جیسے جیسے عیدِ قرباں کے دن قریب آتے جارہے ہیں مویشی
منڈی میں جانوروں کی خریداری کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ
ہوتا جارہا ہے اور اب معاملہ صرف جانوروں کو دیکھنے کے لیے آنے والوں سے ہٹ
کر حقیقی خریداروں پر جا ٹھہرا ہے-
|
|
اسی حوالے سے ہماری ویب کی ٹیم نے گزشتہ روز کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ پر
قائم مویشی منڈی کا دورہ کیا اور وہاں آنے والے خریداروں سے ان کی مشکلات
اور پریشانیوں کے حوالے سے دریافت کیا- ہماری ویب کی ٹیم نے مویشی منڈی میں
موجود بیوپاریوں اور پھر خریدے گئے جانوروں کو گھر تک پہنچانے کے لیے یہاں
موجود ٹرانسپورٹروں سے بھی بات کی اور ان کے بھی مسائل جانے-
جو بنیادی مسئلہ خریداروں کو درپیش تھا وہ بیوپاری اور خریدار کے درمیان
جانور کی قیمت پر متفق نہ ہونے کا تھا٬ کہیں بیوپاری بہت زیادہ قیمت بتاتے
تو کہیں خریدار بہت کم قیمت لگاتے جس کی وجہ سے معاملہ طے نہ ہوپاتا-
جب ہم نے منڈی میں موجود چند خریداروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا وہ یہاں
کئی گھنٹوں سے گھوم رہے ہیں لیکن جس بھی جانور کے خریدنے کے حوالے سے بات
کرتے ہیں تو انہیں اتنی زیادہ قیمت بتائی جاتی ہے جو کسی صورت اس جانور سے
مطابقت نہیں رکھتی-
|
|
یہ خریدار کراچی کے دور دراز علاقوں سے یہاں آئے تھے اور ان کا کہنا تھا وہ
اپنے علاقوں میں موجود چھوٹی چھوٹی مویشی منڈیوں کو صرف اس لیے چھوڑ کر
یہاں آئے ہیں کہ یہ بہت بڑی مویشی منڈی ہے اور انہیں امید ہے کہ یہاں انہیں
اپنی مرضی کی قیمت پر اپنا من پسند جانور مل جائے گا-
ان خریداروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ مختلف علاقوں میں قائم چھوٹی چھوٹی
مویشی منڈیوں میں جانوروں کی تعداد کم اور قیمتیں زیادہ ہیں-
مختلف خریداروں کی رائے جاننے کے دوران ہمیں یہاں کئی سودے پایہ تکمیل تک
پہنچتے ہوئے بھی دکھائی دیے٬ ان خریداروں سے جب ہم نے جانور کی قیمت اور
معاملات طے ہونے کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں دام تو
بہت مانگے جاتے ہیں لیکن اگر آپ تھوڑی بات چیت کریں تو معاملہ بعض اوقات کم
میں بھی طے ہوجاتا ہے-
جب بیوپاریوں سے جانوروں کی زیادہ قیمت کا سبب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا
کہ انہیں جانوروں کو مویشی منڈی سے لے کر فروخت کرنے تک کئی قسم کے اخراجات
برداشت کرنے پڑتے ہیں جن میں مہنگا چارہ٬ گاڑی کا کرایہ اور منڈی کی فیس
سمیت دیگر کئی اخراجات شامل ہیں- اس کے علاوہ بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ ان
سے یہاں پولیس بھی رقم وصولتی ہے جس کی وجہ سے انہیں جانوروں مہنگے داموں
فروخت کرنا پڑتا ہے-
مویشی منڈی میں کئی ایسے بیوپاری دکھائی دیے جو گزشتہ 15 روز سے درجنوں
جانوروں کے ساتھ منڈی میں ہی موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اب تک صرف
چند جانور ہی فروخت کرپائے ہیں کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے منڈی میں خریدار
کم ہے اور جو ہے بھی وہ صحیح دام دینے کو راضی نہیں-
|
|
ان بیوپاری میں سے چند کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ کرایہ خرچ کر کے اپنے بقیہ
جانور اپنے گاؤں لے جائیں گے جبکہ بعض نے اس امید کا اظہار کیا کہ ممکن ہے
آخری کے 3 دنوں میں ہی ان کے بقیہ تمام جانور بھی فروخت ہوجائیں-
ایک طبقہ جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے منڈی میں موجود
ٹرانسپورٹر یا گاڑی والے جن کی مدد سے خریدار اپنا جانور اپنے گھر تک
پہنچانے کامیاب ہوتے ہیں ٬ ہماری ویب کی ٹیم نے ان لوگوں سے بھی خصوصی بات
چیت کی ان کے مسائل بھی جانے-
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سال مہنگائی کی وجہ سے منڈی میں خریداروں کی
کمی ہے جس کا اثر ان کے کام پر بھی آیا ہے اور دوسری طرف آئے روز ہونے والی
سی این جی کی بندش کی وجہ سے انہیں گاڑی پیٹرول پر چلانی پڑتی ہے اور ساتھ
ہی منڈی والوں کو بھی ہمیں فی پھیرہ 200 روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ
سے کی بچت بھی کم ہوتی ہے جبکہ زیادہ کرایہ لوگ دینا نہیں چاہتے-
منڈی میں گھومنے کے دوران ایک بیوپاری نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہاں جانور
فروخت کرنے والے چند ایسے گروپ بھی متحرک ہیں جو چار دانت کے جانور کے دو
دانت انتہائی صفائی کے ساتھ توڑ کر لوگوں کو دو دانت کا جانور بتا کر سستے
داموں فروخت کر رہے ہیں یا کم عمر جانور کو بھی انتہائی چالاکی کے ساتھ
فروخت کردیا جاتا ہے-
|
|
بیوپاری کا کہنا تھا عام لوگ اس چالاکی کو نہیں سمجھ پاتے اور صرف کم قیمت
دیکھ جانور لے جاتے ہیں٬ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ قربانی جیسے مذہبی فریضے
کی ادائیگی کے لیے انتہائی محتاط انداز اپنائیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ
وہ بھی ایسے لوگوں پر نظر رکھے اور ایسے اقدامات کی روک تھام کرے-
رات کا وقت ہوچکا تھا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس مویشی منڈی میں پہنچ
چکی تھی جبکہ متعدد افراد ایسے بھی تھے جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے تھے
اور اپنے جانور گاڑی میں چڑھا کر اب گھر کی جانب رواں دواں تھے- انہیں دیکھ
کر اب ہمیں بیوپاریوں اور خریداروں کے درمیان کچھ بات بنتی ہوئی محسوس
ہورہی تھی- |
|
|