چین اس وقت نہ صرف ایشیابلکہ
دنیا کی بہت بڑی سیاسی، عسکری اور تجارتی طاقت ہے۔ خاص کر دنیا بھر میں
تجارت پر چین چھایا ہوا ہے اور ایک اندازے کے مطابق شاید ہی دنیا میں کوئی
گھر نہ سہی علاقہ ایسا ہو جس میں چینی ساختہ کوئی چیز نہ ہو اور یہی وجہ ہے
کہ چینی حکام کے بیرونی دوروں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ حال ہی میں چینی
صدر زی جن پنگ نے بھارت کا دورہ کیا۔ یہ دورہ ایک بہت بڑا تجارتی دورہ
سمجھا جا رہا تھا بلکہ خود ایک چینی ڈپلومیٹ نے دورے سے پہلے ممبئی میں
صحافیوں کو بتایا کہ چین بھارت میں سو ارب ڈالر کی سرمایا کاری کرے گا لیکن
دورے کے اختتام پر اس سرما یہ کاری کا حجم بیس ارب ڈالر رہا۔اس دورے کے
دوران بھارت اپنی مکارانہ ذہنیت کا کئی جگہوں پر، بلکہ مسلسل مظاہرہ کرتا
رہا۔جس سے وہ چین کو ایک قابض اور غاصب ملک ثابت کرنے اور چین پر دباؤ
ڈالنے کی کوشش کرتا رہا اور یہ کہ وہ بھات کی مرضی کے مطابق اپنے فیصلے
کرے۔وہ سرحدی تنازعات کو بھی اپنے مفادات اور تر جیحات کے مطابق حل کرنے کی
کوشش کرتا رہا نہ کہ بین الاقوامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اور انہی وجوہات
کی بنا پر چینی صدر کا دورہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں گردانا جاسکتا اور اس
صورت حال کی ذمہ داری خود بھارت کے اوپر عائد ہوتی ہے جو بہر صورت خود کو
علاقے کا چوہدری سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جو وہ چاہے وہ کیا جائے۔بھارت
کا غیر ذمہ دار اور غیر ضروری مستعد میڈیا بھی اپنی حکومت کی طرح کچھ بھی
کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور اسی لیے چینی صدر زی جن پنگ کو مسٹر الیون کہہ
کر پکارتا رہا جو کسی بھی مہمان کے لیے قابل احترام طریقہ نہیں
سمجھاجاسکتاہے۔ خیر یہ تو ایک پہلو یا طریقہ تھا خود کو برتر ثابت کرنے کا
ورنہ ایسی کئی کوششیں مسلسل نظر آتی رہیں۔ حیدر آباد ہاؤس دہلی میں بھارتی
وزیرا عظم مودی اور چینی صدر کی ملاقات کے وقت تبتی طلبہ چین کے خلاف
مظاہرہ کر رہے تھے۔اس سے پہلے ان احتجاجی طلبہ نے تاج ہوٹل جہاں چینی صدر
ٹھہرے ہوئے تھے کے باہر مظاہرہ کیا اور یہ چین کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے
ہوئے تھے ایک قوی رائے یہ ہے کہ یہ طلبہ خود سے اکٹھے نہیں ہوئے تھے بلکہ
انہیں بھارتی حکومت کی ایماء پر اکٹھا کیا گیااور چینی صدر کو یاد دلایا
گیا کہ انہوں نے تبت پر قبضہ کیا ہوا ہے جو انہیں چھوڑ دینا چاہیے یہ بات
یقینی یوں بھی ہوجاتی ہے کہ جب چینی صدر نے بھارت سے اس بات کا مطالبہ کیا
کہ وہ دلائی لاما کی جلاوطن حکومت کی تائید کرنا چھوڑ دے اور اپنی سر زمین
پر ان کی نقل و حمل کو محدود کر دے اور ان پر پابندی لگادے تو مودی نے اس
سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بھارت نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ چین جموں
وکشمیر اور ارو نا چل پردیش کے باشندوں کو سٹیپل ویزا کیوں دیتا ہے بھارت
کا مطالبہ تھا کہ یہ سہولت ختم کر دی جائے لیکن چینی صدر نے اس پر کسی
سمجھوتے سے انکار کر دیا اور یوں ان دونوں ریاستوں کی مقبوضہ حیثیت چینی
نکتہء نظر کے مطابق برقرار رکھی گئی۔گجرات حکومت نے اسی سلسلے میں چین کو
خوش کرنے کے لیے 22ستمبر کو جو نقشہ شائع کیا اُس میں جموں و کشمیر اور
ارونا چل پردیش کو متنازعہ جبکہ ہمالائی صوبے اکسائی کو چین کا حصہ دکھایا
گیا جس پر کانگریس نے شدید احتجاج بھی کیا اور بی جے پی نے اُسے انفرادی
غلطی قرار دیا کہ اس نقشے سے حکومت کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ تاہم چین نے
بھارت کے ویزا موقف کو ماننے سے انکار ہی کیا۔ بھارت نے لداخ کا مسئلہ بھی
اسی دورے کے دوران اٹھایااور اعتراض کیا کہ چین کے ایک ہزار فوجی چار پانچ
کلو میٹر تک بھارتی سرحد کے اندر آگئے ہیں اگرچہ بھارت اس کے جواب میں اپنے
پندرہ سو فوجی ادھر بٹھا چکا ہے تاہم بھارت کے اس اعتراض کو بھی رد کر دیا
گیا۔
بھارت نے اس دورے کے لیے جو منصوبہ بندی کی تھی کہ وہ چین سے اپنی بات
منوائے گا وہ اُس میں کامیاب نہ ہو سکا اور مسائل اپنی جگہ ویسے کے ویسے ہی
رہ گئے۔اُس نے چینی حکومت کو حیثیت بھی نہ دی جس کا وہ مطالبہ کرتا ہے یعنی
ون چائنا ،جس کے مطابق تائیوان کو چین کا حصہ مانا جانا چاہیے، اُس نے نہ
تو دلائی لاما کی جلاوطن حکومت کی مدد سے دستبرداری کا عندیہ دیا اور نہ ہی
ون چائنا اور تائیوان کے مسئلے پر چین کے موقف کو اہمیت دی، دوسری طرف چین
کی طرف سے سو ارب ڈالر کی متوقع سرما یہ کاری کا حجم بھی سکڑ کر بیس ارب
ڈالر تک رہ گیا اور ظاہر ہے کہ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ اگر صرف
تبتی طلبہ کے مظاہرے اور چین کے خلاف احتجاج کو ہی لیا جائے تو بھی چین اور
چینی حکومت کو دنیا کے سامنے غاصب اور قابض بنا کر پیش کیا گیا اگر بھارتی
حکومت اس واقعے سے لا تعلقی کا بھی اظہار کرے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے
بڑے ملک کی اتنی بڑی پولیس ان طلبہ کو نہ روک سکی یہ بھارتی حکومت کی ایک
اور ناکامی کہی جا سکتی ہے۔بہر حال بھارت میں اس دورے کا جو انتظار کیا گیا
معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ انتظار چین پر اپنی برتری جتانے کے لیے تھا لیکن
ظاہر ہے کہ اس وقت چین نہ صرف بھارت سے ایک بہت بڑا ملک ہے بلکہ ایک بہت
بڑی عسکری، اقتصادی اور تجارتی طاقت بھی ہے لہٰذا بھارت کی کسی ایسی منصوبہ
بندی کی کامیابی کے امکانات بہت کم تھے اور اسی لیے کوئی کامیابی اُس کے
حصے میں آئی بھی نہیں۔
اگر ان تمام حقائق کو مدنظر رکھا جائے اور اسے بڑی آسانی سے اگر ناکام دورہ
نہ کہا جائے تو کامیاب بھی نہیں کہا جاسکتا اور یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا
ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں سے کبھی خوشگوار تعلقات کا نہ خواہاں ہے اور نہ
اس کے لیے کوشش کرتا ہے اس کا ایک ہی اصول ہے کہ ہر صورت اپنی برتری قائم
کی جائے چاہے اس کے لیے وہ اپنی خفیہ ایجنسیوں اور جاسوسوں کو استعمال کرے،
اپنے غیر منطقی قسم کے میڈیا کو اور یا مودی جیسے لوگوں کو وزیراعظم
بناکر۔لیکن بھارت کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے
تعلقات اس کے لیے امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات سے زیادہ اہم ہیں۔بھارت
کے ننگے بھوکے عوام کے تن اور پیٹ اسلحے سے نہیں بھرے جا سکتے لہٰذا اُسے
آس پاس جنگی ماحول بنانے کی بجائے امن اور بہتر باہمی روابط پر توجہ دینا
ہو گی تاکہ ایک پُر امن جنوبی ایشیا اور پُر امن علاقے کی تخلیق کی جا سکے۔ |