اقبال جُرم پہ عدالت سے مُعافی

دُنیا کی عدالت میں ہر جُرم کی سزا ہے
یہاں مَغفِرَت دِلائے اقرار مدینے میں

محترم قارئین کرام سلام
قرآن مجید کو محبت اور عشق کے عدسوں کے ذریعہ پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ تمام قرآنٔ کریم حضور علیہ السلام کی مدحت ہے خالق کائنات سطر سطر میں اپنے پیارے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خوبیاں بیاں کر رہا ہے اور اپنی تمام مخلوق کو سمجھا رہا ہے کہ دیکھو میرے محبوب کو بشری لباس میں دیکھ کر گُمراہ نہ ہوجانا اور اِنہیں اپنے جیسا نہ سمجھ لینا کہ یہ بزم کائنات سجائی گئی ہے تو صرف اِنہی کیلئے کبھی اپنے محبوب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ کا ادب سکھایا جارہا ہے کہ اس بارگاہ میں گُفتگو دھیمے لہجہ میں کرنا کہ کہیں تمہارا ایمان ہی ضائع نہ ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو تو کبھی اُن گلیوں کی قسم ارشاد فرمائی جارہی ہے جن میں محبوب علیہ اسلام چَلا کرتے تھے۔

کبھی بارگاہ مصطفٰے( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں حاضری کے آداب سکھائے جارہے ہیں تو کبھی اخلاق مصطفٰے کے اوصاف کا بیاں ہے تو کبھی اِنکے اِحسان کا ذکر ہے کبھی دُشمن مصطفٰے( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تنبہی کی جارہی ہے تو کبھی عذاب کی خبر کبھی گُستاخوں کو ڈانٹا جارہا ہے تو کبھی باقاعدہ ہلاکت اور بربادی کی سند۔

میں نہایت کم علم انسان ہوں مجھ میں یہ تاب کہاں کہ اوصافِ مصطفٰے بیاں کرسکوں۔ کہنا فقط اتنا چاہتا ہوں کہ جب قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو صرف وضو جسم کا نہ ہو بلکہ قلب کی طہارت کا بھی اہتمام کیجئے پھر آپکو بھی وہی محسوس ہوگا جو ایک عاشق محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے واللہ قران مجید میں جا بجا نعت مصطفٰے ہے وگرنہ جب یہی قرآن مجید مُنافق پڑھتا ہے تو اُسے اُجالے نہیں ملتے۔ خدا کی قسم ہدایت نہیں مِلتی۔ رہنمائی نہیں ملتی۔ فقط تحریر ملتی ہے ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوتی۔

آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشہ دیکھے
دیدہءِ کور کو آئے کیا نظر؟ وہ کیا دیکھے

قرآنِ مجید میں اطاعت رسول کے واضح احکام موجود ہیں اُسکے باوجود کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اطاعت رسول سے بھی بچ رہیں اُسکا آسان حیلہ اُن لوگوں نے یہ نِکالا کہ احادیث مُبارکہ ہی کا انکار کر دیا اور جواز یہ پیش کیا کہ جناب چُوں کہ احادیث مُبارکہ حضور علیہ السلام کے دور مُبارکہ میں مُرَتب نہ ہوسکیں تھیں اسلئے ہمیں اِن احادیث کے مُستند ہونے کا یقین نہیں اسلئے ہم تو صرف قرآن ہی کو مانتے ہیں تو میرا سوال صرف یہ ہے کہ وہ ثابت کردیں کہ قرآن مجید کی اشاعت کا اہتمام حضور علیہ السلام کے زمانہ مُبارک میں تھا وہ ہرگز قیامت تک ثابت نہیں کرسکیں گے تو کیا اب قرآنِ مجید کو بھی نہ مانو گے

اور ہر صاحبِ عقل یہ بات جانتا ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت بلکہ ایک حُرف کا انکار بھی کُفر ہے تو اب  مجھے کوئی یہ بتائے کہ اطاعت اور فرمانبرداری بغیر سیرت اور کُتب حدیث کے کس طرح ممکن ہے کیونکہ رَسولُ اللہ ( صلی اللہ علیہ رآلہ وسلم ) نے کیا کیا فرمایا کیا کرنے کا حُکم دیا کس کام سے روکا یہ سب احکام قُرآن مجید میں تو ملیں گے نہیں اور ہمیں رب عزوجل کا حکم ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرو تو بھائی پیروی کرو گے کس طرح کہ قُرآن میں اطاعت کا حُکم ہے اب یا تو اس آیت کا انکار کرو گے یا اس کی حُکم عُدولی اور دونوں صورتوں میں کُفر لازم آئے گا۔ اب رہا سُوال حدیث کی اسناد کا تو بھائی جس طرح قرآن مجید صحابہ کرام رضوانُ اللہِ اجمین کے سِینوں میں محفوظ تھا اسی طرح احادیث مُبارکہ بھی صحابہ کرام رضوانُ اللہِ اجمین کے سینوں سے تابعین کی کتابوں میں مُنتقل ہُوئیں۔ اور باقاعدہ اصول مُرتب کئے گئے جن کی روشنی میں ایک ایک حدیث کو اُن تمام قواعد اور ضوابط کی کسوٹی پر جانچا گیا امام بُخاری۔ امام مسلم اور دوسرے فُقہائے کرام نے بے شمار صعوبتیں برداشت کیں سفر اختیار کیا اور وہ رَاہ اختیار کی کہ تمام احادیث کو انتہائی مہارت اور علمی بصیرت سے تمام صحیح اسناد اور ثِقہ رَاوِیوں کیساتھ محفوظ کر کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا۔ اور الحمدُللہ مسلمان احسان فراموش نہیں ہوتا اسلئے آج بھی تمام فُقہائے کرام مُسلمانوں کے قُلوب میں جاویداں ہیں اور قیامت تک رہیں گے پس ایک مشہورِ زمانہ شعر آپکی خدمت میں پیش کرناچاہتا ہوں

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا ء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اور امام احمد رضا علیہ الرحمتہ نے کیا خوب فرمایا

سرور کہوں کہ مالکُ مولیٰ کہوں تجھے
باغِ خلیل کا گُل ِ زیبا کہوں تجھے
لیکن رضا نے ختم سُخن اِس پہ کردیا
خالق کا بندہ خَلق کا آقا کہوں تجھے

اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے (الف) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (ب) تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (ج)
سورہ النسأ آیت نمر 64

تفسیر خزائن العرفان
( الف)
جب کہ رسُول کا بھیجنا ہی اس لئے ہے کہ وہ مُطَاع بنائے جائیں اور اُن کی اطاعت فرض ہو تو جو اُن کے حکم سے راضی نہ ہو اُس نے رسالت کو تسلیم نہ کیا وہ کافر واجب القتل ہے۔
( ب )
معصیت و نافرمانی کر کے۔
( ج)
اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری کا ذریعہ ہے سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضہ اقدس پر حاضر ہوا اور روضۂ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی اس سے چند مسائل معلوم ہوئے
مسئلہ: اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے لئے اُس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے
مسئلہ قبر پر حاجت کے لئے جانا بھی '' جَآءُ وْکَ '' میں داخل اور خیرُ القرون کا معمول ہے مسئلہ: بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا )کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے
مسئلہ:مقبُولانِ حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔

سورہ النسا َٔ آیت نمبر 65
تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں

تفسیر خزائن العرفان
معنی یہ ہیں کہ جب تک آپ کے فیصلے اور حکم کو صدقِ دِل سے نہ مان لیں مسلمان نہیں ہوسکتے سبحان اللہ اس سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان معلُوم ہوتی ہے

شانِ نزول: پہاڑ سے آنے والا پانی جس سے باغوں میں آبِ رسانی کرتے ہیں اس میں ایک انصاری کا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا ہوا معاملہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کیا گیا حضور نے فرمایا اے زبیر تم اپنے باغ کو پانی دے کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو یہ انصاری کو گراں گزرا اور اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ باوجودیکہ فیصلہ میں حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو انصاری کے ساتھ احسان کی ہدایت فرمائی گئی تھی لیکن انصاری نے اس کی قدر نہ کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اپنے باغ کو سیراب کر کے پانی روک لو انصافاً قریب والاہی پانی کا مستحق ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی
وما توفیقی اِلّا باِاللہ

ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060735 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More