قدرت کی فیاضیوں کی بدولت بعض
لوگ بڑئے نفیس قسم کے ہوتے ہیں نفاست ان کے چہرئے سے عیاں ہوتی ہے اور بعض
انسان ظاہر سے بڑئے نفیس مگر دل کے کالے ہوتے ہیں ان کا ظاہر و باطن ایک
جیسا نہیں ہوتا اگر کوئی ملازمت سے وابستہ ہو نفاست اس کے فرض میں شامل ہو
تومیں سمجھتا ہوں اس پہ اﷲ تبارک تعالیٰ کا خاص انعام ہے جو ظاہر و باطن سے
خوبصورت اور فرض میں بھی یہ وہ خداداد صلاحتیں ہیں جن کی بدولت دنیا اور
آخرت کی کامیابیوں ان کے قول و فعل میں پنہاں ہیں طبیعت میں شائستگی ،برد
باری ،تحمل مذاجی ان کی شخصیت میں وہ نکھار پیدا کرتی ہے مخلوق خدا کے دل
ان کی جانب خود بخود مائل ہو جاتے ہیں مزید براں وہی آفیسر اگر غرور و تکبر
سے پاک ہو مخلوق خدا سے محبت کرتا ہے تو محبتوں کا پیکر ،دنیا میں کم لوگ
محبتیں سمیٹتے ہیں اکثریت کی کوشش ہوتی ہے روپیہ پیسہ سمیٹنا خدائے بزرگ و
بر تر نے کسی کسی کے حصہ میں یہ انعام رکھا ہے وہ اپنی بے پناہ و خدادا
صلاحیتوں کے پیش نظر مخلوق خدا کی دعائیں اور محبتیں سمیٹ کر دنیا و آخرت
میں سر خرو ہوتے ہیں نیلم ویلی کے اندر بے شمار آفیسر آئے ان میں سب ٹھیک
تو تھے مگر جو نفیس تھے وہ ڈپٹی کمشنر راجہ ثاقب منیر (شہید) کی زات تھی جن
کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا انہوں نے نیلم سے جو محبتیں سمیٹیں اس کا
ادراک اس وقت عوام کو ہوا جب وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو مخالفین کو
احساس ہوا اہل قلم نے ان کے لیے جو کالم لکھا تھا وہ ان کی اعلیٰ شخصیت کے
سامنے انتہائی حقیر تھا ۔راقم کے کالم کے شائع ہونے کے بعد بعض دوستوں نے
طنزیہ بھی کہا اور بذریعہ ٹیلی فون بھی مذاق میں یہ بات بر ملا کہی آپ نے
کالم لکھنے کی کتنی اجرت لی ؟یہ وہ سوال تھا جس کا میرئے پاس جواب نہیں تھا
کن الفاظ میں ان کو کہوں دوستو یہ تو نیلم ویلی کی عوام کی تقدیر بدلنے آیا
ہے نیلم ویلی کی عوام سے محبت کی دولت سمیٹنے آیا ہے راقم کے جواب میں جب
ان کو راجہ ثاقب منیر (شہید) کی شہادت کی خبر ملی تو دماغ کے دریچے واہ
ہوئے اپنے الفاظ پہ شرمندگی اور ندامت لیے اہل قلم کا شکریہ ادا کیا بعد
ازاں آپ نے دیکھا ہو گا جو شخص ڈیلی کی بنیاد پہ کالم نگاری کرتا تھا آہستہ
آہستہ اس نے لکھنے سے ہاتھ کھینچ لیا اس کے بعد زیادہ سے زیادہ چار ،پانچ
کالم مسائل کے حوالے سے لکھے لیکن وہ بھی تہہ دل سے نہیں بس عوام کی بے بسی
و مشکلات و مصائب سے جب دل روتا تو لکھ دیتا ۔بلا تحمید آج ضرورت محسوس کی
ہم اہل قلم کسی کی برائی دیکھتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے جس قدر اسے ننگا
کیا جائے تو اسی میں عافیت ہے ہم اس بات کا بھی دھیان نہیں رکھتے جو الفاظ
استعمال کیے جاتے ہیں وہ انتہائی غیر مہذب ، غیر اخلاقی ہوتے ہیں باوجود اس
کے برائی ،کرپشن والا اپنی فطرت سے باز نہیں آتا مگر ہم میں ان میں فرق
کوئی نہیں رہتا مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے اپنے اصل موضوع کی جانب آتا
ہوں ۔آج جس موضوع پہ لکھ رہا ہوں وہ بڑا نازک موضوع ہے ظاہر و باطن کی
نفاست تو ہمارئے ضلع نیلم میں محکمہ جنگلات کے ایک آفیسر تعینات ہیں جب سے
ان کی نیلم میں تعیناتی ہوئی تو ان کو ہر شخص جاننے لگا اس کی اصل وجہ یہ
تھی ہر دن ہر رات ایک خبر ملتی ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میر نصیر احمد نے فلاں
گاوں میں چھاپہ مار کر لاکھوں کی لکڑی ضبط کر لی ایسے فرض شناس اور دیانت
دار شخص نے اکیلے اور کچھ سٹاف کے ہمراہ دن و رات جنگلات میں اپنا وقت
گزارا راقم کو علم ہوا تو ان کا نمبر حاصل کر لیا اور جب ضرورت پڑتی جہاں
کوئی غیر قانونی لکڑی کاٹی جا رہی تھی وہاں کی نشاندہی کی جاتی اور پھر کیا
تھا رات کی تاریکی میں چھاپے پڑتے قومی خزانوں میں اضافے کا سبب میر نصیر
احمد بنتے جا رہے تھے نیلم ویلی کی آئیندہ نسلوں کی بقاء کے لیے جنگلات کی
حفاطت کا بار اٹھا لیا اسی طرح سر سبز و شاداب درختوں کی کٹائی پہ مکمل
پابندی عائد ہو چکی تھی اور ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کا خوف ٹمبر مافیا کے
زہنوں میں اس قدر بڑھ گیا سب نے اسی میں عافیت سمجھی میر نصیر احمد کی نیلم
میں موجودگی میں یہ دو نمبر دھندہ ناگزیر ہے آفیسر موصوف سے صرف تین بار
مختلف پروگرامز میں ملاقات ہوئی انتہائی نفیس ، خوش طبیعت ،نفیس شخص کی
جانب نظریں اٹھتی تو اندازہ کے لیے ان کے پیشہ ورانہ معاملات کی کھوچ ضروری
تھی تاہم مختلف مواقوں پہ اندازہ لگایا گیا اس شخصیت پہ جس نے جتنی بھی زور
آزمائی کی نا کام رہا اور مصلحت پسندی کا شکار نہ ہو سکا گزشتہ کچھ عرصہ
قبل جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ عروج پہ تھی از خود چھاپے مار کر جڑی بوٹیاں پکڑ
کر قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا فائدہ دیا ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میر نصیر
احمد کا تعلق نوسیری نوسدہ سے ہے مگر کافی عرصہ سے وہ مظفرآباد رہائش پزیر
ہیں وہ اپنے محکمہ میں کمال مہارت رکھتے ہیں وہ بلا شرکت غیرئے بے پناہ
صلاحیتوں کے مالک ہیں انہوں نے ایم سی فارسٹری کی تعلیم حاصل کی سکریٹریٹ
جنگلات میں ،راولاکوٹ ، میر پور،دیگر اضلاح میں محکمانہ فرائض سر انجام
دیئے آج نیلم ویلی میں تعینات ہیں جو ظاہر سے بھی جیسے ہیں اندر سے بھی
ویسے اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے وہ نیلم ویلی میں جس طرح اپنے فرائض سر انجام دئے
رہے ہیں فرض پہ ثابت قدم رکھے اور نیلم ویلی کی عوام کی محبتیں سمیٹتے رہیں
جب نیلم سے جائیں تو عوام نیلم کے ہاتھ دعاؤں کے لیے کھڑئے ہی رہیں نیلم کے
جنگلات کا تحفظ ہماری آئیندہ نسلوں کی بقاء ہے ۔ |