ایک تھا کوا ، ایک تھا انسان

کراچی کے صدربازارسے گزر رہا تھا۔میں نے دیکھا،بہت سارے لوگ کھڑے ایک اونچی بلڈنگ کی چھت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔گاڑیاں رکی ہوئی ہیں،ٹریفک مکمل جام ہے، جبکہ ٹریفک اہلکار بھی اپنی ڈیوٹی بھول کر ہجوم میں سب سے آگے کھڑا بلڈنگ کی چھت کی طرف دیکھ رہا ہے۔مجھے بھی بادل نخواستہ رکنا پڑا، موٹرسائیکل محفوظ جگہ کھڑی کر کے آیا تو ہجوم بدستور نگاہیں اس طرف جما کہ کھڑا تھا۔مجھے بھی تجسس ہوا کہ دیکھ لوں کیا تماشہ ہے۔اس وقت میں ہکا بکا رہ گیاجب میری نظر ایک کوے پر پڑی۔ جو چیختا چلاتا اپنی مخصوص زبان میں مدد کے لیے پکار رہا تھا۔سینکڑوں کی تعداد میں لوگ نیچے کھڑے کوے کی بے بسی پر قہقہے لگاتے رہے۔ سب اپنی اپنی جگہ کھڑے دیر تک اس منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میں بھی ان بے حسوں میں شامل تھا جو نیچے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔

قصہ یوں تھا کہ بلڈنگ کی چھت پر کسی سیاسی پارٹی کاجھنڈا لہرا رہا تھا۔پٹھا پرانا، کراچی کی نمکین ہوائیں لوہے کو بھی گلادیتی ہیں۔کچھ ایسا ہی حال اس جھنڈے کا تھا۔زمانے کی ستم ظریفیوں اور کراچی کی سمندری ہواؤں نے اس جھنڈے کو دھاگوں میں تبدیل کر کے جال بنایا تھا۔دھاگے ادھر ادھر لٹک رہے تھے۔ کوا کہیں سے اڑتا ہوا آکراس جال کی میں پھنس گیا۔کوشش کے با وجود وہ اپنے آپ کو اس جال سے چھڑا نہیں پایا تو اس نے چیخنا شروع کردیا۔ آس پاس کے کوے سارے اکھٹے ہوگئے۔ جھنڈے کو نوچنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ جھنڈا تار تارہوگیا،وہ کوے کو چھڑا کر اپنے ساتھ لے گئے۔مجھ سمیت سب لوگ تماشہ دیکھ کر خوب محظوظ بھی ہوتے رہے اور اپنے قیمتی موبائل فون پر یہ منظر بھی محفوظ کرتے رہے۔ پھر ہنستے مسکراتے آہستہ آہستہ وہاں سے چل دیے۔جیسے کوئی سرکش دیکھ کر آرہے ہوں۔

کوے کے بعد انسان کی کہانی سنیے۔ میں بس میں بیٹھا دفتر جا رہاتھا،گرمی نہایت زوروں پر تھی۔ بس کچھاکھچ لوگوں سے بھری ہوئی، مجھ سے دو تیں سیٹ آگے کھڑا ،ایک نوجوان اچانک بے ہوش ہوکر گرپڑا۔کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس بیچارے کو اٹھا کر سیٹ پر بٹھاتے ، تھوڑا سا پانی پلاتے۔کافی دیر وہ اسی حالت میں پڑا رہا۔ آخر میں پیچھے سے اٹھ کر گیا۔ اس کو اٹھا کر اپنی سیٹ پرلاکر بٹھایا، آگے سٹاپ پر اس کو گاڑی سے اتار کرپانی پلایا، تب تک وہ مکمل طور پر ہوش میں آگیا تھا۔ اس کو وہاں چھوڑ کر دوسری بس میں جا بیٹھا۔

قیوم آباد چورنگی پر اتر کر پیدل آگے بڑھ رہا تھا تو دیکھاایک عورت زمین پر لیٹی کروٹیں بدل رہی ہے۔بہت سارے لوگ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ پاس ہی رکشہ سٹینڈ بھی ہے۔ بڑی تعداد میں ڈرائیورحضرات بھی موجود ہیں۔ میں نے سوچا شاید کوئی بھکاری ، یا پھرکوئی کرتب دکھانے والی ہے۔مزید آگے بڑھ کر دیکھا تو کوئی سفید پوش عورت لگ رہی تھی۔ اپنے حلیے سے کم از کم بھکاری نہیں لگا رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا، میں اس کے پاس گیا۔ میں نے قریب سے دیکھا ان کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔ارد گرد لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے وہ بے چاری تڑپ رہی تھی، درد سے کراہ رہی تھی۔میں ان کے پاس بیٹھ گیا، پوچھا اماں کیا ہوا؟؟ ۔ بڑی مشکل سے وہ اتنا بول پائی کہ کار ٹکر دے کر چلاگیا۔نہ کار والا رکا نہ ہی ارد گرد کھڑے لوگوں کو توفیق نصیب ہوئی کہ روڈ پر پڑی اماں کو اٹھا کر قریبی ہسپتال لے جاتے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

میں نے پاس ہی کھڑے رکشہ والے کو آواز دی، اماں کو اس میں بٹھا کر پاس ہی واقع سرسید ہسپتال لے گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد اماں کے موبائل سے ہی ان کے بیٹے کو فون کیا۔ چند لمحے بعد وہ پہنچ گئے۔ اماں کو ان کے حوالے کر کہ میں دفتر کی طرف چل پڑا۔

ظاہر ہے کافی دیر ہوگئی تھی۔باس کی خدمت میں پیش ہونا پڑا۔ ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کی غرض سے شروع سے آخر تک پوری کہانی سنا دی۔پھر کیا تھا،تدبیر الٹی ہوگئی، باس آگ بگولہ ہوگئے۔تم بڑے آئے انسانیت کی خدمت کے ٹھیکہ دار،نورالہدیٰ بن کر رہو، ایدھی بننے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ واپس اپنی نشست پرآبیٹھ کر دیر تک سوچتا رہاکہ ایک کوے کو مصیبت میں دیکھ کر سارے کوے بے چین ہوجاتے ہیں۔ دیوانہ وار مدد کے لئے کود جاتے ہیں، تو انسانوں کی مدد کا ٹھیکہ عبدالستار ایدھی، نعمت اﷲ خان، رمضان چھیپا پا پھر سیلانی نے ہی کیوں اٹھا رکھا ہے۔اشرف المخلوقات کہلانے کے حقدار پھر صرف یہ چند لوگ ہی ٹھہر ے ؟؟؟ ۔ ہم اور آپ پھر کس کھاتے میں ۔مجھے اس سوال کے جواب کی تلاش ہے۔ قارئین ! برائے مہربانی میری مدد کیجئے۔

Noor Ul Huda Shaheen
About the Author: Noor Ul Huda Shaheen Read More Articles by Noor Ul Huda Shaheen: 6 Articles with 4911 views Meri Zindagi Ka Maqsad Tery Deen ki Sarfarazi
Mai Isi Leye Mujahid Mai Leye Namazi
.. View More