پاکستان دنیا کے نقشہ پر تن تنہا
ایک ایسا ملک ہے جو اپنے قیام کے دن سے ہی خارجی اور داخلی دونوں سطح پر
مختلف مسائل کا شکا رہے ۔68 سالوں کا طویل عرصہ گذرگیا ہے لیکن اب تک وہ
ملک مکمل آزادی سے ہم کنار نہیں ہوسکاہے۔پاکستان کو اپنے ان مقاصد میں آج
تک کامیابی بھی نہیں مل سکی ہے جن کے خاطر اس کا قیام عمل میں آیا تھا ۔پاکستان
کی اس تنزلی میں بیرونی طاقتوں سے زیادہ خود پاکستانی لیڈروں کا ہاتھ ہے۔ان
دنوں عمران خان کی وجہ سے پاکستان داخلی سطح پر ایک نئے مسائل کا سامنا
کررہا ہے ۔چین اور سری لنکا کے صدر کا دورہ منسوخ ہوگیا ہے جس سے پاکستان
کا اچھا خاصا خسارہ ہواہے۔پاکستان عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاج سے
پیدا ہونے والے اس داخلی بحران سے اب تک چھٹکار اپانا نہیں سکا ہے ۔اس بیچ
بے نظیر بھٹوکے سیاسی وارث بلاول بھٹو نے ایک نیا ہنگامہ کھڑا کردیا ہے ۔بلاول
بھٹو نے گذشتہ روز ایک بیان دیا تھاکہ کشمیر ہمار ا ہے ہم اس کی انچ انچ پر
قبضہ کرکے رہیں گے۔بلاول بھٹو کے والد ذوالفقار بھٹو نے بھی ایک ایسا ہی
بیان دیا تھا کہ کشمیر کے لئے ہم ہندوستان سے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے
۔جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی پاکستان ہندوستان میں جنگ ہوئی ہے نقصان
پاکستان کو ہی اٹھاناپڑا ہے ۔چارجنگوں میں شکست میں اور ویر عبدالحمید کے
تنہا سات ٹینکو کے مارگردانے کا واقعہ توکوئی معمولی نہیں ہے ۔
بلاول بھٹو کے اس بیان نے ہندوپاک کے رشتوں میں مزید تلخیاں پیدا کردی ہے
۔مجھے لگتا ہے انڈیا کے خلاف بیان بازی پاکستانی سیات کا اہم جز ہے ۔عوام
میں مقبولیت کے لئے ہندوستان کے خلاف انہیں زبان کھولے بغیر کوئی چارہ نہیں
ہے ۔شوشل میڈیا کے حوالے سے میں اسی نتیجہ پر پہچا ہوں کہ وہاں کی عوام
ہندوستان مخالف لیڈر کو اپنا محبوب اور خیر خواہ سمجھتی ہے ۔وہ لوگ یہی
چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈران ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے
رشتوں میں تلخیاں پید اکرتے رہیں ۔نواز شریف کے مقابلے میں پرویز مشرف کو
صرف اس لئے بہتر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انڈیا کے ساتھ سخت رخ اپنایا تھا
۔این ڈی اے کے دور حکومت میں آگرہ میں ہوئی کانفرنس سے بے مراد لوٹنے والے
پرویزمشرف نے برملا طو رپر اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا تھا کشمیر کے تئیں
سخت رخ اپنائے بغیر پاکستان کاکوئی بھی لیڈر یا فوجی اقتدار تک رسائی حاصل
نہیں کرسکتا ہے۔
نواز شریف نے حکومت میں آنے کے بعد ہندوستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی
کوشش کی وزیر امعاملے میں بھی آسانیاں پید اکیں لیکن ان کی کوشش رائیگاں
چلی گئیں ۔وزیر ا معاملہ اب پاک فوج کے ہاتھ میں جاچکا ہے ۔ جس سے بہتری کی
تعلق رکھنا کا رعبث ہے ۔دوسری طرف بلاول بھٹوکے بیان سے ہندو پاک کے درمیان
رشتے کے فروغ کو دوسرا بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے اگست میں خارجہ
سیکریٹری سطح پر ہونے والی مذاکرات کی منسوخی سے ہوا تھا ۔میری سمجھ میں
نہیں آرہا ہے کہ آخر بلاول بھٹو کو ایسے بیان کی کیا ضرورت پڑی تھی ۔افسوس
کی بات یہ ہے کہ جس تقریب میں وہ یہ جملہ کہ رہے تھے وہاں پیپلز پارٹی کے
دور اقتدار میں وزیر اعظم رہے راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی بھی
موجود تھے ۔
پاکستان پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیا ر سے لیس تن تنہا ایک مسلم ملک ہے
۔مصیبت کے وقت میں ہر کوئی پاکستان کی طرف نگاہیں اٹھاکر دیکھتا ہے لیکن اس
ملک کا ریکارڈ یہ ہے اس نے مسلم ممالک کوتباہی وبربادی کے دہانے پر پہچانے
میں تو حصہ لیا ہے کبھی اس کا تعاون نہیں کیا ہے۔افغانستان اور عراق پر
حملے کے لئے اس ملک کو استعمال کیا گیا ۔اسامہ بن لادن سے متعلق ابیٹ آباد
آپریشن نہ صرف پاکستان کی مرضی کے بغیر کیا گیا ہے بلکہ پاک حکومت اور فوج
کو اس آپریش کا پتہ بھی نہیں لگ سکا ۔کب امریکی فوج آئی حملہ کیا اور کب
وہاں سے رخصت ہوئی۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس واقعہ پر نہ توکوئی
افسوس ہے نہ شرمندگی ہے کہ ہماری خودمختاری پہ حملہ کیا گیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بہتر رشتے فروغ اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ
دونوں ملکی کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔ہندوستان کی عوام پاکستان سے بہتر
تعلقات کا قیام چاہتی ہے ہم ہندوستان میں ان لیڈروں کو پسند نہیں کرتے ہیں
جو اس طرح کی بیان بازی کرتے ہیں ۔توقع ہے کہ پاک کے لیڈران او روہاں کی
عوام دونوں بہتر تعلقات کے قیام کے لئے اقدام کریں گے۔ نفرت بھری سیاست کا
خاتمہ کریں گے ۔اپنی داخلی سیاست کو مضبوط بنائیں گے۔ |