بات اتنی پرانی تو نہیں ہے مگر
جب حادثات سے پُر ملک خدادا د پاکستان کی بات کی جائے تو پھر کل کی بات بھی
سو سالہ پرانی لگتی ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو جس روز گولیاں ماری گئی اس روز یہ ملک آگ میں جلتا
راقم نے دیکھا تھا حادثہ واقعی بہت دکھ بھرا تھا ۔ اسی روز میرے شہر میں
ایک چوک کی تزئین و آرائش مکمل ہوئی تھی جو خوب صورتی کا شاہ کار بنایا گیا
تھااس چار میٹر قطر کے گول چوک پر لاکھوں روپے لگائے گئے تھے پیسے تو خیر
تزئین آرائش کے مقابلے میں بہت زیادہ لگائے گئے تھے مگر چوک ایک دیکھنے کی
چیز بنا تھا اور اس ایک چوک کی وجہ سے شہر کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ
ہوا تھا۔ مگر اس چوک کے ساتھ کیا ہوا؟اس بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
حسرت ہے ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے-
اس بندہ کے سامنے لوہے کے راڈوں سے وار کر کر کے لاکھوں روپے منٹوں میں
ضائع کر دیے گئے ۔توڑ پھوڑ کے اس عمل کے بعد یہ چوک آگ سے دھویا گیااور اس
چوک پر جو جو ظلم ہوا اس کی گواہی یہ چوک آج بھی سالہا سال گزرنے کے بعد
دیتا ہے۔
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے جس میں اس قوم نے اپنا ہی نقصان کیا ورنہ اس تاریخ
میں ایسے بیسیوں واقعات ہیں جس میں یہ قوم اپنے ہی پیسوں سے بنائی گئی
چیزوں کو اپنے ہی ہاتھوں روندے تاریخ کا حصہ بنی ۔ ویسے اس قوم کی مثال اس
طالب علم کی سی ہے کہ جو اپنے مستقبل اور اپنے فائدے کے لیے سکول میں داخل
ہوتا ہے مگر نہ پڑھ کر نقصان نہ سکول کا کرتا ہے نہ اساتذہ کا اور نہ ہی
سکول ایڈمنسٹریشن کا ۔۔۔۔حقیقت میں نقصان وہ اپنا ہی کرتا ہے ۔بالکل اسی
طرح یہ قوم جب کسی حادثے یا سانحہ میں مبتلا ہوتی ہے تو حادثے یا سانحہ کا
ازالہ یہ توڑ پھوڑ سے کرتی ہے توڑ پھوڑ بھی ان چیزوں کی جو اسی قوم کے بے
پناہ ٹیکسوں سے بنتی ہیں ۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد وہ اندیشہ ہے جو مجھے چند دن پہلے میٹروبس سروس
دیکھ کر ہوا ۔ چند دن پہلے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو میٹرو بس سروس بھی
دیکھی ۔سروس صرف دیکھنے کی ہی جسارت کر سکا کیوں کہ بچوں ، بوڑھوں خاص کر
عورتوں کو جب اس بس میں پھسا پھنسا کھڑے دیکھا تو بیٹھنے کی ہمت جسم سے اور
خواہش دماغ سے سرایت ہی کر گئی ۔لاہور لوگ داتا دربار ، بادشاہی مسجد ،
مینار پاکستان اور شاہی قلعہ کو دیکھنے آتے تھے اور اب بھی آتے ہیں ان
تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ میرے جیسے پینڈو اب میٹرو بس سروس دیکھنے بھی
آتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ترقی کی طرف ایک نہیں چار قدم
ہیں ۔بہر حال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے جیسے لوگ جو لاہور کے تاریخی
مقامات کے لیے لاہور آتے ہیں کب تک میٹر و کے لیے بھی لاہور آئیں گے؟تو ڑ
پھوڑ کی پاکستانی تاریخ دیکھی جائے تو ایک اندیشہ سا جنم لیتا ہے کہ اس
حکومت کے جاتے ہی پاکستانی قوم نے اس میٹرو سروس کو تباہ و برباد کر دینا
ہے گو کہ حالات ابھی بھی کچھ ایسے نہیں کہ میں اس قوم کی تعریف کروں ۔کئی
جگہوں سے سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی تھی اور سیڑھیوں پر لگی ٹائلیں بتا رہی تھی کہ
ہم نے ترقی کتنے گنا کی ہے اسی طرح میٹرو بس کے ٹریک کے ساتھ کھڑا میٹرو
آنے جانے کا نظارہ کر رہا تھا تو ساتھ کھڑے دوست نے کہا کہ حضرت یہ جنگلے
بھی دیکھیں کہ یہ ابھی سے ہی توڑ پھوڑ کا شکار ہوچکے ہیں ۔ذرا دھیان میٹرو
سے ہٹا کر جب سائیڈ پر لگے جنگلوں کی طرف کیا تو جنگلے اکھڑے ہوئے تھے ایسے
لگتا تھا کہ جیسے کسی نے میٹر بس تک جانے کے لیے شارٹ کٹ بنایا ہو۔
گو کہ بے ترتیبی اور لاپرواہی ابھی کم ہے مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
میٹروبس سروس ابھی ادارہ نہیں بن سکا۔اگر تو میٹرو بس سروس کو ادارہ نہ
بنایا گیا تو پھر میاں برادران کی حکومت جانے سے پہلے ہی یہ توڑ پھوڑ اور
بے ترتیبی شدت اختیار کر جائے گی اور حکومت جانے کے بعد وہی حال ہوگا جو یہ
قوم ہر ناپسندیدہ واقعہ کے بعد توڑ پھوڑ کی صورت میں کرتی ہے ۔ مگر میری
یہی دعا ہے کہ اﷲ نہ کرے ایسا ہو۔
گو کہ میں بھی میٹرو بس سروس شروع کرنے کے مخالفین میں ہوں مگر اب جب کہ یہ
سروس شروع ہو چکی ہے تو میں کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ یہ توڑ پھوڑ کا شکار
ہو یا بے ترتیبی کا شکار ہو کر تباہ ہوجائے اور ایک تاریخ بن جائے ۔اﷲ کرے
میرا یہ اندیشہ کہ حکومت جانے کے بعد عوام کے ہاتھوں اس کا ستیاناس ہو جائے
گا صرف اندیشہ ہی رہے کیوں کہ یہ بس سروس اسی ٹیکس سے بنی ہے جو میری طرح
کے کروڑوں غریب عوام روزانہ کی بنیادوں پر اداکرتے ہیں کبھی موت سے بچنے کے
لیے ، کبھی موت میں جانے کے لیے اور کبھی زندگی کے تلخ ماہ و سال گزارنے کے
لیے ۔ |