کچھ دنوں پہلے گھر کا ضروری سامان لینے مارکیٹ جانا ہوا۔
دکان پر میرے ساتھ کھڑی خاتون نے دکان دار سے تیزاب کی بوتل مانگی۔ دکان
دار نے چالیس روپے لے کر اسے تیزاب کی بوتل تھمادی۔ خاتون کچھ جلدی میں
تھیں، سو تیزی سے پیچھے کی طرف مڑیں اور ان کا پیر ایک پتھر سے ٹکرا گیا۔
نتیجتاً ہاتھ میں تھامی ہوئی بوتل سڑک کے اوپر کاغذوں کے ڈھیر پر گر گئی
اور لمحہ بھر میں سارا کوڑا جل کر راکھ ہوگیا۔ آس پاس کھڑے لوگ خاتون کی
مدد کرنے دوڑے۔ اس بات کا اطمینان تھا کہ بوتل گرنے سے خاتون کو کسی قسم کا
نقصان نہیں ہوا ہے۔ ورنہ اس بات کا سو فیصد خدشہ تھا کہ خاتون اس تیزاب سے
جھلس جاتیں۔
یہ فقط ایک معمولی سا حادثہ تھا، لیکن میں گھنٹوں اس سارے معاملے پر ششدر
رہی۔ آخر اتنا خطر ناک تیزاب عام دکانوں پر اتنی آسانی سے دست یاب کیوں ہے؟
جب کہ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافے کے بعد
حکومتی اداروں کی طرف سے گندھک کے تیزاب کی عام فروخت پر پابندی لگائی گئی
تھی۔
اپنی کم عقلی پر آپ اپنا ہی تمسخر اڑانے کا جی چاہا۔ حکومت تو بہت سی چیزوں
پر پابندی لگاتی آئی ہے۔ قانون بنانا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت
عام ہے، لیکن عمل کرنا یا کروانا․․․․ یہ تو شاید ہمار ے قوم کے مزاج میں
شامل ہی نہیں ہے۔
میرے لیے یہ سب کچھ حیران کن یوں بھی تھا کہ پچھلے دنوں تیزاب گردی کی
بڑھتی ہوئی کاروائیوں پر مبنی ایک رپورٹ میری نظروں سے گزری جس کے مطابق
سال 2009 میں پورے پاکستان میں 3 4 خواتین تیزاب گردی کا شکار ہوئیں، جب کہ
2010 میں 55 خواتین اس ظلم کا نشانہ بنیں اور 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر سو
فی صد اضافے کے ساتھ 155 ہوگئی۔ یہ اعدادوشمار پڑھ کر ہی رونگھٹے کھڑے
ہوجاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں ہم حیوانیت کے کون سے درجے پر ہیں کہ کسی کا
چہرہ مسخ کرتے ہوئے ہاتھ نہیں لرزتے۔ جانور تو اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر
ایک ہی وار میں ختم کر دیتے ہیں اور ہم انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کو اس
طرح نشانہ بناتے ہیں کہ وہ سسک سسک کر جان دے۔ ہم آدمیت کی صورت میں
شیطانیت کا روپ دھارے خدا کے عذاب سے بے خبر گناہوں کی گٹھری میں سامان جمع
کیے جارہے ہیں۔
ہمارے مذہب میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ حد درجہ نرم رویہ رکھنے کا حکم دیا
گیا ہے۔ جنگ کے میدان میں اور فتح حاصل کرنے کے بعد بھی بدترین دشمن ہونے
کے باوجود عورتوں اور بچوں کو ایذاء پہچانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے،
لیکن ہمارا معاشرہ دینِ کامل کا پیروکار ہونے کا دعوے دار ہونے کے باوجود
اپنے قہر کا پہلا نشانہ عورتوں ہی کو بناتا ہے۔ چہرہ ہر انسان کی بنیادی
پہچان ہوتا ہے۔ یہ بدصورتی اور خوب صورتی ناپنے کا پہلا پیمانہ ہے۔ میرے رب
نے فطرتاً ایک عورت میں اس کے چہرے اور ظاہری خدوخال کے لیے فکر کا مادّہ
زیادہ رکھا ہے۔ ساتھ ہی ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بنت حوا کی ذہانت،
صلاحیت اور سیرت پر اس کی صورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چہرہ شناخت کی سب سے
پہلی صورت ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ کسی سے لمحہ بھر میں اس کی شناخت چھین لی
جائے۔ خواتین سے بدلہ لینے کے لیے تیزاب سے چہرے کو جھلسادینا درندہ صفت
لوگوں کے لیے انتقام کا سب سے آسان حربہ ہے، جس سے انا کی آگ کو بجھایا
جاتا ہے۔ تف ہے ایسی سوچ پر کہ جو کسی ذی روح سے بدلہ لینے کے لیے یہ
سفاکانہ راستہ اپنائے۔
عورت پر ظلم کرنا سب سے بڑی بزدلی ہے۔ عموماً رشتے سے انکار کی صورت میں
سزا چہرہ کو مسخ کرکے دی جاتی ہے، تاکہ وہ عورت کسی اور شخص کے قابل نہ رہے
اور اسے بدصورت بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی اور بہت سی وجوہات ہیں جن کا یہاں
تذکرہ کرنا ضروری نہیں۔ یہ صورت حال ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور
سفاکی کی آئینہ دار ہے۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں جو تیزاب گردی کا
شکار خواتین کی مدد کر سکے۔ پرائیویٹ اداروں کا ذکر کیا جائے تو چند این جی
اوز متاثرہ خواتین کو معاشرے میں مقام دلانے کے لیے کام کر رہی ہیں، لیکن
ان اداروں کو مالی مسائل کا سامنا ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے ایسا کوئی فنڈ
مختص نہیں کیا گیا ہے جو ان خواتین کی مدد اور ان کے بگڑے چہرے کو بہتر
بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ مسخ شدہ لاشوں کی اصطلاح تو ہمارے
یہاں عام تھی ہی اب مسخ شدہ زندہ لاشیں بھی ہمیں اپنے اردگرد ن چلتی پھرتی
نظر آتی ہیں۔ تیزاب پھینکنے کے کئی کیس تو رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔ اہل خانہ
بدنامی کے ڈر سے ایف آئی آر درج ہی نہیں کرواتے۔ اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے
تو حقیقت کا علم ہوتا ہے، کہ بہت قریبی لوگ ، ایک شہر اور ایک گلی محلے میں
رہنے والے بھی ایک دوسرے کے حالات سے اکثر ناواقف ہوتے ہیں۔
ایک بات اکثر میرے ذہن کو پریشان کرتی ہے کہ یہ دل دہلادینے والے واقعات آج
اس شہر میں رہنے والی کسی بنت حوا کے ساتھ پیش آیا ہے توکل میری اور آپ کی
بیٹی کے ساتھ خدانخواستہ یہی کچھ ہوجاتا ہے تو ہماری حالت کیا ہوگی۔ ہم کسی
دوسرے کی تکلیف پر فقط افسوس کرتے ہیں، لیکن کسی ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ
دیتے ہیں اور نہ آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ ایسے واقعات
کے تدارک کے لیے ہمیں اپنے بچوں میں برداشت کا مادّہ پیدا کرنا ہوگا۔ انہیں
انسانیت کا سبق سکھانا ہوگا۔ اولاد کی تربیت تو ہر ماں باپ کرتے ہیں، لیکن
ہمیں اپنے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ذہن سازی پر مزید توجہ
دینی ہوگی۔ تیزاب گردی اور تشددودرندگی کے دیگر بڑھتے ہوئے واقعات دیکھ کر
ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ملک اپنی تہذیب کی موت کا انتظار کر رہا ہے۔ اس
بیمار تہذیب نے جو بیماریاں ہماری نسل کو لگائی ہیں، ہمیں ان سے خود ہی
انفرادی طور پر اپنے بچوں کو بچانا ہے اور اصلاح کا عمل اپنے گھر سے اپنی
ذات سے شروع کرنا ہے۔
تیزاب گردی کی تیزی سے بڑھتی وارداتوں کی روک تھام نہ ہونے کی جہاں ایک وجہ
تیزاب کی کھلے عام فروخت ہے، وہیں عدالت کی حدود میں ان جیسے انتہائی نوعیت
کے کیسز کو دوسرے مقدمات کی طرح برتنا بھی ہے۔ یعنی درخواست گزار کورٹ کے
چکر لگا لگاکر آخر کار اپنی عزت، وقت اور پیسہ بچانے کے لیے خود ہی پیچھے
ہٹ جاتے ہیں۔ ان کیسز کو فوری طور پر خصوصی دہشت گردی کی عدالت میں لانا
چاہیے، تاکہ جلدازجلد فیصلہ سنا کر مجرم کو سزا دی جاسکے۔
گذشتہ برسوں کے دوران ہزاروں خواتین کا چہرہ مسخ ہوا، لیکن سزا فقط ایک
مجرم کو ملی۔ اگر تیزاب گردی پر فوری اور موثر سزائیں نہ دی گئیں تو ظلم کا
یہ سلسلہ چہروں کو جھلساتا رہے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح کسی کے چہرے
کو تیزاب سے جھلسایا گیا ہے جرم ثابت ہونے پر ملزم کو بھی اسی طرح تیزاب سے
جھلسایا جائے، لیکن یہ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم مجرموں کو وہ سزا تو دی جائے
جو قانون کی کتابوں میں درج ہے۔ |