قرآن کیوں اور کیسے سیکھا جاۓ؟

انسان کو ہر اس علم کے لیے حریص ہونا چاہیے جو انسان کے لیے نفع مند ہو۔ وہ علم جس سے انسان کو بھلائی ملے۔ اور قرآن ہی وہ علم ہے جس سے انسان کو دنیا اور آخرت کی مکمل اور دائمی بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔

سورۃ یونس آیت 58 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ، "قرآن ہر اُس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کر رہے ہیں"

ہر انسان اپنی زندگی میں کچھ ترجیحات مقرر کرتا ہے۔ انسان کی ترجیحات اس کے ماحول سے متاثر ہوتی ہیں۔ وہ چیز سے متاثر ہوتا ہے وہی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں پا کر بھی تشنہ رہتا ہے، ذیادہ سے ذیادہ کی طلب رہتی ہے، مگر جب بات آتی ہے دین کی تو تھوڑے سے پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔ حالانکہ تمام نعمتوں سے اعلٰی نعمتِ اسلام ہے۔ جو اس بھلائی سے محروم رہا وہ ہر خیر و بھلائی سے محروم رہ گیا۔ اور انسان اپنی ساری زندگی اس نعمت کو پیٹھ پیچھے ڈال کر کامیابی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ جو اصل ہے کامیابی کی، اسے چھوڑ دیا تو پھر کامیابی کہاں سے آۓ گی ۔

اصل خوش قسمت وہ ہے جو حقیقت کو پا لے، اپنی حقیقت، دنیا کی حقیقت، فلاح و کامیابی کی حقیقت، بھلائی اور بڑائی کی حقیقت۔

اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ پانے کےلیے کچھ کھونا پڑتا ہے، قربانی دینی پڑتی ہے اپنی عزیز چیز کی، کبھی اپنے پسندیدہ مشغلے کی، کبھی اپنے وقت کی، کبھی مال کی، کبھی رشتوں کی۔ اور جتنی بڑی قربانی اتنا ذیادہ پھل ملے گا۔ ہمیں صرف یہ موازنہ کرنا ہے کہ ہم کیا چھوڑ رہے ہیں اور کیا پانے جا رہے ہیں؟ چھوڑنے والی چیز کی کیا قیمت ہے اور جو پا رہے ہیں اس کی کیا قدرو قیمت ہے؟ اور قیمت کا تعین اپنی نظر سے نہیں کریں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے، اپنے مالک کی نظر سے کریں کہ حقیقی اور دائمی فلاح اور کامیابی کے لیے کس چیز کا حصول ضروری ہے، قبر کے امتحان میں، حشر کے میدان میں، رب کے سامنے، پلِ صراط کے میزان میں کون سی چیزیں ہمیں سرخرو کریں گی۔ ہمیں ان ضروریات میں انویسٹ کرنا ہے۔ آؤٹ آف کورس سوالات میں نہیں الجھنا۔

اس کامیابی کے حصول کے لیےہمارا way of action ہے اللہ کا راستہ۔ اس راستے پر چلنے کی توفیق اللہ اُن کو دیتا ہے جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اور اللہ اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے، جو ہدایت اور بھلائی کا طلبگار ہو۔ علم سیکھنے سے محبت ، علم کا سیکھنا، سمجھنا، غور و فکر کرنا، عمل کرنا ، اور آگے پھیلانا، یہ بہت اہم اور عظیم کام ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر 1 لاکھ 40 ہزار کے اجتماع کو حضرت محمد ﷺ نے یہ نصیحت کی تھی، "مجھ سے آگے پہنچاؤ ۔ خواہ ایک آیت ہو"-

وہ سب کے سب لوگ عالم نہیں تھے، بہت سے لوگ نو مسلم تھے، جو کہ اسلام قبول کرتے ہی حج کے لیے آ گۓ تھے۔ مگر آپﷺ نے سب کو قرآن کا علم حاصل آگے پہنچانے کی تاکید کی۔ قرآن کا علم سیکھانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہم پہلے خود سارا علم حاصل کریں اس کے بعد دعوٰی کا کام کریں۔ نہیں بلکہ ساتھ ساتھ دونوں کام، سیکھنا اور سکھاتے جانا ہے، پہلے دن سے سیکھنے والے کے ساتھ سکھانے والے بننا ہے، جو بھی سیکھیں ، آگے شئیر کر دیں، اس راہ میں تنہا نہیں چلنا ، اپنے عزیزوں اور پیاروں کو ساتھ لے کر چلنا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے ہمارے کسی قریبی کو ہماری مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم ضرور اس کی مدد کرتے ہیں، اسے مصیبت میں اکیلا نہیں چھوڑتے، یہاں تک کے کسی اجنبی کو بھی پریشان دیکھتے ہیں تو اخلاقاً پوچھ ہی لیتے ہیں کہ may I help you???

تو پھر کیوں اس حقیقی کامیابی کے سفر میں ہم ان کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں ، یہ تو انتہا درجے کی خود غرضی ہے۔

جو دوسروں کا بھلا کرتا ہے اللہ اس کا بھلا کرتا ہے،اور کسی کے ساتھ اس سے بڑی بھلائی کوئی نہیں کہ ہم اس کی آخرت سنوارے میں مدد کریں۔ دنیا کی مدد تہ عارضی اور فانی ہے، سب مشکلات عارضی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل تو یوم الحساب ہے، اس دن ذرہ برابر بھی نیکی فیصلہ کن ہو گی، اور اگر ہم کسی کے اعمال نامے میں اس ذرہ برابر نیکی کے اضافے کا سبب بنتے ہیں، تو یہی ہے اصل مدد اور بھلائی۔

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ انسان کو ہر وقت بھٹکانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اللہ کے راستے پر چلیں ، قرآن سیکھیں اور سکھائیں اور شیطان آڑے نہ آۓ، جو بھی اللہ کے طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، شیطان اُس کو بھٹکانے کے لیے اپنا پورا زور لگا دیتا ہے۔ تو شیطان کے واروں سے بچنے کے لیے ہمیں پناہ چاہیے اور اللہ سے زیادہ مضبوط پناہ ہمیں اور کون دے سکتا ہے، اپنے آم کو اللہ کی حفاظت میں دے دیں۔ شیطان ، وسوسوں ، اور نفس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ سے مدد طلب کریں۔

"حضرت صفوان بن اثال رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں علم سیکھنے آیا ہوں، حضورﷺ نے فرمایا، طالبِعلم کے لیے خوش آمدید۔"

فرشتے طالب علموں سے محبت کرتے ہیں، اور ان پر سایہ فگن ہوتے ہیں۔

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میرے بعد تمھارے پاس لوگ میری حدیث پوچھنے آئیں گے۔ جب وہ آئیں تو ان سے لطف اور شفقت سے پیش آنا۔"

ایک حدیث کے مطابق جو مسجد میں اس ارادے سے جاۓ کہ بھلائی سیکھ لے اور سکھاۓ تو اسے ایک حاجی کا اجر ملتا ہے، جس نے اپنا حج مکمل کیا۔

ہم نے اپنی نیت کو صرف اللہ کے لیے خالص کرنا ہے ، خیر و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے، علم سیکھنے اور سکھانے والوں کے حق میں بد گمانی نہیں کرنی۔ اصل اور دائمی خوش قسمتی اور کامیابی پانے کی جستجو کرنی ہے اور اس سلسلے میں اگر قربانی دیں تو اس پر regret نہیں کرنا۔
قرآن سیکھنے کے بعد انسان دنیا کو اور نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت کا چشمہ ہے جس میں ہر چیز کی اصل نظر آتی ہے، جو کہ قرآن کی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔

یہ وقت جو ہم قرآن کی تعلیم کو سیکھنے اور سکھانے میں لگائیں گے، یہ ہماری investment ہو گی، جس کا نفع ہمیں دنیا اور آخرت میں ملے گا، یہ دنیا کی واحد investment ہے کہ جس میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں۔ ہم کوئی بھی کام کرتے ہیں ، دو طرح سے کرتے ہیں، (1) جیسے تیسے کر کے پورا کر لینا، (2) احسن طریقے سے کرنا یعنی کہ خوبصورتی کے ساتھ کرنا۔

اب جو اس وقت کا استعمال کرنا ہے ، وہ امانت سمجھ کر احسن طریقے سے کرنا ہے، امانت کا پورا حق ادا کرنا ہے۔

ہم لوگ قرآن کی کتنی تعظیم کرتے ہیں کہ بلند جگہ پر ہو، اس کی طرف پیٹھ نہ ہو، نیچے نہ ہو، بغیر وضو کے ہاتھ نہیں لگانا۔ اللہ کا نام لے کر اٹھانا ہے۔ مگر عملی زندگی میں ہم نے قرآن کی تعلیمات کو پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے، حق تو یہ ہے کہ ہم اپنے عمل میں قرآن کی تعلیمات کو implement کریں، اپنی ترجیحات میں اس کے سیکھنے تو سب سے اوپر رکھیں، کوئی بھی معاملہ کرتے ہوۓ اللہ کے احکامات کو سامنے رکھیں۔


ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، اور کامیابی وہ ہوتی ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری ناکامی نہ جڑی ہو۔ انسان ہرلحاظ سے کامیاب ہو۔

کامیاب زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔
1) جسمانی پہلو: یعنی کہ انسان صحت کے لحاظ سے بلکل ٹھیک ہو۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : "تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے"۔ اس حق کو ادا کرنے کے لیے متوازن غذا، آرام، موسموں کی شدت سے بچاؤ ضروری ہے۔
2)دماغی پہلو: جب انسان صحیح طریقے سے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکے، فوبیا سے دور رہے، سیلف کنٹرول رکھ سکے، خود ترسی سے مکمل طور پر پرہیز کرۓ۔ مثبت سوچ اپناۓ۔
3) جزباتی پہلو: جزبات انسانی زندگی میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں مگر تب تک جب وہ ایک حد کے اندر رہیں۔ اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ جب بھی مرضی کے خلاف کچھ ہو تو اسے اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ جزباتی پختگی سیکھنے کے عمل کو تیز کرتی ہے اور زندگی کو سہل بناتی ہے۔
4) معاشرتی پہلو: تنہائی پسند ہونا، تعلقات کی پرواہ نہ کرنا، غلط رویہ اپنانا، یا پھر حد سے زیادہ سوسائٹی میں انوالومنٹ ، یہ سب social sickness کی علامات ہیں۔ معاشرتی تعلقات میں ایک توازن رکھنا ضروری ہے۔
4) روحانی پہلو: اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق کا ہونا۔
جس کا کل آج سے اچھا نہیں وہ برباد ہوا۔ دن بدن انسان کی روحانی ترقی ضروری ہے۔
Balanced life in all these aspects is a successful life.

اگر ان میں سے ایک کا توازن بھی بگڑ گیا تو کامیابی ابھی ادھوری ہے۔ مکمل کامیابی میں دنیا اور اخروی پہلو دونوں آ جاتے ہیں۔
I. قرآن سیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں۔
II. اپنی نیت کو اللہ کے لیے خالص کر لیں۔
III. دل و دماغ کو حاضر رکھیں۔
IV. علم کو قبول کریں۔ ( سنیں/ پڑھیں، سمجھیں، غوروفکر کریں، سوال کریں، عمل کریں، درست طریقے سے علم کو آگے پینچا دیں)۔
V. اور convey کرنے کے کام میں جو بھی رکاوٹ آۓ اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔
VI. اپنے مقصد پہ فوکس کریں۔
VII. اپنا محاسبہ خود کرتے رہیں۔

اگر ہمیں دیکھ کر کوئی ایک انسان بھی ہدایت پا گیا تو یہ ہمارے لیے سو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
اور اگر ہمارے کسی عمل کی وجہ سے کوئی دین سے دور بھاگا تو ہمارے لیے تباہی اور بربادی ہے۔
اور آخر میں ایک اور بات کہ اس کائنات کے خالق و مالک، رب ذولجلال نے اپنا کلام دینے کے لیے ہم انسانوں کو چنا۔ اللہ نے ہماری قسمت کو اتنا بلند کر دیا، مگر ہم نادان ہیں کہ زمین کی طرف جھکتے جا رہیں ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین
desert rose
About the Author: desert rose Read More Articles by desert rose: 13 Articles with 18017 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.