﷽
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سورۃ الفاتحہ
"الفاتحہ" لفظ فتح سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں "بندش کو کھولنا" یا "شروع
کرنا"
قرآنِ مجید کا آغاز سورۃ فاتحہ سے ہوتا ہے۔
سورۃ الفاتحہ کے بہت سے اور نام بھی ہیں۔ الحمد، ام القرآن ، ام الکتاب،
الشفاء، الرقیہ، والصلوٰۃ (دعا) ، السبع المثانی(بار بار دہرائی جانے والی
سات آیات)۔
ترتیب نزولی کے لحاظ سے پانچویں (۵) نمبر پر ہے۔
یہ پہلی سورت ہے جو کہ پوری ایک ساتھ اُتری۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیلؑ رسول اللہ
ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک زور دار آواز آئی۔ حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا ۔ "یہ
آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اور ایک فرشتہ ہے جو
آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ وہ فرشتہ نبی پاک ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ
نے آپ ﷺ کو دو نور عطا کیے ہیں جو آج سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں دیے گۓ ،
سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ جو بھی ان کو پڑھے گا، اسکے
ساتھ طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جاۓ گی۔" (صحیح مسلم)
اَعُو٘ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیطَٰنِ الرّجِیمِ
ترجمہ: میں پناہ طلب کرتی ہوں اللہ کی شیطان مردود سے۔
جب بھی ہم کوئی نیکی کا کام کرتے ہیں تو شیطان اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔
اللہ کی راہ پر جب ہم چلتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں تو شیطان اور ذیادہ کوشش
کرتا ہے کہ قرآن پڑھ کر بھی ہم بھٹکیں۔ اس لیے قرآن پڑھنے سے پہلے شیطان سے
اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے ۔
پارہ ۱۴ سورۃ النحل آیت ۹۸ میں ارشاد ہوتا ہے۔ " قرآن پڑھتے وقت راندے ہوۓ
شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر لیا کرو"۔
بِسم اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان، بار بار رحم کرنے والا ہے
جب بھی انسان کوئی نیا قابل ذکر کام کرتا ہے تو کسی کے بھروسے پر کرتا ہے ۔
کبھی اپنی طاقت، کبھی قابلیت، مال و دولت، علم، سمجھداری، کبھی دوست و
اقارب کے بھروسے پر۔ یہ سب اسباب ہیں، اللہ کہتا ہے کہ ان اسباب کا استعمال
کرو مگر ان پر بھروسہ نہیں، بھروسہ صرف اللہ کی قدرت ، طاقت اور مدد پر
کرنا ہے۔ اسباب پر بھروسہ کرنا تو کفار کا شیوی ہے۔ مومن تو اللہ پر بھروسہ
کرتے ہیں
اپنی صرف کوشش، باقی سب اللہ کا۔
حدیث ہے کہ ہروہ قابلِ اہتمام کام جس کا آغاز بسم اللہ سے نہ کیا جاۓ ، وہ
امر مقتول ہے۔ (بے برکت )
اور اہم ترین کاموں میں میں سے اہم ترین کا قرآن کا پڑھنا ہے اس لیے قرآن
پڑھنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------------
آیت نمبر 1:
اَلحَمدُ لِلہِ رَبِّ العٰالَمِینَ۔
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
اَلحَمدُ لِلہِ
حمد : نعمت کا اعتراف کرنا
بندہ مومن ہر خیر و بھلائی ملنے پر دینے والے کو یاد کرتا ہے اور اس کا
مشکور ہوتا ہے۔ یہ کلمہ خالق و مالکِ کائنات کو خوش کر دیتا ہے۔ حدیث:
الحمد للہ کاکہنا میزان کو بھر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم ، نسائی)۔
الحمد للہ سب دعاؤں سے افضل ہے۔ (نسائی، ترمزی)
نعمتوں کے اعتراف میں محبت اور جزبات کے جو بے ساختہ کلمات منہ سے نکلیں وہ
اللہ کو بہت پسند ہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: " جب
اللہ اپنے بندے کو نعمت عطا کرتا ہے اور بندہ اس پر الحمد للہ کہتا ہے تو
گویا اس کو جو ملا، اُس نے اس سے بہتر دے دیا۔"
رَبِّ العٰالَمِینَ۔
رب کہتے ہیں کسی چیز کو عدم سے وجود میں لا کر آہستہ آہستہ ذرے سے کمال تک
پہنچانے والا۔ محبت، شفقت، امانت، حفاظت، اور نگہداشت کرنے والا۔ اللہ کے
سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ وہی رب ہے ہمارا بھی ، اور تمام جہانوں کا ، صرف
ہمارے جہاں کا نہیں، تمام جہانوں۔
عالمین عالم کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے وہ چیز جس سے کوئی جانا جاۓ، کوئی
پہچانا جاۓ۔ یعنی ہر وہ چیز جس سے اس کے بنانے والے کو پہچانا جاۓ۔
اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں، کوئی ایسی مخلوق نہیں، کوئی ایسی دنیا نہیں،
کوئی ایسا نظام نہیں، جو اللہ کی پہچان نہ کرواۓ۔ ہر ہر زرہ اس کی نشانی
ہے۔ اور ہر چیز کا رب وہ ایک اللہ ہے۔
آیت نمبر 2:
الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۔
ترجمہ: بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اللہ کی صفات بیان کی گئ ہیں، جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے،
یعنی اللہ بہت ہی ذیادہ رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفات بھی دیگر صفات
کی طرح دائمی ہیں۔
وہ ہمیں عطا کرتا ہے ،ہم گناہ کرتے ہیں ، وہ درگزر کرتا ہے، ہم نافرمانی
کرتے ہیں، وہ پھر بھی دیتا ہے، دیتا چلا جاتا ہے، ہم اُس کی ایک نہیں سنتے
، وہ ہماری فرمائشیں پوری کرتا رہتا ہے، وہ اسے بھی دیتا ہے، جو اُسے مانتے
ہیں، وہ انہیں بھی عطا کرتا ہے جو اُس کا انکار کرتے ہیں۔ وہ اتنا عطا کرتا
ہے کہ ہم گن نہیں سکتے، اور ہم اتنی ناشکری کرتے ہیں کہ حد نہیں ، وہ پھر
بھی نہیں روکتا۔ بار بار عطا کرتا ہے۔ وہ اللہ ہی تو ہے جس کی یہ اعلٰی
صفات ہیں، اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
وہ الرحمٰن ہے، سب جہانوں کے لیے، یہ اس کی رحمتِ عام ہے، جو اہل ایمان پر
بھی ہے اور اہلِ انکار پر بھی، نیکو کاروں کے لیے بھی اور گناہ گاروں کے
لیے بھی، تمام مخلوقات کے لیے۔
اور وہ الرحیم ہے۔ یہ اس کی رحمتِ خاص ہے جو صرف اہلِ ایمان کے لیے ہے۔
آٖخرت میں وہ صرف الرحیم ہو گا۔
آیت نمبر 3:
مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ ۔
ترجمہ: بدلے کے دن کا مالک ہے۔
دنیا میں بھی اگرچہ مکافاتِ عمل کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے ، تاہم اس
کا مکمل ظہور آخرت میں ہو گا اور اللہ تعالٰی ہر ایک کو اُس کے اچھے اور
برے اعمال کے مطابق سزا اور جزا دیں گے، اور اللہ کو حساب لینے میں کوئی
دیر نہیں لگتی۔ اسی طرح دنیا میں عارضی طور پر کئ لوگوں کے پاس تحت الا
سباب اختیارات ہوتے ہیں۔ لیکن آخرت میں تمام اختیارات کا مالک صرف اور صرف
اللہ ہو گا۔ پارہ ۳۰ سورۃ الانفطار آیت ۱۷-۱۹ میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
ترجمہ: تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے (۱۷)
پھر تجھے کیا معلوم کہ بدلے کا دِن کیا ہے (۱۸)
جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لیے کسی چیز کا مختار نہ ہو گا، اور احکام اس
روز اللہ کے ہی لیے ہوں گے (۱۹)
اللہ کی ہی قدرت ہے۔ پارہ ۲۴ سورۃ المؤمن آیت ۳ میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: گناہ کا بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب والا، انعام
و قدرت والا، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (۳) |