا ہے اور ہم صحیح
طرح سو نہیں پاتے“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ شور ہمارے خون پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس کا
نتیجہ بعض اوقات ہارٹ اٹیک کی صورت میں نکلتا ہے“-
“ اسی طرح جب انسان رات کو شور کے باعث اپنی نیند مکمل نہیں کرپائے گا تو
صبح اپنی ملازمت بھی درست انداز میں نہیں کر پائے گا اور اس کی کارکردگی
بھی متاثر ہوگی“-
“ جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں اس کی علامت یہ ہے کہ ایسے انسان کو
اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جبکہ یہ آواز ماحول
میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل
ہوجاتی ہے“-
“ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت ہوتی ہے جبکہ بعض افراد کو
اونچا سنائی دینا لگتا ہے- اونچا سنائی دینے کے عمل کو سب سے پہلے گھر والے
نوٹ کرتے ہیں“-
“ اس کو یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک شخص ٹریفک پولیس کا اہلکار یا کسی فیکٹری
میں ملازم ہے اور مشینوں پر کام کرتا ہے تو وہ جب گھر میں داخل ہوگا اور
گھر والے ٹی وی دیکھ رہے ہوں گے تو ملازم یا اہلکار ریموٹ اٹھا کر ٹی وی کی
آواز کو مزید اونچا کردے گا- کیونکہ اسے اتنی آواز سننے میں دشواری کا
سامنا ہوگا جتنی آواز میں باقی گھر والے ٹی وی دیکھ رہے تھے“-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ فیکٹری کے شور کو کم کروانے کے لیے ماحولیاتی
اداروں کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً فیکٹریوں کا دورہ کرتے رہیں اور انہیں شور
کو کم کرنے کے لیے پابند کریں کہ وہ شور کو 86 decibel سے کم کریں تاکہ
سماعت کو نقصان نہ پہنچیں“-
“ ٹریفک کے شور سے بھی حفاظت ممکن ہے- اس کے لیے غیر ضروری ہارن نہ بجائیں
اور ساتھ ہی پریشر ہارن٬ شور مچانے والے رکشے کے انجن اور بغیر سائلنسر کی
موٹر سائیکلوں پر کنٹرول کیا جائے- اس کے جیسے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اوور
ہیڈ برج اور انڈر گراؤنڈ پاس بنائے جارہے ہیں اس سے بھی شور میں کمی واقع
ہوتی ہے کیونکہ اس طرح ٹریفک دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے“-
“ کچھ عرصہ قبل جس طرح بڑے پیمانے پر درخت لگائے گئے ہیں یہ بھی شور کو کم
کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ درخت شور کر جذب کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں“-
“ اس کے علاوہ جس طرح دنیا کی ترقی یافتہ ممالک یا شنگھائی میں سڑکوں پر
شور کی پیمائش کرنے والے میٹر نصب کیے گئے ہیں جس پر شور کے مقررہ سے حد
بڑھتے ہی وہاں کی ٹریفک پولیس حرکت میں آتی ہے اور ٹریفک کو تقسیم کر کے
متبادل راستوں پر ڈال دیتی ہے ایسے ہی سسٹم یہاں بھی نصب کیے جائے- کیونکہ
ٹریفک کو تقسیم کرنے سے شور میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے“-
“ اسی طرح اگر فیکٹری میں شور کم کرنا ممکن نہ ہو تو ورکرز کو HEARING
PROTECTION DEVICES مہیا کی جائیں جنہیں پہن کر ورکروں کی سماعت محفوظ رہ
سکے اور یہی ڈیوائسز ائیرپورٹ کے رن وے پر موجود اہلکاروں کو بھی مہیا کی
جائیں اور کوشش کی جائے کہ ائیرپورٹ رہائشی علاقوں سے دور بنائے جائیں“- |
|
|