قومی مسائل:اولین ترجیح

چھوٹے بڑے مسئلے روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ انتہائی احتیاط کے باوجود اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اُس مسئلے کو کس طرح دیکھیں، سمجھیں اور حل نکالیں۔ اگر خود ذہنی طور پر تیار ہوں اور چیزوں کو سمجھ لیں تو خود ہی مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے ۔اس کے لیے غور و فکر بہت ضروری ہے۔ اپنے تجربے اور دوسروں کے بتائے ہوئے واقعات بھی معاون ہوتے ہیں۔ کئی بار کہیں پڑھی ہوئی کوئی تحریر سوچ کے دروازے کھول دیتی ہے۔ اور اگر ایسی مُشکل آجائے کہ خود سمجھ نہ آئے کہ کیا کریں تو گھر کے افراد عزیز رشتے دار، دوست احباب سے مشورہ لیا جاتا ہے اور آخر کار کوئی نہ کوئی تجویز ایسی سامنے آجاتی ہے جو اطمینان بخش ہو۔ اس ساری تگ و دو میں سب سے اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے ارادہ اور نیک نیتی ہے۔ اگر نیت کر لی اور ارادہ بھی مضبوط ہو تو پھر انسان ہر کوشش کرتا ہے کہ مسئلہ حل ہو۔

اسی طرح مُلکی مسائل ہیں۔ اگر اپنے گھر کا مسئلہ سُلجھاتے ہوئے ہم تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں تو مُلک و قوم کے مسائل حل کرتے ہوئے بھی یہی رویہ اپنانا چاہیے۔ یہاں پر ہم سے چُوک ہوجاتی ہے کہ ہم سنجیدہ نہیں ہوتے اور ذمہ داری دوسروں کو منتقل کرتے چلے جاتے ہیں کہ میں نہیں تو کوئی دوسرا ذمہ دار ہے اور وہ حل نکالے۔ یہاں پر کیوں ہم ذمہ داری کا تعین نہیں کرتے۔ اپنے گھر کے معاملات حل کرتے ہوئے تو ہمیں اپنے گھر کے سکون اور بچوں کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے لیکن قومی معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں مُلک اور لوگوں کی ترقی و خوشحالی اور مستقبل کے معماروں کی فکر نہیں ہوتی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے گھر والوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کیا صُبح اُٹھ کر سب سے پہلے اپنے حلقے کے لوگوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے کہ اُن کے لوگوں کا کیا حال ہے ۔ اُن کے مسائل کو سن نہیں سکتے ،حل نہیں کر سکتے۔ لوگوں کے مسائل اپنی ذات اور گھر تک محدودہوتے ہیں۔ اگر اُنہیں روزگار مہیا ہوا ور باقی معاملات میں انصاف ملے تو وہ خوش رہتے ہیں۔ قومی سوچ کا احساس ہونے کے باوجود وہ دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ قومی معاملات اُن کے بس کے نہیں۔ اُنہیں یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص جو ایمانداری سے اپنا کام کرتا ہے وہ قومی خدمت کر رہا ہے۔ اُسے ذہنی طور پر اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈے اور دوسروں کی بھی مدد کرے۔

جس طرح گھر کے معاملات کو سُلجھاتے ہوئے ہمار ی انا رکاوٹ نہیں بنتی اسی طرح مُلکی مسائل حل کرتے ہوئے بھی جذبہ اور لگن ضروری ہے۔ اگر قوم اور مُلک کی بھلائی ہے تو پھر اپنی ذات معنی نہیں رکھتی۔ اُس کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ ضروری عزت نفس اور وقار ہے اور وہ ہمیشہ سچ اور نیک نیتی سے مضبوط ہوتا ہے۔ جن اداروں کو اپنے عزت و وقار کی فکر ہوتی ہے وہ اپنے اُصولوں کو کبھی نہیں چھوڑتے اور انہیں پر قائم رہتے ہوئے اپنے ہر مسئلے کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ اُن کا ایک مرتبہ اور مقام ہوتا ہے اور ساری قوم ہر اچھے بُرے وقت میں اُن سے اُمید لگاتی ہے کہ وہ اپنے نظم و ضبط، نیک نیتی اور عملی کاوش سے مشکل کا حل نکا ل لیں گے۔ اِس کی وجہ اُن کی ہر قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ بچار اور حکمت عملی ہے اور رکاوٹ کی صورت میں پلان بی اور سی کی تیاری ہے۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمارے لیے زندگی بہت آسان ہوجائے اگر ہم سوچنے، سمجھنے اور مسائل کے مختلف پہلو دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ انتظار کرنے کے بجائے کہ معاملات گھمبیر ہوں ہم خطرے کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی ادراک کریں کہ کن حالات میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ دُور اندیشی کی یہ عادت ہم سب کو اُس کوفت سے بچا سکتی ہے جس کے نتیجے میں وقت اور قومی وسائل کا ضیاع ہوتا ہے-
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.