ملکہّ جذبات
(Anwar Parveen, Rawalpindi)
بدلتے ہوئے حالات اور مصروفیات
میں ردوبدل کی وجہ سے ہم سب کے مزاج میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ پہلے رہن سہن
اور روزمرہ معمولات میں صبح جلدی اُٹھنا، گھر کے کام کرنا یا با ہر کام پر
جانا۔ دوپہر کو کھانا کھا کر قیلولہ کرنا اور پھر نوجوانوں کو والدین خود
کھیل کود کے لیے راغب کرتے تھے تاکہ جسمانی صحت بہتر رہے۔ ملنا جُلنا ہو
اور خامخواہ کی سو چوں سے نفسیاتی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ بس ماؤں کی ایک ہی
ایستادہ ہوتی تھی کہ مغرب سے پہلے گھر آجانا ۔ نہا دھو کر بچے تو اسکول کا
کام کرنے لگ جاتے اور بڑے مِلنا ملانا یا اگلے دن کی تیاری۔ اِس طرح ایک
صحت مند ماحول کی وجہ سے آپس میں عزت و احترام، لحاظ اور محبت و اخوت کا
جذبہ اختلاف کو ایک حد میں رکھتا اور مسائل کا حل تلاش کیا جاتا۔ اِن سب کے
لئے قوتِ برداشت کا وصف سب سے اہم کردار ادا کرتا۔وقت بدلتا ہے اور جب ایک
نسل کے بعد دوسری اور تیسری نسل جوان ہو کر سامنے آئے تو دُنیا کے بدلتے
ہوئے تقاضے اور اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے بہت کچھ ایسا اپنا نا
پڑتا ہے جو شاید دل سے پسند نہ ہو۔ ماضی میں مذہبی، قومی اور خاندانی شناخت
اہمیت رکھتی تھی لیکن پھر اِس میں صوبائیت، لسانیات اور فرقہ ورانہ شناخت
بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو لوگ عقلمند تھے وہ تو اِن معاملات سے
لاتعلق ہی رہے لیکن نوجوان اِن بہکاؤوں میں آ گئے اور اُن لوگوں کی نظر سے
حالات اور واقعات کو دیکھنے لگے جو منفی رحجان رکھتے ہیں۔ جن کا مقصد ہی
قومی وحدت کو نقصان پہنچانا ہے۔ واقعات اور ماحول اِس طرح سے ذہنوں پر اثر
انداز ہوئے کہ ہم میں قوتِ براداشت، درگزر اور صبروتحمل سے حالات کا جائزہ
لینے کا عنصر کم ہونے لگا ہے۔ پوری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ردعمل کا
مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب کہہ چکتے ہیں تو پوری بات سُننے یا جاننے کے بعد احساس
ہوتا ہے کہ معاملہ تو ایسا نہیں تھا جسے بگاڑ ا جاتا ۔ لیکن اپنے کہے ہوئے
کو واپس لینا یا خاموش ہونا انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ بات جس کی اہمیت
نہیں تھی خامخواہ ایسی نہج پر آتی ہے جس سے کسی بھی سطح پر نقصان ہو سکتا
ہے۔ ادارے وہی مضبوط ہو تے ہیں جن میں مقصد کی اہمیت ، نظم وضبط اور احتساب
کے عمل کو اہمیت دی جائے۔ اپنے اِن ہی وصف کی وجہ سے وہ عوام میں مقبول
ہوتے ہیں۔ لوگ اُن کے احساس، جذبہ قربانی اور ہر وقت مدد کے لئے موجود ہونے
کی وجہ سے اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ قومی معاملات میں خاص طور پر عقل وفہم،
مشورہ اور بہت زیادہ قوت برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ کا غلط چناؤ، غیر
ذمہ درانہ رویہّ اور فیصلوں کو بدلنا اپنے ہی اعتبار کو داؤ پر لگانا ہے۔
آج ہمارے پاس سمجھنے کا وقت ہے کہ ہم اپنے قومی معاملات کو ترجیح دیں۔ اُن
کے بارے میں مثبت فیصلے کریں اور عملاََ اُنہیں پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ زیادہ تر معاملات ثانوی حیثیت کے ہوتے ہیں اُن پر
جذباتی ردِعمل اور ملکہّ جذبات بننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ |
|