چالیس صحافی خواتین کو بعوض پانچ لاکھ ڈالر

ثقافت ، رسوم اور رواج کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں اور صدیوں سے چلے آتے ہیں بلاشبہ کہ اِن میں سے بہت سے ناپسندیدہ بھی ہوتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں لیکن اکثر ان کا تعلق کسی مخصوص معاشرے کی ضروریات سے جڑا ہوتاہے اِن پر اس معاشرے کے مذہب کی ایک گہری چھاپ بھی ہوتی ہے ۔ اِن کو تبدیل کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا اور ایسا کرنے سے معاشرے میں جوار بھاٹا ضرور اٹھتا ہے ۔ لیکن اگر آج کل کے دور میں دیکھا جائے تو صرف چند سال کی محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک نئے خدوخال والا معاشرہ تشکیل پا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں میری نظر میں پہلا قدم لباس کی تبدیلی ہے کیونکہ اسے فیشن کے نام پر بہت جلدی بدل لیا جاتا ہے اور معاشرتی بے رہروی کو گھر کے اندر تک رسائی مل جاتی ہے۔ فیشن کی تبدیلی میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن اگر اس میں سے اپنی اقدار کو خارج کردیا جائے تو خرابی ناسور کی طرح وجود کے اندر تک سرایت کر جاتی ہے پھر اپنے دفاع کے لیے خیالات بھی بدل لیے جاتے ہیں اور خیالات بدلتے ہیں تو اعمال بدلنا بھی آسان ہو جاتے ہیں اپنے اقدار کو فرسودہ خیال کر کے ان سے جان چھڑالی جاتی ہے اور پھربات کا مذہبی اقدار تک پہنچ جانا بھی ممکن ہو جاتا ہے ۔ فرائض تو ادا کر ہی لیے جاتے ہیں لیکن اِن کے بھی اپنے اصول و ضوابط مرتب کر لیے جاتے ہیں۔

آج کے دور میں میڈیا نے صدیوں کے اس عمل کو سالوں تک محدود کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی دیکھتے ہیں ۔ ہمارا میڈیا اس مقصد کے لیے استعمال ہورہا ہے اور بے دریغ ہورہا ہے ۔ میڈیا لاکھ چیخے کہ وہ کسی سے فنڈز نہیں لیتا اینکرز لاکھ پارسابنیں اور چیلنجز دیتے رہیں کہ آئے اور کوئی ثابت کرے کہ انہوں نے کوئی غیر ملکی فنڈ وصول کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اور مغرب بہت مستقل مزاجی اور چالاکی سے میڈیا کے ذریعے تیسری دنیا کے خلاف بالعموم اور اسلامی ممالک کے خلاف بالخصوص جنگ لڑرہا ہے ۔ امدادی منصوبوں کے ذریعے وہ اب بھی اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مشنری جذبے کے تحت کام کر رہا ہے۔ براہ راست کسی کانونٹ میں یا کسی گرجے میں چند لوگوں کو بٹھا کر تبدیلی مذہب نہیں کر وا رہا بلکہ اب وہ معاشرے اور مذہب کی جڑوں اور بنیادوں میں پانی دے رہا ہے تاکہ پوری عمارت کو منہدم کردیا جائے اور یہ کام این جی اوز کے ذریعے لوگوں کی مدد کے نام پر باآسانی کیا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ کئیر انٹر نیشنل پاکستان کو سونپا گیا ہے کہ وہ خواتین کے معاشی استحکام کے لیے کام کرے۔ اگر حقیقت میں یہ منصوبہ صرف اسی حد تک محدود رہتا تو یقیناًقابل ستائش تھا لیکن بظاہر اس خوبصورت نام اور جذبے کے پیچھے جو عوامل کار فرماہیں وہ انتہائی بھیانک ہیں جس کے لیے چالیس صحافی خواتین کو بعوض پانچ لاکھ ڈالر خریدا جائے گا اور انہیں ایشیائی مسلم ممالک میں بھیجا جائے گا جہاں وہ خواتین اور مردوں میں مساوات کے لیے کیے گئے کام کا مطالعہ کریں گی بات یہاں تک بھی درست لیکن جب اِن خوشنما اقدامات کی آڑ میں اسلام کے اصولوں کو توڑ کر مرد اور عورت کو ایک ہی ماحول، انداز اور لباس میں ملبوس کرکے معاشرے میں لایا جائے گا تو وہ جوار بھاٹا اٹھے گا جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا اور جس کے مظاہر معاشرے میں مذہبی بے را ہروی اور مذہبی انتہا پسند دونوں صورتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک طبقہ مذہب سے دور ہوتا جاتا ہے تو دوسرا شدت پسندی سے اس طبقے کی مخالفت کرے گا اور دونوں صورتوں میں دشمن کا ایجنڈا پورا ہوتا رہے گا۔ اور یہ سب کرنے کے لیے ہی کئیر انٹر نیشنل پاکستان کو ذمہ داری سونپی گئی ہے اور میڈیا کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر چنا گیا ہے۔ ویسے اگر یہ سب نہ بھی ہو تو ہمارا میڈیا خود بھی ماڈرن ازم اور جدت پسندی کے شوق اور زعم میں سر پٹ دوڑتے ہوئے اپنے سُموں نیچے سب کچھ روند رہا ہے۔ نہ تو اس کے ڈرامے دیکھنے کے قابل ہیں نہ اشتہارات نہ مارننگ شوز اور یہاں تک کہ حالات حاضرہ کی اینکرز خواتین بھی اکثر ایسے لباس اور انداز میں نظر آتی ہیں جو معاف کیجئے گا کسی شریف خاندان میں ہرگز پسند نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں امریکہ جیسے ممالک سے پیسے لینے کے بعد تو یہ لوگ اپنے اَن داتاؤں کو خوش کرنے کے لیے نئی حدود دریافت کرکے ان آخری حدود تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور اس سب کچھ کے عوض مزید فنڈز اور پیسہ ان کے بینکوں تک پہنچ جاتا ہے اور ان کی آنے والی نسلیں مالی طور پر مزید خوشحال ہو جاتی ہیں اور ہمارے غریب عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ کو ان کی غربت ،بھوک اور افلاس کے غم میں نیند نہیں آتی۔ انہیں صرف اپنی روٹی اپنے کپڑے اور خوشحالی سے غرض ہے کہاں سے اور کیسے سب کچھ آئے وہ اس کے بارے میں تردد کرنے کی سوچ ہی نہیں رکھتے۔ وہ تو این جی اوزکے مشکور ہوجاتے ہیں کہ انہیں بیس مرغیاں، پانچ کدالیں دو بیلچے اور کچھ بیج دے گئیں جن سے ان کی معاشی حالت میں ایک اچھی تبدیلی آ تی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان تھوڑی سی چیزوں کے عوض ان کے ملک کے نام کو بیچا گیا اُسے بدنام گیا۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد ہوتا ہے لیکن پردہ نہ زیادتی ہے نہ تشدد یہ ہمارے مذہب کا حکم ہے اور بہت سی معاشرتی برائیوں سے بچنے کا ایک محفوظ اور آسان ذریعہ لیکن کم لباس مغرب اسے جس منفی طور پر پیش کرتا ہے وہ بذات خود ایک سازش ہے۔ ایک معصوم دیہاتی عورت نے ایک ایسی ہی این جی او زدہ خاتون کے بارے میں بتایا کہ کیسے اُس نے گاؤں کی چندان پڑھ خواتین کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے انگریزی زبان میں تقریر فرمائی اور انہیں خطاب سے پہلے ہدایات دیں کہ وہ اپنے چہرے مکمل طور پر ڈھانپ لیں سوائے آنکھوں کے کچھ نظر نہ آئے ایک خاتون کے چہرہ کھولنے پر اُسے سرزنش کی گئی۔ یہ خواتین اَن پڑھ ضرور تھیں مظلوم نہیں لیکن کیا معلوم انگریز ی میں انہیں کتنا مصیبت زدہ بیان کیا گیا اور ان کے نام پر کتنا کچھ وصول کیا گیا وہ خاتون یا این جی او دوبارہ اُس گاؤں میں نظر نہیں آئی لیکن پاکستانی عورت کی مظلومیت بھری داستان اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کر دیا گیا۔ سوات میں عورت اور کوڑے والی کہانی بھی پاکستان کی بدنامی کے لیے کافی تھی۔ مغرب تو کھلم کھلا ہماری روایات کو بدلنے کی مہم پر نکلا ہوا ہے ببانگ دہل اسلام کی مخالفت کرتا ہے ہماری کچھ بہت اچھی روایات کوبھی social abusesکا نام دے کر ہمارے نا خواندہ معاشرے کو بہکاتا ہے، عورت کے لیے پاکستان کو خطرناک ترین ملک قرار دیتا ہے، ملالہ اور شرمین عبید کو اس کے لیے ایوارڈ دیتا ہے، مختاراں مائی کو ہیروئن بنا کر پیش کرتا ہے یہ سب کچھ اُس کے حق میں اچھا ہے اور وہ اسے کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیوں اس کے ہاتھ بِک جاتے ہیں چند لاکھ ڈالر اور یورو کیوں ہمیں یہ بھلا دیتے ہیں کہ ہم ان کے عوض اپنی شناخت کھودیں گے ہماری حکومتیں اپنے سیاسی داؤ پیچ سے فارغ ہو جائیں، رشوت اور کرپشن سے اپنے محلات تعمیر نہ کریں، اپنا وقت اور اپنا نہ سہی عوام کا پیسہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے لگادیں توہم یو ایس ایڈ اور کئیر انٹر نیشنل جیسی تنظیموں کے محتاج نہ رہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے معاشی حالات میں بہتری لانا اپنی حکومت کا کام ہے کسی غیر ملکی این جی او کا نہیں مگر حکومت اگر اپنی نیند میں خلل برداشت کر سکے اور اسے اپنے ذاتی بزنس سے فرصت ملے تو وہ عوام کی طرف توجہ دے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اِن منصوبوں میں حکومت کا کتنا حصہ ہے میرے جیسے لوگ نہیں جانتے باخبر لوگ اگر بتا سکیں تو عوام مشکور ہوں گے۔

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552717 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.