حیا کے لفظی معنی شرم و غیرت کے
ہیں ۔اگر ہم ایک جملہ میں حیا کی تعریف کریں تو وہ یوں ہوگی کہ(حیا عورت کا
زیور اور مرد کی زینت ہے) حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ حیا صرف لباس کے پہننے
اور شرم کرنے کا ہی نام نہیں بلکہ حیا انسانی اعضا کے ہر عمل میں نظر آنے
کانام ہے ۔ یعنی ہمارے کانوں کی حیا، ہماری آنکھوں کی حیا، ہمارے دل کی حیا،
ہمارے دماغ کی حیا وغیرہ یعنی نہ ہم اپنی آنکھوں سے کوئی غلط منظر دیکھیں ،
نہ اپنے کانوں سے کوئی غلط فقرہ سنیں، نہ اپنے دل میں کوئی غلط بات لائیں
اور نہ اپنے دماغ میں کسی غلط خیال کا تصور کریں۔ بلکہ اپنے تمام اعضا کو
حیا کی چادر میںلپیٹ کر رکھیں اوراپنی عملی زندگی میں حیا ہی کو مرکوز
رکھیں تاکہ ہم بے حیائی کی لپیٹ میں نہ آئیں۔
حیا صنف نازک کے لئے قیمتی زیور ہے جس سے محروم ہوکر کوئی بھی عورت معاشرے
میں عزت و وقار کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف
عورتوں کے لئے ہی حیا کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے بلکہ اگر مرد بھی اس
اعلٰی اخلاق سے ناآشنا ہیں تووہ بھی معاشرے میں عزت و وقار کی نظر سے نہیں
دیکھے جاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو بھی تعلیم دی ہے
اورحیا کو مردوں کی زینت کہا گیا ہے ۔
مذہبی نکتہ نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ
وسلم نے متعدد بار شرم وحیا کی تاکید فرمائی ہے ۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشاد خوشبودار ہے ۔’’حیا جز و ایمان ہے‘‘۔خود اپنی عملی
زندگی میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوصاف حمیدہ کے ساتھ
شرم و حیا کے عظیم پیکر تھے ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کنواری لڑکیوں سے زیادہ شرم و حیا والے تھے ۔خصوصی طور سے عورتوں
کے لئے شرم و حیا کو ایک قیمتی گوہر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔جب کہ حیا دار
مردوں کی مثالوں میں حضرت سیدنا امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی
ہیں۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی امتیازی خصوصیات میں ایک حیا
بھی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حیا کا لحاظ فرماتے تھے
اورارشاد فرمایا کہ ’’عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں‘‘۔
دین اورایمان کی ایک اہم شاخ’’حیا‘‘ ہے ۔ حیا ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو
بہت سے گناہوں سے بچا لیتی ہے ۔چنانچہ جنسی نوعیت کے جتنے بھی گناہ ہیں ان
میں حیا ایک پردہ بن جاتی ہےایک رکاوٹ بن جاتی ہے اسی حیا کی وجہ سے انسان
غیر محرم عورت کی طرف نظر نہیں اٹھا سکتا ۔ حیا ہر اس کام سے روکتی ہے جو
گناہ کا سبب بنتے ہیں۔
مگر دور جدید میں ایک نظر مردوں کی طرف ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں
تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ہر طرف نفسانفسی ہے ، بے حیائی ہے ،بے پردگی، بد
نگاہی، منشیات، کیبل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ نے تو نوجوانوں کو دیوانہ بنایا
ہوا ہے۔ قرآن پاک میں ارشادربانی عزوجل ہے کہ :’’مسلمان مردوں کو حکم دو
اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے
ستھررا ہے ، بے شک اللہ عزوجل کوان کے کاموں کی خبر ہے ‘‘۔(پارہ1آیت130)
زمانہ زمان و مکاں سے مل کر وجود میں آتا ہے زمانہ سب لوگوں کے رہنے سہنے
کے طور طریقہ سے اچھا برا بنتا ہے اگر ہم اچھے انداز سے اپنی زندگی گزارتے
ہیں تو ہم ایک اچھے زمانہ کی پرورش کرتے ہیں اگر ہم اپنی زندگی برے اندار
سے بسر کریں گے تو ہم ایک برے زمانہ کو پروان چڑھائیں گے، اچھا برا زمانہ
ہمارے اپنے بس میں ہوتا ہے ہم اپنی عام زندگی میں بہت مرتبہ اپنے بزرگوں کو
یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ زمانہ قدیم بہت اچھا تھا کیونکہ اس میں شرم و حیا
تھی ۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اورایک
دوسرے کی ہر طرح سے مدد کرتے تھے مگر میرے خیال میں زمانہ قدیم اچھا تھا اس
کی وجوہات وہ نہیں ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے
کہ زمانہ قدیم کے لوگوں کے دلوں میں خوف خدا عزوجل تھا وہ اپنی زندگی
اسلامی اصولوں پر بسر کرتے تھے اور اپنی زندگی کے ہر عمل کو اللہ تعالٰی
اوراس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ادا کرتے تھے
۔لہٰذا معاشرے میں امن و امان بھی تھا اور شرم و حیا بھی تھی ،الفت ، محبت
بھی تھی ،مساوات کی فضا بھی تھی ۔ مگر اب اگر ہمارے زمانہ کی آنکھ میں حیا
باقی نہیں ہے اورہمارے معاشرہ ہمارا زمانہ تنزلی کی دہلیز پر کھڑا ہے تو وہ
صرف اور صرف ہماری اپنی کوتاہی کی وجہ سے کھڑا ہے۔
ہم اپنی اسلامی روایات کو بھول چکے ہیں اوراس مثالؔؔ’’کوا چلا ہنس کی چال
اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق ہم نے خود ہی اپنی تباہیوں کی بنیاد رکھ
دی ہے ۔ دوسروں کے انداز و اطوار کو اپنا کر اور اپنے دینی اصولوں و ضوابط
کو بھول کر ہم نے اپنے دین ہی کو فراموش کر دیا ہے تو پھر دینی اصولوں پر
ہم کیسے عمل کر سکتے ہیں ۔ دینی اصولوں سے ہی ہمیں یہ اصول شرم وحیا ملتا
ہے ۔
اسلامی تعلیمات کا ایک اہم سبق اخلاقیات ہے جو ہماری دنیوی اور معاشرتی
زندگی کے لئے راہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔اخلاقیات ہمیں زندگی کی نہ صرف
اعلٰی قدروں سے روشناس کراتیں ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے کی ہمیں تاکید
بھی کرتی ہیں۔شرم و حیا نہ صرف اسلامی نکتہ نگاہ سے بلکہ دنیا کی تمام مہذب
قوموں کے نزدیک ایک بے حد اہم ہے ۔ ’’حیا ایمان کی شاخ ہے ‘‘۔ کسی معاشرے
یا زمانے کے زوال کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی دینی تعلیمات کو بھول
جاتاہے اوراپنی زندگی سے ان تمام زریں اصولوں کو نکال کر ان کی جگہ خرافات
کو دے دیتا ہے تو وہ دین و دنیا دونوں سے کٹ جاتا ہے اورتنزلی کی دہلیز پر
اپنا قدم رکھتا ہے۔
زمانہ یا معاشرہ اسی سے خراب ہوتاہے۔اگر ہم اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیں
تو یہ حقیقت ہمارے نزدیک روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حیا اخلاق کی
روح ہے جب کہ بے حیائی برائیوں کی جڑ ہے ۔اگر انسان حیا کا دامن چھوڑ دے
اورشرم و حیا کے احساس سے بے گانہ ہو جائے تو پھر وہ مجسم بدی، بے حیائی
اوربد کاری کا شکارہوکر نگاہوں کی بھیانک تاریکیوں میں گمراہ ہوجاتاہےاور
شرم و حیا کی برائی نگاہوں سے شروع ہوکر سارے وجود پر چھا جاتی ہے۔
چودہویں صدی کے مجدد اعلٰی حضرت امام اہلسنّت مولانا الشاہ احمد رضا خاں
فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد اس بات کی دلیل ہے کہ ’’پہلے نظر
بہکتی ہے پھر دل بہکتا ہے اور پھر معاملہ ستر تک پہنچتا ہے‘‘۔
بے حیائی ایک ایسا زہر ہے جس سے پورا معاشرہ بلکہ پوری قوم لپیٹ میں آجاتی
ہے ، بے حیائی ہی کی وجہ سے بہت سی بیماریاں عام ہو گئی ہیں جن کا ہم نے
زمانہ ماضی میں ذکر تک نہیں سنا تھاوہ ہمیں زمانہ حاضر میں نظر آتی ہیں ان
میں سے ایک ’’ایڈز‘‘ بھی ہے ۔یورپین ممالک اوردوسرے ممالک کی نسبت ہمارے
ملک میں اس کی شرح کم ہے ۔ مگر یہ بیماری ہمارے ملک میں بھی موجود ہے جو
ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ یورپین ممالک کی بدحالی اور تباہی کے اسباب بے
حیائی اور فحاشی ہیں ۔یوں تو ہر کوئی کہتا ہے کہ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے
۔ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے مگر ہماری یہ ترقی ہمیں تباہی کی راہ پر
گامزن کر رہی ہے اور یہ وقت ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے اگر ہم نے اس وقت اپنے
آپ کو بہتر نہیں بنایا تو پھر ہمارا وہی حال ہو گا جو دوسری اقوام کا ہوا
ہے ۔
دور حاضر کی ایجادات ہی کو لے لیں بہت سی ایسی ایجادات ہیں جو انسان نے
اپنی آسانی لے لئے بنائی ہیں مگر ہمارا معاشرہ اس کے منفی پہلوؤں کو اپنا
کر مزید پستی کے مقام پر آگیا ہے ، انٹر نیٹ جسے لوگوں نے محض وقت کے ضیاع
کا ذریعہ بنالیا ہے۔اس پر بیٹھ کر اچھے اور تعمیری کام کرنے کی بجائے چیٹنگ
، غلط ویب سائیٹ کی سرچنگ وغیرہ کو اپنایا ہوا ہے ۔اس سے بہت سی اخلاقی
بیماریوں نے جنم، لے لیاہے مثلاً بے حیائی، فحاشی، بد زبانی ، بے حسی،
جھوٹ، خود غرضی اور احساسات کا مجروح کرنا وغیرہ |